جب میری کلاس فیلو نے مجھے پہلی بار اس ویڈیو گیم کے بارے میں بتایا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا بھی کوئی گیم ہوسکتا ہے۔میں نے جب اس گیم کے وجود سے ہی انکار کر دیا تو میری دوست نے اس شرط میرے ساتھ یہ گیم شیئر کیا کہ میں اس کے بارے میں ہر کسی سے تذکرہ نہیں کروں گی۔خاص طور پر اپنے گھر والوں کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ ایک انتہائی خفیہ گیم ہے جس کی کوئی ویب سائیٹ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب نہیں۔صرف قابلِ اعتماد دوست ہی اسے فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔اس گیم کے بارے میں جتنا کچھ میری دوست نے مجھے بتا دیا تھا اس نے میرا تجسس آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔میں اسکول سے گھر آتے ہی سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئی اور گیم کو کھیلنے لگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گیم دوسرے تمام گیمز کے بہ نسبت کافی مختلف تھا۔اس گیم میں روزانہ ایک ٹاسک دیا جاتا جسے مکمل کرنے کے بعد اگلے مرحلے میں رسائی دے دی جاتی۔اس گیم کی عجیب بات یہ تھی کہ ہر ٹاسک ایسے کام پر مشتمل ہوتا تھا جس سے گیم کھیلنے والے کو اذیت اور تکلیف کا احساس ہو۔جیسے مجھے پہلے دن جوٹاسک دیا گیا وہ یہ تھا کہ اپنے چہرے پر پوری طاقت کے ساتھ دس تھپڑ ماروں اور اس کی ویڈیو بنا کر گیم کے منتظمین کو بھیجوں تاکہ مجھے اگلے مرحلے تک رسائی دی جاسکے۔ابتدا ء میں اس عجیب و غریب ٹاسک پر عمل کرنے کے بارے میں سوچنا بھی بڑا عجیب سا لگا لیکن جب اس ٹاسک پر میں نے عمل کردیا اور اس کی ویڈیو بنا کر گیم کے منتظمین کو بھیج دی تو پھر بہت مزا بھی آیا۔دن گزرتے گئے میں روز دئیے گئے ٹاسک پورا کرتی رہی اور اسے دنیا بھر میں دیگر گیم کھیلنے والوں کے شیئر بھی کرتی رہی۔جس پر ملنی والی رائے میرے حوصلہ اور شوق کو اور بڑھاوا دیتی رہی۔میرا ذہن اس حد تک اس گیم کے زیرِ اثر آچکا تھا کہ اب میرا کسی اور کام میں دل نہیں لگتا۔بار بار ایک ہی چیز ذہن پر دستک رہتی کہ کب نیا ٹاسک ملے گا اور کب میں اسے پورا کرکے اگلے مرحلے میں داخل ہوں گی۔گوکہ اس گیم کا ہرنیا ٹاسک پچھلے ٹاسک کے مقابلے انتہائی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتا تھا لیکن اس اذیت اور تکلیف سے ایک منفرد قسم کی مسرت بھی حاصل ہوتی تھی۔یہاں تک کہ وہ دن بھی آگیا جب میں نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اس گیم کے 49 ٹاسک مکمل کرلیئے اب صرف آخری ٹاسک رہ گیا تھا میں اسے بھی جلد سے جلد مکمل کر کے اس گیم کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی۔لیکن جو آخری ٹاسک گیم کی اسکرین پر آیا وہ بہت ہی خطرناک تھا اس میں لکھا تھا کہ اب مجھے اپنے ہاتھ کی نبض کاٹ کر اس گیم کے عکس کی تصویر بنانی تھی۔پہلے مجھے ڈر لگا کہ اس کام میں میری جان بھی جاسکتی ہے،مگر پھر اس گیم کو مکمل کرنے کی ایسی دھن سوار ہوئی کہ میں نے ایک بلیڈ لے کر اپنے ہاتھ کی نبض کاٹنا شروع کردی ابھی میں اپنے اس عمل کی ویڈیو بناکر گیم پر شیئر کرناکا کہ سوچ ہی رہی تھی اچانک میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں اسپتا ل کے بستر پر دراز تھی اور میرے اردگرد میرے گھر والوں کا ہجوم تھا۔کئی دنوں بعد جب میں مکل طور پر صحت یاب ہوگئی تو مجھے بتایا گیا اگر ذرا سی بھی تاخیر ہوجاتی تو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے موت کی آغوش میں چلی جاتی۔
یہ سچی کہانی انیس سالہ عائشہ کی ہے جسے چند دن پہلے پشاور کے خیبر ٹیچنگ اسپتال میں علاج کے لیئے لا یا گیا تھا۔یہ پاکستان میں بلیو وھیل چیلنجر نامی ”قاتل گیم“ کا پہلا باقاعدہ شکار تھا۔عائشہ کا علاج کرنے والے اسسٹنٹ رجسٹرار ڈاکٹر اعزاز کے مطابق بچی نے اسکول میں اپنی کلاس فیلو سے اس گیم کے بارے میں سنا تھا اور وہ اس گیم کی آخری اسٹیج پر پہنچ چکی تھی۔بچی کو اس کے والدین تشویش ناک حالت میں اسپتال میں لائے تھے۔بچی میں ڈپریشن کی تمام سنجیدہ نوعیت کی علامات بھی پائی گئیں تھیں تاہم ضروری علاج کے بعد بچی کو فارغ کردیا گیا۔ اس واقعہ کے بعدبھی مختلف اخبارات میں مزید پانچ اور نوجوانوں کی پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں اس گیم کی وجہ سے زندگی اور موت سے کشمکش کرتے ہوئے لانے کی خبریں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔بظاہر یہ بات ناقابلِ یقین سی لگتی ہے کہ کوئی ایسا گیم بھی دنیا میں اپنا وجود رکھتاہے،جسے کھیلنے سے کھیلنے والااپنی مرضی سے ہنسی خوشی موت کے منہ میں چلا جائے۔لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ بلیو وھیل چیلنجرنامی ایسا گیم نہ صرف اپنا وجود رکھتا ہے بلکہ اس قاتل گیم کو کھیلنے سے اب تک روس،ارجنٹائن، برازیل،بلغاریہ، چلی، چین، جارجیا،بھارت،اٹلی،کینیا،یوروگوئے،پیراگوئے،پرتگال،سعودی عرب،سربیا،اسپین،امریکہ اور دیگر ممالک میں اب تک ایک سو پچاس سے زائد افراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے موت کے گھاٹ اُتر چکی ہیں۔ماہرین کے مطابق اس ”قاتل گیم“ سے ہونے والی ہلاکتوں یہ تعداد اصل تعداد سے بہت کم ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار صرف اُن افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو یہ علم ہو گیا تھا کہ یہ لوگ بلیو وھیل چیلنجر کی ہی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہوں نے خود کشی تو اس گیم کی وجہ سے ہی کی ہوگی لیکن اُس کا علم لوگوں کو نہ ہوسکا۔ماہرین نے اصرار ہے کہ اگر اس گیم کی پروفائل اور ہسٹری کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اس قاتل گیم کے ہاتھوں دنیا بھر میں اب تک تین ہزار کے قریب افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ آن لائن کھیلے جانے والے بلیو وھیل چیلنجر نامی اس گیم میں کھیلنے والے کو پچاس دن میں مختلف ٹاسک دیئے جاتے ہیں جو بہت خطرناک اور اذیت ناک ہوتے ہیں تاہم آخری ٹاسک اس گیم میں لازمی طور پر خودکشی کرنے کا ہی دیا جاتا ہے۔ اس گیم کو کھیلنے والا شخص اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہر ٹاسک کو مکمل کر کے اس کی ویڈیو اور تصاویر بنا کر اس گیم کے منتظمین کو بھیجے۔ گیم کھیلنے والے شخص کو اس طرح سے ٹاسک دیئے جاتے ہیں کہ رفتہ رفتہ اس کا دماغ مکمل طور بے حس ہو جاتا ہے۔ابتدائی مرحلے کے ٹاسک میں رات کو نیند چھوڑ کر خوفناک فلمیں دیکھنا،قبرستان جانا،کسی بلند عمارت کے کنارے پر کھڑے ہونا، اپنے جسم کے مختلف حصوں کو کاٹ کر بلیووھیل نامی اس گیم کا عکس بنانا شامل ہوتا ہے۔ ان تمام مراحل کے دوران کھیلنے والے کو اپنی شناختی اور ذاتی معلومات بھی گیم کے منتظمین کو فراہم کرنا ہوتی ہے۔ان معلومات کو بعد میں کھیلنے والوں کو بلیک میل کرنے کے لیئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔آخری مرحلے میں خودکشی سے انکار پر کھیلنے والے کی ذاتی معلومات انٹرنیٹ پر شیئر کرنے کی دھمکی بھی دی جاتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس گیم کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ اس گیم کو شروع کرنے والے اس گیم سے اپنے آپ کو نکال نہیں پاتے۔ اس قاتل گیم کی نہ تو کوئی ویب سائیٹ ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ پر کہیں لنک موجود ہیں۔اسے خفیہ طور پر سوشل میڈیا بطور ِ خاص فیس بک کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلایا جارہا ہے۔
بلیووھیل نامی اس گیم کو 2013 ء میں فلپ بوڈکن نے تخلیق کیاتھا جس کا تعلق روس سے ہے،وہ خود بھی روس کی ایک یونیورسٹی میں نفسیات کا طالب علم رہا ہے،اُس نے نفسیات کی تعلیم کی تدریس کے دوران بطور مقالہ ڈگری کے حصول کے لیئے اس گیم کو بنایا تھا۔جس کے بعد اسے یونیورسٹی سے بلیک لسٹ کرنے کے بعد نکال دیا گیا تھا۔فلپ بوڈکن نے اس گیم کا تصور ساحل سمند ر پر آنے وھیل مچھلی سے لیا تھا جس کے بارے میں مشہو رہے کہ وہ خودکشی کے لیئے ساحلِ سمندر پر آجاتی ہے۔روس میں اس قاتل گیم نے کئی نوجوانوں کو خودکشی پر مجبور کیا،جس کی وجہ سے روس کی حکومت کی طرف سے سماجی تنظیموں اور میڈیا کے دباؤ پر فلپ بوڈکن کو مئی 2017 ء میں حراست میں لے لیا گیا۔ اس پر باقاعدہ مقدمہ درج کر کے عدالت میں کیس چلایا گیا۔مقدمہ میں فلپ کو سولہ لڑکیوں کو خودکشی پر اُکسانے کا مجرم قرار دیا گیا اور عدالت نے اس کو تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی اور و ہ ان دنوں ایک جیل میں اپنی سزا کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ فلپ بوڈکن کے مطابق اس گیم کے بنانے کا مقصد معاشرے سے فالتو لوگوں کا صفایا کرنا ہے جو انتہائی کمزور قوت ارادی کے مالک ہیں۔ اس کا مزیدکہنا ہے کہ ”جوشخص بھی اس دنیا میں ذہنی و نفسیاتی طور پر ایک کمزور اور بیمار ذہن رکھتا ہے اُسے اس دنیا میں رہنے کو کوئی حق نہیں۔ویسے بھی جو میرے اس بنائے ہوئے گیم کو کھیلتا ہے وہ خود کشی کا فیصلہ خود کرتا ہے میرا گیم تو صرف اُس کے اندر موجود مرنے کے جذبے کو بیدار کرتا ہے اگر کوئی خود ہی زندہ رہنا نہیں چاہتا تو اُس کا الزام مجھے یا میرے گیم کو کیوں دیا جائے۔آخر میں نے بھی تو یہ گیم بنا یا ہے مگر میں نے تو کبھی بھی اپنے آپ کو خود کشی پر آمادہ نہیں پایا۔اس سے ثابت ہوتا ہے میرا گیم صرف اور صرف کمزور لوگوں کے لیئے خودکشی کا باعث بنتا ہے۔مجھے اپنی اس ایجاد پر فخر ہے اب مجھے اگر موت کی سزا بھی دے دی جائے تو کوئی غم نہیں“۔
یہ قاتل گیم انسانی دماغ کے لئے کتنا زیادہ خطرناک اور مہلک ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ماہرنفسیات ڈاکٹر عمران کی زیرِ نگرانی اس گیم سے متاثرہ اکیس سالہ ایک اور نوجوان کا بھی علاج کیا جارہا ہے۔یہ نوجوان خیبر پختونخواہ کی ایک بڑی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل انتہائی قابل آئی ٹی پروفیشنل ہے۔جسے اس گیم کو کھیلنے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی۔اس نوجوان نے صرف اس قاتل گیم کی شہرت سن کر اس گیم کی حقیقت کو تفصیلی طور جانچنے کا فیصلہ کیا۔جس کے بارے میں اس نے اپنے تمام دوستوں اور گھر والوں کے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اُس کی نیت صرف اس گیم کے سربستہ رازوں اور حقائق سے پردہ اُٹھانا ہے۔لیکن جب اس نوجوان نے اس گیم کی حقیقت جانچنے کے لیئے عملی کام کا آغاز کیا تو اُس کا دماغ ماؤف ہوگیا اوروہ اتنا زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوگیا کہ اس وقت وہ خود خیبر ٹیچنگ اسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں زیرِ علاج ہے۔
اس قاتل گیم نے ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاں ہزاروں نوجوان اس گیم کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔بھارت میں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر اس گیم کی ہلاکت خیزیوں سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کے لیئے باقاعدہ ایک مہم بھی شروع کی گئی۔ دہلی پبلک اسکول،رائے پور کی انتظامیہ نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے نویں کلاس کے ہندی کے امتحانی پرچے میں بلیو وھیل نامی اس گیم کے بارے میں باقاعدہ ایک سوال بھی شامل کردیا تھا۔ جس میں طلبا ء سے کہا گیا کہ وہ اپنے لفظوں میں بلیووھیل گیم کے نقصانات کے بارے میں ایک مضمون لکھیں۔گو کہ کچھ حلقوں نے اس سوال کو امتحانی پرچے میں شامل کر نے پر اعتراض بھی کیا لیکن اسکول انتظامیہ کا موقف ہے انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اور ایک انتہائی قابل ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنے کے بعد ہی اس سوال کو بچوں کے بہترین مفاد میں امتحانی پرچے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان زیادہ تر تنہا اور بغیر کسی کی رہنمائی کے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جس سے نوجوانوں کے اس قاتل گیم کے ذریعے بہکنے کے امکانات بہ نسبت دوسرے ممالک کے نوجوانوں کے زیادہ ہیں۔جبکہ دوسری طرف ہمارے ملک میں مختلف طرح کی دہشت گرد تنظیمیں بھی سرگر م ہیں جس کی وجہ سے خدشہ خارج از امکان نہیں ہے کہ مستقبل میں یہ گیم دہشت گرد گروہ ہماری نوجوان نسل کے اذہان کو تباہ و برباد کرنے کے لیئے استعمال کرنا شروع نہ کردیں۔اس لیئے والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں اور اگر کوئی بھی ایسی علامت نظر آئے جس سے انہیں احساس ہو کہ اُن کا بچہ ضرورت سے زیادہ تنہائی پسند ہوتا جارہا یا مختلف طریقوں سے اپنے جسم کو زخمی کر رہا ہے تو فوری طور پر وہ اس کا موبائل یا کمپیوٹر خود چیک کریں یا کسی اور سے کروائیں تاکہ اس قاتل گیم کے ہولناک اثرات سے اپنے بچہ کوبچانے کا بروقت تدارک کیا جاسکے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 08 اکتوبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023