shahbaz-sharif-opposition-leader

اپوزیشن بمقابلہ حکومت

کیا آپ جانتے ہیں کہ حکومت میں صرف دو نقطے ہوتے ہیں اور فقط اِن دو نقطوں کی بنیاد پر ہی ہر حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتی ہے یعنی پہلا نکتہ ملک چلانا اور دوسرا نکتہ اپنی حکومت بچانا جبکہ بیچاری حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کے اُوپر،نیچے پورے آٹھ نقطے ہوتے ہیں، پہلا نکتہ حکومت کو ایوان نہ چلانے دینا،دوسرا نکتہ ایوان سے واک آؤٹ کرنا،تیسرا نکتہ حکومت کی طرف سے پیش کیئے جانے والے ہر بل کی مخالفت کرنا،چوتھا نکتہ صرف تقریروں میں عوام کے مسائل کو اُجاگر کرنا،پانچواں نکتہ اپنے لیئے سرکاری مرعات میں ہر سال باقاعدگی اور انتہائی خاموشی کے ساتھ اضافہ کروانا، چھٹا نکتہ حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد بنانا،ساتواں نکتہ وقتاً فوقتاً احتجاج کی کال دے کر حکومت کے اوسان خطا کرتے رہنا اور آٹھواں نکتہ چونکہ ن کا ہوتا ہے اس لیئے اس کاکام ہمیشہ سے حکومت گرانا ہی ہواکرتاہے۔ اپوزیشن کے اِردگرد موجود باقی نقطوں کی مقابلے میں ن کا یہ آخری نقطہ اپنے کام میں اتنا زیادہ فعال، مستقل مزاج،موقع پرست اور وہمی واقع ہوا ہے کہ کہ اگر بدقسمتی سے اپوزیشن کی ن کا یہ نقطہ خود بھی حکومت میں آجائے،تب بھی یہ حکومت ضرور گراتا ہے بغیر اس بات کا دھیان کیئے کہ یہ حکومت ن کی اپنی ہے۔اب آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں ہماری موجودہ بیچاری حکومت اپنے صرف دو معصوم سے نقطوں کو لے کس طرح سے اپوزیشن کے آٹھ انتہائی خطرناک اور گھاگ نقطوں کے درمیان بُری طرح سے گھری ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب اپوزیشن کے تمام کے تمام نقطے بھرپور انداز میں حکومت کے دو نقطوں کی ”سیاسی روح“ قبض کرنے کے درپے آئے ہوئے ہیں۔ورنہ ماضی میں تو مشکل ہی سے اپوزیشن کے دو،چار نقطے حکومت کے مقابل آنے کی کوشش کیاکرتے تھے اور وہ بھی صرف اُس وقت تک جب تک حکومت ِوقت کے ہاتھ پاؤں نہیں پھول جاتے تھے،جیسے ہی حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوتے یہ نقطے بھی اپنے دو چار ذاتی قسم کے مطالبات منوا کر واپس اپوزیشن کے دیگر ”نکمے نقطوں“سے جاچپکتے تھے۔

خوش قسمتی سے پچھلی حکومت کو تو ”میثاق جمہوریت“ کی دیوی کا اتنا بھرپور آشیر باد حاصل تھا کہ پورے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اپوزیشن کا ایک بھی نقطہ ”این آراو“ کے نرم و گداز بستر سے اُترکر حکومت کے سامنے احتجاج کی نیت سے آنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ اس لیئے حکومت اور اپوزیشن باہم مل جل کر گھاٹ گھاٹ کا ”کرپشن سے آلودہ“پانی خوب سیر ہوکر پیتے رہے۔پچھلے دورِ اقتدار میں حکومت اور اپوزیشن کے عشقِ ممنوع کے ”سیاست باختہ“قصے کچھ اِس کثرت سے زبان زدِ عام ہوچکے تھے کہ دونوں جہاں سے بھی گزرتے عام عوام انہیں دیکھتے ہی اِن پر ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے تلخ و تیکھے جملے کسنا شروع کردیتے تھے۔سیاسی حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ کل کی حکومت اور اپوزیشن، آج کے ایوانِ سیاست میں اپوزیشن بنچوں پر تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے خلاف ایسی محبت و چاہت سے ایک دوجے کے ساتھ سر نیہوڑے بیٹھے ہوئے ہیں کہ دونوں پر یک جان،دوقالب کا گمان ہوتا ہے۔گزشتہ 35 برسوں سے پاکستانی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کی باریاں باربار لینے کا کھیل کھیلنے والے اِس نہج پر جاپہنچے ہیں کہ ایک دوسرے کی حکومتوں کو سالہا سال تک برداشت کرنے والے نئی حکومت سے چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں ہی اتنے زیادہ تنگ آگئے ہیں حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا اعلان کردیاہے۔یعنی تحریک انصاف کی حکومت مزید چند ماہ بھی دینا حالیہ اپوزیشن کے لیئے سیکورٹی رِسک سے کم نہیں ہے۔

اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن الائنس کے اعلان کے بعدبظاہر نظر تو یہ ہی آرہا ہے اقتدار کی راہدایوں میں فیصلہ کُن ”سیاسی جنگ“ کے آغاز کے لئے باقاعدہ طبلِ جنگ بجایا جاچکا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیئے تمام تر ضروری تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ اِس معرکہ اقتدار میں اپوزیشن،حکومت کے خلاف پوری طرح نہ صرف ایک پیچ پر ہے بلکہ اِس ایک نکتہ کے گرد آجمع ہوئی ہے کہ موجودہ حکومت کو جلد سے جلد گراناہے۔ اِس سے پہلے کہ یہ حکومت اپنے جارحانہ سیاسی رویووں سے اپوزیشن کی صفوں میں کشتوں کے پشتے لگادے۔ اپوزیشن کی طرف سے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے حکومتی قلعہ پر کی گئی سیاسی گولہ باری کا ابتدائی مرحلہ زبردست رہاہے۔جس کا فوری طور پر عمران خان کی حکومت کویہ نقصان ہوا ہے کہ حکومتی قلعہ کا سب سے مضبوط سمجھا جانے والا وہ حصہ جو ق لیگ کے چوہدری برادران کی حفاظتی تحویل میں ہے، بُری طرح لرزہ بر اندام ہے اور اُس حصہ کی کئی”سیاسی اینٹیں“ نکل کر اِدھر اُدھر جا چکی ہیں۔تحریک انصاف کے حکومتی قلعہ میں رُونماہونے والا یہ”سیاسی شگاف“ خبر دیتا ہے کہ اپوزیشن کامیاب پیش قدمی کرچکی ہے اور اگر حکومت کی طرف سے فی الفور اس ”سیاسی شگاف“ کو بھرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو پھر اپوزیشن اپنی اس عارضی کامیابی کی شہہ پاکر آنے والے دنوں میں مزیدایسے ”سیاسی شگاف“ حکومت کے قلعہ میں ڈالنے کی کوشش ضرور کرے گی کہ جس سے حکومتی اقتدار کے قلعہ کی بلند و بالا فصیلیں آسانی سے زمین بوس ہوسکیں۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری اِس”سیاسی معرکہ“ میں طاقتور اپوزیشن کا سب سے کمزور ترین پہلو یہ ہے کہ اُسے تحریک انصاف کی حکومت کے مقابلے میں شدید ”اخلاقی افلاس“ کا سامنا ہے اور یہ بات اپوزیشن رہنما بھی بخوبی جانتے ہیں کہ بغیر بہتر اخلاقی ساکھ کے کسی بھی سیاسی جنگ کو وقتی طور جیتا تو جاسکتا ہے لیکن زیادہ دیر تک اِس جیت کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔اس لیئے اپوزیشن کے لیئے ازحد ضروری ہے کہ حکومت کو گرانے سے پہلے وہ اپنی اخلاقی ساکھ کو بہتر بنائے یا پھر اُس وقت کاانتظار کرے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت کی اخلاقی ساکھ بھی اپوزیشن کی سطح پر آجائے۔جب تک ایسا نہ ہوگا اپوزیشن کے لیئے حکومت کو شکست دینا ناممکن ہی سمجھئے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 31 جنوری 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں