Neeki Ka Chiragh

نیکی کا چراغ۔۔۔!

عصر کی نماز اختتام پذیر ہوچکی تھی اور اکثر نمازی پیش اِمام کے اقتداء میں دُعا مانگنے کے بعد ایک ایک کر کے مسجد سے اپنے گھر،دفتر یا کاروبار پر واپس روانہ ہونا شروع ہوگئے تھے، جبکہ چند ایک نمازی ایسے بھی تھے جو مسجد میں رُک کر ادائیگی نوافل اور ذکر اذکار میں پھر سے مصروف ہوگئے۔میں بھی بس مسجد سے نکلنے ہی والا تھا کہ اچانک میری نگاہ نمازیوں کی آخری صف میں بیٹھے ہوئے ایک آٹھ سال کے معصوم سے بچہ پر پڑی،جو ایک طرف کونے میں بیٹھا،اپنے چھوٹے چھوٹے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیئے رو رو کر اللہ پاک سے نہ جانے کیا کچھ مانگ رہا تھا؟ بچہ کے دل موہ لینے والے اندازِ مناجات نے مسجد سے اُٹھنے والے میرے تیز تیز قدموں کو یکلخت ہی ساکت کردیا۔ بظاہر بچے کے لباس میں جگہ جگہ پیوند لگے تھے مگر حیران کُن طور پر کپڑے نہایت ہی صاف ستھرے اور اُجلے تھے۔ جیسے کسی نے تھوڑی دیر پہلے ہی استری کرکے بڑے لاڈ اور پیار سے بچہ کو پہنائے ہوں۔بارگاہ ایزدی میں فریاد کرتے ہوئے بچے کی آواز وفور جذبات سے کچھ رندھ سی گئی تھی اور اس کے نرم وملائم سے زردی مائل گال آنسوؤں سے پوری طرح بھیگ چکے تھے لیکن بچہ کی دُعا تھی کہ ختم ہونے کانام ہی نہ لے رہی تھی۔مسجد میں موجود سب ہی لوگ اس معصوم سے بچہ کی طرف کسی نہ کسی حد تک ضرور متوجہ تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد کن انکھیوں سے بچہ کو ایک نظر دیکھنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ شاید مجھ سمیت ہر نمازی کو یہ ہی تجسس لاحق تھا کہ آخر بچہ کی رقت آمیزدُعا کا منطقی انجام کیا ہوگا؟ لیکن وہ بچہ اپنے اردگرد موجود لوگوں سے بالکل بے خبر اللہ پاک سے راز و نیا میں ایسا مگن تھا کہ کسی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ مجھے بچہ کی یہ ادائے بندگی کچھ ایسی بھائی کہ گھر جانے کا ارادہ ملتوی کرکے اس کے بالکل قریب جاکر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ بچہ کب اپنی دلسوز دُعا سے فارغ ہو،تاکہ میں اِسے اپنے سینے سے لگا کربہت سا پیار کرسکوں۔پس جیسے ہی اُس بچہ نے آمین کہتے ہوئے دعائیہ ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرا،میں نے آگے بڑھ کر ا س کا ننھا سا ہاتھ پکڑااور اُسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا”بیٹا!اللہ پاک سے کیا مانگ رہے تھے؟“۔

”میرے ابو مر گئے ہیں،ان کیلئے جنت۔۔۔۔میری امی ہر وقت روتی رہتی ہیں،اُن کے لئے صبر۔۔۔۔میری بڑی بہن ماں سے نئے کپڑے مانگتی ہے، اس کے لئے پیسے مانگ رہاتھا۔“ بچہ نے آستین سے اپنی آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔بچے کا اتنا مدلل اور باربط قسم کا جواب سُن کر میرا تجسس دوآتشہ ہوگیا اور میں نے فوراً ہی دوسرا سوال کیا”کیا آپ سکول جاتے ہو؟بچے نے کہا”ہاں جاتا ہوں“۔میں نے پھر پوچھا۔”کس کلاس میں پڑھتے ہو؟“۔



”نہیں انکل! آپ میری بات کا مطلب بالکل ہی غلط سمجھے، میں اسکول پڑھنے نہیں جاتا،ماں مجھے روز صبح سویرے چنے پکاکر دیتی ہے۔ میں وہ چنے لے جاکر سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ہوں، اسکول میں بہت سارے بچے ہاف ٹائم کے دوران میری چھابڑی پر آتے ہیں اور مجھ سے چنے خریدتے ہیں۔میرا اسکول سے بس اتنا سا ہی تعلق ہے“۔بچے نے ناصحانہ انداز میں میرا مغالطہ رفع کرتے ہوئے جو جواب دیا، اُس نے میری زبان کو چند لمحوں کے لیئے گنگ کر کے رکھ دیا اور بچے کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ مجھے پوری طرح اپنی روح میں اتر تا محسوس ہورہا تھا۔
”اچھا یہ بتاؤ!تمہارا اِس شہر میں کوئی رشتہ دار ہے؟“۔
”میری ماں کہتی ہیں کہ غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا،کوئی پڑوسی نہیں ہوتا اور کوئی دوست نہیں ہوتا۔ میری امی تو یہ بھی کہتی ہیں کہ رشتہ دار ہمیشہ اُن کے ہوتے ہیں جو رشتے نبھانے کی مالی سکت رکھتے ہیں،چونکہ ہم غریب ہیں اِس لیئے کوئی ہمیں اپنا رشتہ دار نہیں مانتا، جبکہ ہمارے پڑوس میں رہنے والے فقط اُس پڑوسی کو ہی کھانا، شیرینی یا نیاز وغیرہ پکا کر بھیجتے ہیں جن کے گھر سے جواب میں کچھ آنے کی اُمید ہوتی ہے۔پس! یوں سمجھ لیجئے ہمارا کوئی پڑوسی بھی نہیں ہے۔ انکل! آپ کو بھلے ہی یہ سب باتیں عجیب لگیں،مگر مجھے اپنی ماں کی کہی ہوئی اِن سب باتوں پر پورا یقین ہے کیونکہ میری ماں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں،لیکن جب ہم بہن بھائی کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور میں کہتا ہوں،ماں جی! آپ بھی کھانا کھاؤ تووہ کہتی ہیں، میں نے کھانا کھالیاہے۔انکل! نہ جانے کیوں، بس اُس ایک لمحہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری ماں مجھ سے جھوٹ بول رہی ہے“۔بچہ بغیر رُکے بے تکان فر فر بولے جارہا تھا اور میں اُس چھوٹے سے بچہ کی بڑی بڑی باتوں پر حیران بھی ہورہا تھا اور پریشان بھی۔

”بیٹا! اگر آپ کو گھر کا تمام خرچ مل جائے تو تم پڑھوگے؟“۔
”بالکل نہیں کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے نے کبھی میری دلجوئی نہیں کی، بس عجیب عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے پاس سے گزر جاتے ہیں،مجھے تو پڑھے لکھے نمازی اپنے ساتھ نماز پڑھنے سے بھی منع کردیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ”بچے تم اگر ہمارے ساتھ کھڑے ہوکر نماز پڑھو گے تو ہماری نماز نہیں ہوگی، اس لیئے سب سے آخری صف میں میں جاکر کھڑے جاؤ“۔میں ہر روز اس مسجد میں آتا ہوں اور آخری صف میں کھڑا ہوکر نماز پڑھ کر چلا جاتاہوں۔ حالانکہ یہاں آنے والے تمام لوگ میرے والد کو اچھی طرح جانتے تھے،مگرمجھے کوئی نہیں جانتا“۔ یہ کہہ کر بچہ نے ز ور زور سے رونا شروع کردیااور وہ میرے سینے سے لگ کر باربار ایک ہی سوال دہرانے لگاکہ ”انکل!جب کسی بچہ کا باپ مر جاتا ہے تو سب جاننے والے اجنبی کیوں بن جاتے ہیں؟“۔

میرے پاس بچے کے اِس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا،سچ پوچھئے تو میرے پاس بچے کی کسی بھی بات کا کوئی جواب نہیں ہے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے،جبکہ سچ صرف بچے ہی بولتے ہیں کیونکہ نیکی کا چرغ ہی تو ہوتے ہیں۔

حوالہ: یہ کہانی سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور کے شمارہ میں 23 مئی 2019 کی اشاعت میں شائع ہوئی

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں