Opposition-Resignation-Against-Imran-Khan-Government

ہومیو پیتھک استعفے

گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”استعفے تو ہماری جیب میں موجود ہیں،جب قیادت طلب کرے گی اُسے پیش کردیں گے“۔ یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے ہلکا ساایک”سیاسی اشارہ“کیا تو استعفے سید مرادعلی شاہ کی جیب سے نکل کر آناً فاناً ہی بلاول بھٹو زرداری کی جیب میں پہنچ جائیں گے۔ مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے استعفے فقط ایک دوسرے کی جیبوں میں ہی رُلتے رہیں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کی میز تک نہیں پہنچ سکیں گے تو آخر ایسے ”ہومیوپیتھک استعفوں“ کا وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کو کیا خاک نقصان ہوگا؟ جبکہ خود ا پوزیشن رہنماؤں کو اپنی اپنی جیبوں میں استعفے رکھ کر اِدھر اُدھرگھومنے سے کتنے”سیاسی نفلوں“ کا فائدہ حاصل ہو گا؟۔ کا ش! اس بابت بھی اپوزیشن الیون کے قائدین تھوڑا سا تفکر کرنے کی زحمت گورا کرلیتے تو اپوزیشن کے سیاسی مستقبل کے لیئے کیا ہی اچھا ہوتا۔ بہرحال اپوزیشن الیون کے منافقانہ قسم کے سیاسی رویہ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ اپوزیشن اراکین اسمبلی کے استعفے کبھی بھی اسپیکر کی میز تک کاخطرناک ”سیاسی سفر“ طے نہیں کرسکیں گے اور اگر بہت زور مارا بھی تو بس! یہ استعفے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جیب تک پہنچ کر اپنے طویل ”سیاسی سفر“کا اختتام کردیں گے۔ کیونکہ ایک بات سے تو ساری دنیا بخوبی واقف ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جیب میں اگر کچھ ایک بار داخل ہوجائے اور پھراُس شئے کا باہر نکل پانا کم و بیش ناممکن ہی ہوتاہے۔

اس لیئے غالب امکان یہ ہی ہے کہ استعفوں کی تحریک سے اپوزیشن الیون کے اتحاد پی ڈی ایم کا شیرازہ تو ضرور بکھر کر ریزہ ریزہ ہوسکتاہے لیکن اِن ”ہومیوپیتھک استعفوں“ سے کسی بھی صورت وزیراعظم پاکستان عمران خان کو مسندِ اقتدار سے اُتارا نہیں جاسکتا۔بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کی قانونی موشگافی کے مطابق”اپوزیشن اگر اپنے استعفے اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کرنے کی”سیاسی غلطی“ کرتی ہے تو وزیراعظم پاکستان عمران خان کا اقتدار ناقابل بیان حد تک مضبوط اور مامون ہوجائے گا“۔ ذرائع بتاتے ہیں اعتزاز احسن کے اس قانونی نکتے نے اپوزیشن الیون خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو سخت سیاسی تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔پیپلزپارٹی کی صفوں میں پیدا ہونے والی اس تشویشناک صورت حال کا پہلا ثبوت بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفی کھوکھر کے استعفے کی صورت میں سامنے بھی آچکا ہے۔دراصل مصطفی کھوکھر کا استعفا پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر چلنے والی سیاسی آندھی کا پہلا جھکڑ ہے۔ جس کا اولین مقصد پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہ باور کروانا ہے کہ ”مولانا فضل الرحمن کے مجنونہ جوشِ انتقام اور میاں محمد نوازشریف کے سینے میں لگی ہوئی سیاسی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے پیپلزپارٹی کے ارکین اسمبلی کو ”سیاسی خودکشی“ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور اگر کسی سیاسی مصلحت کے تحت استعفے لینا ناگزیر ہو بھی جائے تو پیپلزپارٹی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اپنے اپنے استعفے خوشی خوشی بلاول بھٹو زرداری کی جیب میں خاموشی سے رکھ تو دیں گے لیکن اس یقین دہانی کے بعد کہ اُن کے دیئے گئے استعفے بعد ازاں بلاول بھٹو زرداری کی جیب سے نکل کر اسمبلی کے اسپیکر کی میز تک نہیں پہنچیں گے“۔

جہاں تک پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کا سوال ہے تو لاہورکے جلسہ کا عبرت ناک انجام دیکھ کر اظہر من الشمس ہے کہ مسلم لیگیوں کے استعفے اسمبلی کے اسپیکر تک پہنچنا تو بہت دُور کی بات رہی، اَب تو یہ استعفے مریم نواز تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ کیونکہ لاہور کے حالیہ جلسے کی ناکامی نے عیاں کردیا ہے کہ مسلم لیگی ماضی کی طرح اس بار بھی نام نہاد نظریہ یا انقلاب کا ساتھ دینے کے بجائے ”سیاسی مفادات“ کی جانب جانا زیادہ پسند فرمائیں گے اور جیسا کے سب جانتے ہیں ”سیاسی مفادات“ حاصل کرنے کا امکان صرف شہباز شریف اور حمزہ شریف کی سیاسی حکمت عملی کا ساتھ دینے میں ہی ہے۔ جبکہ مریم نواز کی سیاسی شاہراہ تو کوٹ لکھپت جیل تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگی متوالے مریم نواز کے ہمراہ جیل کی سوکھی روٹی کھانے کے بجائے شہباز شریف کے سیاسی دسترخوان سے قیمے والے نان کی دعوت اُڑانا ہی پسند فرمائیں گے۔حالانکہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ شہباز شریف نیب کے چنگل سے اپنے آپ کو کس طرح سے چھڑا پائیں گے مگر اُ س کے باوجود بھی مسلم لیگیوں کو موہوم سی اُمید ہے کہ اگر مستقبل بعید میں شریف خاندان میں سے کسی فرد کے سر پر دوبارہ اقتدار کا ہما بیٹھ سکتا ہے تو وہ شہباز شریف یا حمزہ شریف تو ضرور ہوسکتے ہیں لیکن مریم نواز ہرگز نہیں ہوں گی۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کی کثیر تعداد کا استعفوں کی تحریک سے سیاسی لاتعلقی اختیار کرلینے کے بعد پیچھے اَب مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور انس نورانی جیسے سیاسی سورما ہی باقی بچتے ہیں۔جو جب چاہیں اُس وقت ہی اپنے اپنے استعفے منطوری کے لیئے عمران خان کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔مگر مصیبت یہ ہے کہ یہ سب کے سب اراکین پارلیمنٹ نہیں ہیں کیونکہ گزشتہ انتخابات میں انہیں اپنے اپنے حلقے میں تحریک انصاف کے اُمیدواروں کے ہاتھوں شکست کا بھیانک چہرہ دیکھنا پڑ گیا تھا۔ لہٰذا اَب ان سب کے پاس استعفے دینے کی اپنی سیاسی ضد کو پورا کرنے کا ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کی صدارت سے جبکہ محمود خان اچکزئی اور انس نورانی پی ڈی ایم کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے استعفے دینے کی اپنی ”سیاسی منت“ کو پورا کرلیں۔ویسے بھی رانا ثناء اللہ تو فر ما ہی چکے ہیں کہ”آر یا پار کا مطلب ہمارے نزدیک لاہور میں جلسہ کرنا تھا“۔ اگر آرپار کے معنی”پھسپھسا جلسہ“ ہوسکتاہے تو پھر استعفے سے مراد ”ہومیوپیتھک استعفے“کیوں نہیں لیئے جاسکتے؟۔یعنی اپوزیشن رہنماؤں کے ایسے استعفے جن سے پی ڈی ایم کا سانپ بھی مرجائے اوراپوزیشن رکن اسمبلی کی ”سیاسی کاٹھی“ بھی نہ ٹوٹے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 17 دسمبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں