Sindh Politics Bilawal

سندھ کا لمحہ بہ لمحہ بدلتا سیاسی منظر نامہ

روز بہ روز ایم کیو ایم کے دھڑوں کے آپسی اختلافات میں پیدا ہوتی شدت اور بڑھتی ہوئی تلخی کے باعث سندھ میں ایم کیو ایم کے مستقبل پر سوالیہ نشان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم عملاً پانچ حصوں میں منقسم ہے ایم کیو ایم کی اصولی اور نظریاتی قیادت تو ایم کیو ایم لندن کے پاس ہے جن کایہ دعوی ہے کہ کراچی میں مہاجر ووٹ بنک پاور ان کے پاس ہے حالانکہ اب یہ دعوی اتنا کھوکھلا ہو چکا ہے کہ دعوے دار خود بھی شرمندہ شرمندہ سے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کا دوسرا حصہ ایم کیو ایم پاکستان ہے جس کی آدھی قیادت جو ہر لمحہ کم ہوتی جارہی ہے فاروق ستار کے پاس ہے۔ایم کیوایم کا تیسرا حصہ ایم کیو ایم بہادرآباد ہے جس کی نیابت بظاہر تو خالد مقبول صدیقی کے کمزورو ناتواں کندھوں پر ہے لیکن شنید یہ ہے کہ اُنہیں صرف دکھاوے کے لیئے آگے رکھا گیا ہے اصل میں ایم کیو ایم بہادرآباد کے اصل روحِ رواں عامر خان ہیں۔ایم کیو ایم کا چوتھا دھڑا ایم کیو ایم حقیقی ہے جس کی قیادت آفاق احمد کے پاس ہے گو کہ اس کی کوئی عوامی حیثیت تو نہیں ہے لیکن کچھ کارکنان اور کچھ منتخب علاقے ان کے پاس ضرور ہیں، جس کے باعث یہ دھڑا آئندہ انتخاب میں ایک پریشر گروپ کی شکل میں اپنا کوئی رول ادا کرسکتاہے۔ ایم کیو ایم کا پانچواں دھڑا پی ایس پی کے نام سے ہے، ویسے اس دھڑے کے روحِ رواں مصطفی کمال اپنے آپ کو ایم کیو ایم کا حصہ کسی صورت تسلیم نہیں کرتے اور ان کی بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کیونکہ ایم کیو ایم نام کا کوئی بھی لاحقہ اُن کی جماعت کے ساتھ لگا ہو ا نہیں ہے لیکن پھر بھی مصطفی کمال اس حقیقت سے کسی صورت انکار نہیں کر سکتے کہ پاک سرزمین پارٹی میں ایم کیو ایم کے زیادہ تر وہ کارکنان شامل ہیں جو ماضی میں ایم کیو ایم کی اصل قوت و طاقت سمجھے جاتے تھے یا یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے ہی ایم کیو ایم جیسی جماعت کا ایک منظم نیٹ ورک قائم تھااور ہر الیکشن میں ایم کیو ایم کو کامیابی دلانے میں اصل کردار ہمیشہ یہ ہی لوگ اداکرتے تھے۔شاید اسی لیئے پی ایس پی کے عہدیداروں کو یہ قوی امید ہے کہ وہ اگلے عام انتخاب میں بھرپور فتح حاصل کریں گے کیونکہ ایم کیو ایم کو ہر انتخاب میں فتح سے ہم کنار کرنے والی اصل چابی تو بہرحال ان کے پاس ہی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے نئے معرضِ وجود میں آنے والے دونوں دھڑوں کے اختلافات کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی کراچی میں سیاسی گرفت بُری طرح کمزور ہوتی جارہی ہے۔پاک سرزمین پارٹی نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑوں کی پتنگیں کاٹنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی ایم کیو ایم کے متعدد ارکان اسمبلی اور رہنما پاک سرزمین پارٹی سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ان کی پی ایس پی میں جلد شمولیت کا امکان پایا جاتا ہے۔اس وقت ایم کیو ایم کی صفوں میں اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مایوسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ متعدد رہنما اور کارکن انتہائی سرعت کے ساتھ ایم کیو ایم سے اپنی جان چھڑارہے ہیں۔اس بڑھتی ہوئی سیاسی افراتفریح میں ایم کیو ایم سیاسی طور پر بالکل مفلوج نظر آتی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر آنے والے چند ہفتوں میں ایم کیو ایم کے آپسی اختلافات مکمل طور پر ختم نہ ہوئے تو ایم کیوایم کے لیئے2018 ء کے انتخابات میں چھوٹی موٹی کامیابی کے امکانات بھی انتہائی معدوم ہوجائیں گے۔ دوسری جانب پاک سر زمین پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم میں جاری اس تباہ کُن سیاسی صورتحال کا بھرپور فائدہ اُٹھارہی ہیں۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی تحریک انصاف اور شبیر قائم خانی کی اپنے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت بھی حالیہ دنوں میں ایم کیو ایم کے لیئے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔حالات بتا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں دوبارہ سے یکجا ہونا تو بہت دور کی بات ہے، شاید کسی ایک موقف پر بھی نہ آسکیں۔ پاک سرزمین پارٹی نے سندھ بھر میں اپنے کارکنان کو آنے والے انتخابات کے لیئے متحرک اور فعال کر دیا ہے۔مصطفی کمال نے اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے اس سلسلے میں اپنی تین نکاتی انتخابی حکمت عملی بھی ترتیب دے دی ہے،جس کے مطابق پہلے یونین کونسل کی سطح پر عوامی اجتماعات کا انعقاد ہوگا،دوسرے مرحلے میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی سطح پر عوامی اجتماعات منعقد کیئے جائیں گے جبکہ تیسرے مرحلے میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد یقینی بنا یا جائے گا۔ذرائع کے مطابق پاک سرزمین پارٹی نے آئندہ انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر نئے چہرے لانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔اس کے علاوہ سندھ بھر میں زیادہ سے زیادہ انتخابی نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیئے ہم خیال دھڑوں سے انتخابی اتحاد بنانے کے لیئے اپنے بھرپور سیاسی رابطوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔
کراچی میں جیسے جیسے ا یم کیو ایم بکھر رہی ہے اس خلا کو پر کرنے کے لیے پی ایس پی کے علاوہ دیگر قومی جماعتیں بھی متحرک ہورہی ہیں۔کراچی کے وہ علاقے جو کبھی متحدہ کے زیر اثر ہوتے تھے اور جہاں کسی دوسری جماعت کا داخلہ ممنوع خیال کیا جاتا تھا۔اب اُن علاقوں میں کسی حد تک پاکستان کی مختلف قومی جماعتیں بالخصوص پی پی پی بہت زیادہ فعال دکھائی دے رہی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے لیاقت آباد، ناظم آباد، گلبہار، نیو کراچی، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، ملیر، لانڈھی کورنگی اور شاہ فیصل کالونی جیسے علاقوں میں یو سی کی سطح تک دفاتر قائم کیے جارہے ہیں اور ایم کیو ایم کے سابقین کو شامل کیا جارہا ہے، لیاقت آباد میں ایم کیو ایم کے معروف نام ارشد کلائی کو پی پی پی کا چیئرمین بنادیاگیا ہے اسی طرح ان علاقوں میں بیروزگار نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کا آسرا بھی دیا جارہا ہے۔ پی پی پی کی انتہائی کوشش ہے کہ کراچی میں وہ ایم کیو ایم کے خلا کو پر کرے۔ چوں کہ وہ اقتدار میں بھی ہے اس لیے اس کے پاس کسی بھی دوسری جماعت کی بہ نسبت دینے لیے تو بہت کچھ ہے۔ بہر حال لسانی اثر و رسوخ والے علاقوں میں قومی جماعتوں کا فعال ہونا ایک اچھا شگون ہے جبکہ ملک کی ایک اور بڑی قومی جماعت پی ٹی آئی ہے جس نے ڈاکٹر عامر لیاقت کی صورت میں ایم کیوایم میں ایک بہت بڑی نقب لگادی ہے۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین حسین کی شخصیت چاہے کتنی ہی متنازعہ کیوں نہ ہو لیکن کراچی میں ان کے سیاسی اثرورسوخ سے انکار کرنا بیوقوفی کے مترادف ہے۔میرے نزدیک عامر لیاقت حسین آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے لیئے کراچی میں ایک بہت بڑا ”سیاسی جیک پاٹ“ ثابت ہونے جارہے ہیں۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ 2013کے الیکشن میں کراچی سے عمران خان نے 8لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے اور عامر لیاقت حسین فیکٹر اس میں مزید اضافہ کا باعث بنے گا۔اس وقت بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے سیاسی منظر نامہ سے تحلیل ہونے کے بعد اہل کراچی کی سیکنڈ چوائس پاک سرزمین پارٹی اور پی ٹی آئی ہی ہیں۔اسی لیے اب یہ امید کی سکتی ہے کہ اگر آئندہ انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی اور تحریک انصاف کے مابین کوئی انتخابی اتحاد ہوجاتا ہے تو پھر ان دونوں جماعتوں کے کامیابی کے امکانات بہت زیادہ روشن ہوجائیں گے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 26 اپریل 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں