Nazim-Jokhio-Murder

ناظم جوکھیو کا “خون ناحق” رنگ لائے گا؟

بعض قتل،صرف قتل ہوتے ہیں اور انہیں قاتل کے لیئے قانون کی کتابوں میں داخل دفتر کرنا یا کروانا بے حد آسان اور سہل کام ہوتاہے۔ لیکن ناظم جوکھیوکا الم ناک قتل، بلاشبہ کسی بھی عام سی موت، سانحہ اور حادثہ سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ عین ممکن ہے کہ فی الوقت پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کو اس بات کا ادراک اور احساس نہ ہو سکے کہ یہ ایک”قتل ِناحق“کس کس کے ہاتھ پر اپنے لہو کے چھینٹے تلاش کرنے کی صلاحیت و قوت رکھتاہے۔ مگر عن قریب جب پاکستان پیپلزپارٹی بطور ایک سیاسی جماعت ناظم الدین جوکھیو کے قتل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی محرکات کا شکار ہوگی، تو اُسے بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ ناظم جوکھیوکا قتل صوبہ سندھ کے سیاسی منظرنامے پر، اُس کے سیاسی چہرہ پر کس قدر بدنما اور بھیانک داغ چھوڑگیا ہے۔

یاد رہے کہ مقتول 27 سالہ ناظم الدین جوکھیو کا تعلق ملیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں آچر سالار جوکھیو سے تھا۔ یہ سندھی نوجوان، ضلع کونسل کراچی میں ملازم تھا، مقتول نے بعد ازمرگ اپنے پیچھے سوگواران میں ایک بیوہ، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ناظم جوکھیو کے بچوں کی عمریں بالترتیب ایک سال سے پانچ سال تک کے درمیان ہیں۔ناظم الدین کا جرم یہ تھا کہ اُسے سائبیریا کے سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں سے شدید محبت تھی۔ اس بے وقوف کو مہمان پرندوں سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اُس نے عرب شکاریوں کو مہمان پرندے تلور کے شکار سے باز رکھنے اور روکنے کی پاداش میں اپنی قیمتی جان تک بھی قربان کردی۔ ناظم الدین جوکھیوکے بھائی افضل جوکھیو کے مطابق”اُس کے بھائی نے ابتداء میں عرب شکاریوں کو گاؤں میں تلور کا شکار کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔لیکن جب وہ انہیں نہ روک سکاتو اُس نے اُن کے شکارکرتے ہوئے بہیمانہ مناظر کی ایک ویڈیو بنا کر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر شائع کردی۔

عرب شکاریوں کے شکار کی ویڈیو جب تیزی سے وائرل ہونے لگی توعلاقے کے جاگیردار اور عرب شکاریوں کے میزبان جام اویس گہرام جوکھیو کے ہرکاروں کی جانب سے مجھے دھمکی آمیز فون آنے لگے اور ایک ہی بات کا بار بار تقاضا کیا جانے لگا کہ جلد ازجلد اس ویڈیو کو سوشل میڈیا سے ہٹا دیا جائے۔ لیکن جب ناظم جوکھیو نے میرے کہنے کے باوجود بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ویڈیو ہٹانے سے صاف انکار کردیا تو مجھے جام کے منیجر کا پیغام آیا کہ میں اُسے لے کر جام اویس گہرام جوکھیوکی اوطاق پر پہنچوں۔ تاکہ اس قضیہ کا کوئی تصفیہ تلاش کیاجاسکے۔جب میں اپنے بھائی ناظم جوکھیو کو جام اویس کی اوطاق پر پہنچا تو وہاں موجود جام کے ملازموں نے میرے بے قصور بھائی ناظم پر لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ سے تشدد کرنا شروع کردیا۔میں نے جام سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی طلب کی۔ لیکن جام صاحب نے کہا کہ”کوئی معافی نہیں ملے گی، تم لوگوں نے میرے مہمان کی بے عزتی کی ہے“۔بعدازاں انہوں نے ناظم جوکھیو کو زخمی حالت میں ایک کمرے میں بند کر دیا اور مجھے کہا کہ جاؤ صبح آ جانا اور اپنے بھائی کو لے جانا۔ صبح میں اپنے بھائی کو گھر لے تو آیا لیکن اُس وقت تک جام اویس گہرام کے ہرکارے اُسے ہلاک کرچکے تھے“۔

ابتدائی تحقیقات میں بھی اَب تک جو شواہد سامنے آئے اُن سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ اعجاز جوکھیونے اپنے بھائی ناظم الدین جوکھیو کی ہلاکت تشدد سے ہونے کے جو مبینہ الزامات جام اویس گہرام جوکھیو پر لگائے ہیں،وہ مبنی بر صداقت ہیں۔کیونکہ میڈیکولیگل رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ ناظم جوکھیو کے پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔نیز سر، چہرے اور ہاتھ پاؤں پر بڑے بڑے نیل کے نشانات پائے گئے ہیں۔جبکہ پیٹھ اور جسم کے پچھلے حصے پر بھی رگڑ کے زخم موجود تھے،علاوہ ازیں مقتول کے دونوں ہاتھوں پر کافی زیادہ سوجن تھی، دماغ کے اندر خون کے لوتھڑے ملے، سر پر چوٹ کے نشانات موجود ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔یعنی سادہ الفاظ میں ناظم الدین جوکھیوکو شکار کی ایک ویڈیو بنانے اور اُسے سوشل میڈیا پر شائع کرنے کے معمولی سے جرم میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیاتھا۔

واضح رہے کہ صوبہ سندھ، خاص طور دیہی سندھ میں اپنے مخالفین کا دماغ اور جسم ٹھکانے لگانے کے لیئے زیادہ تر وہی طریقہ وادات اختیار کیا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں جس کا شکار بدقسمت ناظم جوکھیو ہوا۔ مگر اس مرتبہ صوبہ بھر سے اس حادثہ کے خلاف جو رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اُس نے سندھ میں صدیوں سے قائم جاگیرداری نظام کو پہلی بار واقعی عوام اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ خاص طور پر دیہی سندھ کی عوام کی جانب سے ناظم جوکھیو کے قتل کا سبب بننے والے جاگیردارانہ نظام سے جس قدر اپنی شدید نفرت کا اظہار کیا جارہاہے۔اُسے دیکھ کر اُمید پیدا ہونے لگی ہے کہ سندھ میں بہت جلد ظلم و جبر کی بنیادوں پر استوار جاگیرداری نظام منہدم اور زمین بوس ہونے کو ہے۔

بظاہر ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیونے مبینہ طور پر اپنے بھائی کے قتل کا براہ راست الزام رکن سندھ اسمبلی پاکستان پیپلزپارٹی جام اویس گہرام جوکھیو پر عائد کیا ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ دیہی سندھ میں عوامی غیض و غضب کا اصل ہدف اور نشانہ جام اویس کے بجائے ”جاگیرداری نظام“زیادہ بن رہا ہے۔ دراصل اَب سندھ کی عوام کو بھی آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی ہے کہ جام، جاکھرانی اور نظامانی سرداروں کو ظلم و ستم کرنے کی تمام طاقت جاگیردارانہ نظام سے ہی حاصل ہوتی ہے اور اس ظلم و ستم کو ختم کرنے کا بس ایک یہ ہی راستہ ہے کہ کسی طرح اِن نام نہاد سرداروں کے سروں سے جاگیرداری نظام کی چھتر چھایہ کھینچ لی جائے۔

یہ پیش گوئی تو نہیں کی جاسکتی کہ آئندہ چند ماہ میں جاگیرداری نظام کا سندھ سے مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا لیکن ایک بات ضرور پورے تیقن اور شرح صدر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔کم ازکم دیہی سندھ میں جاگیر داری نظام کے خاتمہ کی ایک خاموش اور زبردست عوامی تحریک ضرور جنم لے چکی ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کل تک جو لوگ جاگیردارانہ نظام کو اپنی غیر مشروط،جاہلانہ اطاعت سے قوت و طاقت مہیا کرتے تھے۔آج اُن ہی محکوم لوگوں کی نوجوان نسل سوشل میڈیا پر جاگیرداروں کے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے انہیں چیلنج کررہی ہے۔ اگر جاگیرداری نظام کے پرودہ سمجھیں تو یہ واقعی ایک بہت بڑی بات ہے اور ہم یہ اُمید قائم رکھ سکتے ہیں کہ نظام الدین جوکھیو کا خون ِ ناحق ایک دن ضرور رنگ لائے گا اورشاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کی سندھ دھرتی پر فرسودہ اور ظالمانہ جاگیرداری نظام کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے غروب ہوجائے گا۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 11 نومبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں