Nasla-Tower-Karachi

نسلہ ٹاور کی مسماری کیوں ضروری ہے؟

بالآخر سپریم کورٹ نے ایک ہفتے کے اندر،اندر نسلہ ٹاور کی فلک فوس عمارت کو بارودی مواد کے دھماکے سے گرانے کا حتمی حکم صادر کردیا ہے۔ یوں نسلہ ٹاور کو مسمار ہونے سے بچانے کی آخری”قانونی اُمید“بھی دم توڑ گئی۔ یادر ہے کہ نسلہ ٹاور کراچی شہر کی اُن تجارتی و رہائشی عمارات میں سے ایک ہے، جسے قبضہ مافیا نے حکومتی اداروں کی ساز باز سے غیر قانونی طور پر تعمیر کیا تھا۔نسلہ ٹاور گزشتہ 40 برسوں میں کراچی میں ہونے والی چائنہ کٹنگ کے سبب وجود میں آنی والی عمارات میں سب سے نمایاں اور بد ترین مثال ہے۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نسلہ ٹاور کو بہرصورت مسمار کروا کر ایک عبرت ناک مثال بنانا چاہتی ہے۔اُن لوگوں کے لیئے جو اس طرح کے غیر قانونی رہائشی و تجارتی منصوبے بناتے ہیں جبکہ ساتھ ہی اُن لالچی لوگوں کو بھی سبق سکھانا چاہتی ہے جو بلاسوچے سمجھے اِس قبیل کے غیر قانونی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیئے فوری طور پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ بظاہر نسلہ ٹاور کو گرانے کا فیصلہ انتہائی سخت ”قانونی فیصلہ“ لگتاہے، خاص طورپر اُس وقت،جب اس عمارت میں 40 ہنستے،بستے خاندان بھی رہائش پذیر ہوں۔ لیکن اگر بادی النظر میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کو زمین بوس کرنے کا فیصلہ جاری کرکے بالکل ایک راست قانونی اقدام اُٹھایا ہے۔

کیونکہ اگر سپریم کورٹ اس عمارت میں آباد رہائش پذیر خاندانوں کی بے سروسامانی کا لحاظ کرتے ہوئے نسلہ ٹاور کو گرانے کے فیصلہ سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹتی تو پھر اسے کراچی شہر میں موجود دیگر غیرقانونی عمارتوں کی مسماری سے بھی کئی قدم پیچھے ہٹنا پڑتا۔یعنی قبضہ مافیہ نسلہ ٹاور کو مستقبل میں اپنے لیئے ایک جواز، یا بہانہ بناکراپنی دیگر غیر قانونی تجاوزات کو بھی قانونی بنوانے کے لیئے جوق در جوق عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے نکل پڑتے۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے پایا جاتاہے کہ نسلہ ٹاور کو گرانے سے بچانے کے لیئے سب سے زیادہ متحرک بھی قبضہ مافیا ہی ہے، جس کی روزِ اول سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے بے گھرہونے کا میڈیا میں شورو غوغا کرکے سپریم کورٹ سے نسلہ ٹاور کو قانونی طور پر بدستور اپنی برقرار رکھنے کا فیصلہ حاصل کرلیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کو گرانے کا واضح اور آخری حکم نامہ جاری کرکے قبضہ مافیا کا سارا مذموم منصوبہ چوپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ جہاں تک نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے بے گھر یا بے چھت ہونے کا مسئلہ ہے تو اُس کے لیئے سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو پابند کیا ہے کہ نسلہ ٹاور میں آباد تمام خاندانوں کو نسلہ ٹاور کے مالکان سے اُن کی رقوم کی واپسی فور طور پر یقینی بنائے اور انہیں متبادل اور بہتر رہائش کا سہولیات فراہم کرنے کے لیئے کوئی بندوبست فرمایا جائے۔

یقینا نسلہ ٹاور میں برس ہا برس سے رہائش پذیر افراد کے لیے اچانک سے کسی نئی اور متبادل جگہ پر آباد ہونا ایک مشکل اور کٹھن کام توہوگا، مگراگر اِن باہمت اور حوصلہ مند افراد نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مکمل پاس داری کی تو عین ممکن ہے کہ اُن کے آج اُٹھائے گئے اس مشکلات بھرے اقدام کی بدولت کل نہ جانے کتنے خاندان نسلہ ٹاور جیسی غیر قانونی عمارتوں سے اچانک بے گھر اور بے دخل ہونے کے عذاب اور دُکھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے محفوظ و مامون ہوجائیں گے۔ واضح رہے قبضہ مافیا اور چائنا کٹنگ کرنے والوں کا تمام تر کاروبار چل ہی اُن لوگوں کی وجہ سے رہا ہے، جو یہ سوچ کر غیر قانونی اور تجاوزات پر بننے والی رہائشی و تجارتی اسکیموں میں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی، سرمایہ کاری کی آگ میں جھونک دیتے ہیں کہ ”پاکستان میں تو سب چلتاہے“۔ نسلہ ٹاور کے گرائے جانے کے بعد کم ازکم عام آدمی کو تو یہ پیغام ضرور جا سکے گا کہ ”اس ملک میں غیر قانونی طور پر بنایا گیا ہوا،بہت کچھ گرایا بھی جاسکتا ہے“۔جب قبضہ مافیا اور چائنہ کٹنگ کرنے والوں کو غیر قانونی پلاٹ،تجارتی دُکانیں اور رہائشی عمارتیں خریدنے والے ہی نہیں ملیں گے تو تب ہی اُن کا دھندا،صحیح معنوں میں مندا ہوگا۔ علاوہ ازیں غیرقانونی تجاوزات کی مسماری سے قبضہ مافیا اور ان کے سہولت کاروں کی زبردست حوصلہ شکنی بھی ہوگی۔

جب یہ طے ہوگیا کہ سپریم کورٹ کے حکم روشنی میں نسلہ ٹاور کی مسماری سے ہماری آنے والی نسلوں کو خاطر خواہ فائدہ ہونے کا قوی امکان ہے تو یہاں اَب اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا نسلہ ٹاور کو کنٹرول بلاسٹنگ کے ذریعے مسمار کیا جاسکتا ہے؟۔جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں ہدایت جاری کی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ تر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ”نسلہ ٹاور کو بارودی مواد کے دھماکے سے اُڑا ناعین ممکن ہے اور بلند و بالا عمارت کو بلاسٹ کے ذریعے گرانے کی ٹیکنالوجی کو کنڑولڈ ڈیمولیشن یا امپلوشن کہتے ہیں۔اس ٹیکنالوجی میں دھماکا خیر مواد کو عمارت کے بیم، پلرز اور سلیب کے ساتھ خاص ترتیب اور مقدار میں نصب کیا جاتا ہے۔

جس کے بعد دھماکا خیر مواد ترتیب وار مرحلے کے ساتھ پھاڑا جاتا ہے۔ اس سائنسی عمل کے ذریعے عمارت کو دھماکے سے ایکسپلوڈ نہیں بلکہ امپلوڈ کیا جاتا ہے“۔یاد رہے کہ ایکسپلوڈ ہونے والی عمارت کا ملبہ چاروں طرف دور،دور تک بکھر جاتاہے۔ اس کے مقابلہ میں امپلوڈ کی جانے والی عمارت سیدھی نیچے کی جانب آتی ہے اوراس کا ملبہ بھی ادھر،اُدھر زیادہ دور تک نہیں بکھرتا۔ پاکستان میں کنٹرول بلاسٹنگ کی اجازت ایف ڈبلیو او کے پاس ہے۔ ایف ڈبلیو او پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹرک ڈرائیوروں اور پاکستانی فوج کے زیر انتظام کام کرنے والا ایک بڑا تعمیراتی ادارہ ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل کے لئے ایف ڈبلیو او کی خدمات لی جاسکتی ہیں۔کیونکہ ماضی میں ایف ڈبلیو او، نادرن بائی پاس کی کنٹرول بلاسٹنگ کا تجربہ انتہائی کامیابی کے ساتھ انجام دے چکا ہے۔

دوسری جانب ہم یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ، اس کیس کی آئندہ کی سماعتوں میں نسلہ ٹاور کے متاثرین کو اُن کی ڈوبی ہوئی رقوم دلوانے کے لیئے سندھ حکومت پر خصوصی نظر رکھے گی۔ کیونکہ نسلہ ٹاور جیسی عمارات کی تعمیر میں ایک بڑا بہت کردار ماضی کی تمام صوبائی حکومتوں کا بھی رہا ہے اور ویسے بھی گزشتہ 40 برسوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سندھ پر حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس لیئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نسلہ ٹاور کے متاثرین کی دامے،ورمے،سخنے پوری انتظامی دل جمعی کے ساتھ دل جوئی فرمائیں۔ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے لیئے سندھ حکومت بہت کچھ کرسکتی ہے،اگر کرنا چاہے تو۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 02 نومبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں