Mustafa Kamal

کیا یہ ہی کمال کی سیاست ہے؟

”عمران خان کی حکومت امریکا نے نہیں اللہ نے گرائی ہے،عمران خان کو کراچی کے لوگوں سے ان کے لئے کچھ نہ کرنے پر معافی مانگنی چاہیے تھی، اس طرز عمل پر کراچی نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی اب دھوکا نہیں کھائے گا۔عمران خان خود ہی وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس، اور خود ہی چیف الیکشن کمشنر بننا چاہتے ہیں۔عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کے کسی بھی اہم اور حساس عہدے کے لئے ذہنی طور پر مس فٹ ہیں اوریہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ لوگ تو فرعون کے ساتھ، کربلا میں یزید کے ساتھ اوربانی متحدہ کے ساتھ بھی بہت تھے۔ عمران خان تم نے علیم خان، جہانگیرترین کوباہرنکال کر بتادیاکہ تم احسان فراموش بھی ہو۔آج پتہ چل گیاکہ تم نااہل بھی ہو اور تم ملک کیا ایک یونین کونسل بھی نہیں چلا سکتے“۔

شاید آپ سوچ رہے ہو ں کہ عمران خان کے بارے میں کہے گئے مذکورہ سخت تنقیدی الفاظ، ایم کیو ایم پاکستان کے کسی مرکزی رہنما یا مسلم لیگ ن کے وزیر با تدبیر یا پھر پاکستان پیپلزپارٹی کے کسی رُکن قومی وصوبائی اسمبلی کے ہی ہوں گے اور یہ رائے اِس لیئے بھی عین قرین قیاس لگتی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وطن عزیز کے حالیہ سیاسی منظر نامہ میں پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جملہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان گھمسان کا رَن پڑا ہوا ہے۔ مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سابق زیراعظم پاکستان عمران خان کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے مذکورہ تنقیدی لب و لہجہ پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے باغِ جناح کراچی میں ایک جلسہ عام میں اختیار کیا ہے۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر پاک سرزمین پارٹی کے چیئر مین مصطفی کمال،اچانک سے عمران خان کے خلاف اتنا سخت لب و لہجہ اختیار کرنے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں؟۔ حالانکہ نہ تو اُن کی جماعت کبھی عمران خان مخالف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ تھی اور نہ ہی اُن کا کوئی کردار عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے میں رہا تھا۔جبکہ نہ ہی مصطفی کمال، اس وقت شہباز شریف کی نئی حکومت کے خوشہ چینوں میں کہیں شامل ہیں۔ یعنی پاکستان تحریک انصاف سے پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ سیاسی مفادات کا براہ راست ٹکڑاؤ نہ ہونے کے باوجود مصطفی کمال کی طرف سے جلسہ عام میں عمران خان پر پر کڑی تنقید کرنا انتہائی معنی خیز ہے۔دلچسپ بات یہ ہے مصطفی کمال کا عمران خان مخالف بیانیہ عین اُس وقت سامنے آیا ہے، جب بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے کراچی میں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پاک سر زمین پارٹی کے درمیان اگلے قومی انتخابات سے قبل ایک مشترکہ انتخابی اتحاد بنانے کے امکانات ظاہر کیئے جارہے تھے۔بہرکیف مصطفی کمال کا عمران مخالف بیانیہ اور یہ بدلا بدلا سا لب و لہجہ صاف چغلی کھارہا ہے کہ مستقبل قریب میں کراچی کے سیاسی منظر نامہ میں بہت کچھ تبدیل کیئے جانے کے لیئے سیاسی مہم جوئی کا آغاز کیا جاچکاہے۔

کراچی کی سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے ایک حلقہ کا تو یہ بھی خیال ہے کہ سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے سیاسی پلیٹ فارم پر ایم کیو ایم پاکستان کو”اقتدار کی دعوت“ اُڑانے کے لیئے اکٹھا ہی صرف اِس نیت سے کیا تھا کہ وہ آئندہ قومی انتخابات میں کراچی کی سیاست سے عمران خان فیکٹر کا خاتمہ کرنے کے لیئے پی ٹی آئی کے خلاف ایک موثر اور دیرپا انتخابی اتحاد تشکیل دینا چاہتے تھے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کے علاوہ اگلے قومی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی انتظامی و سیاسی آشیر باد کے ساتھ پی ٹی آئی کو عبرت ناک انتخابی شکست سے دوچار کرنے کی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی تھی اور اس اضافی خدمت گزاری کے عوضانہ میں آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم پاکستان کے بڑے مطالبات جیسے بلدیاتی قانون میں ترمیم،گورنر سندھ کا منصب، وفاق اور سندھ حکومت میں اہم ترین وزارتیں، شہری سندھ کے کلیدی عہدوں پر تعیناتیاں،خطیر ترقیاتی فنڈز اور سرکاری نوکریوں میں 60 فیصد کوٹہ وغیر ہ ہنسی خوشی تسلیم کرلیئے تھے۔

دراصل آصف علی زرداری کی دوراندیشانہ سیاسی حکمت عملی کی روشنی میں بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا اگلا وزیراعظم بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی 2018 کے انتخابات میں سندھ سے حاصل کی گئی قومی اسمبلی کی نشستوں کے مقابلے میں کم ازکم 12 نشستیں مزید حاصل کرے۔ تب کہیں جاکر آصف علی زرداری اِس پوزیشن میں ہوں گے کہ وہ جوڑ توڑ کر کے اپنے صاحب زادے کو وزیراعظم پاکستان کی کرسی پر بٹھا سکیں گے۔ بلاشبہ سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کا ترتیب دیا گیا یہ ”سیاسی منصوبہ“ واقعی بہت زبردست تھا۔یعنی اگر سندھ حکومت کی انتظامی مدد سے ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی بیشتر نشستیں حاصل کر لیتی تو ایم کیو ایم پاکستان کے انتخابی اتحادی ہونے کے ناطے یہ اراکین قومی اسمبلی بلاول بھٹو زردری کی حاشیہ بردار ہی کہلاتے۔ مگر یہاں اچانک سے افتاد یہ پڑگئی کہ کراچی کے عوام راتوں رات ایم کیو ایم پاکستان کو داغِ مفارقت دے کر عمران خان کی حمایت میں کھڑے ہوچکے ہیں۔اس وقت کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے لیئے اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نئی نشستیں جیتنا تو بہت دور کی بات ہے،اگر وہ2018 کے انتخابات میں جیتی گئی اپنی7 نشستیں ہی بچانے میں کامیاب ہوجائے تو بہت بڑا معجزہ ہوگا۔

کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ اور عدم مقبولیت نے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کومجبور کردیا ہے کہ اگر وہ واقعی اگلے قومی انتخابات میں اپنے حسب ِمنشاء نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو ایک لڑی میں پروکر اگلے قومی انتخابات میں اُتارنا ہوگا اور اگر ممکن ہو سکے تو جماعت اسلامی کراچی کو بھی تحریک انصاف کے خلاف اپنے ساتھ ملانا ہوگا، تب کہیں جاکر فی الوقت کراچی کی مقبول ترین سیاسی جماعت، پاکستان تحریک انصاف کو اگلے انتخابات میں بڑی شکست سے دوچار کر کے ایم کیو ایم پاکستان کو کراچی کا عوامی مینڈیٹ بطور تحفہ فراہم کیا جاسکے گا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ2018 میں ایم کیو ایم پاکستان کوچھوڑ کر پی ایس پی میں جانے والے ڈاکٹر صغیر،وسیم آفتاب، انیس احمد ایڈوکیٹ سمیت چار اہم ترین رہنما اپنے پرانے گھونسلے میں واپس لوٹنے کا اعلان کرچکے ہیں۔نیز مزید رہنما بھی متحدہ قومی موومنٹ میں واپسی کے لیئے پوری طرح سے تیار ہیں۔ جبکہ ذرائع کے مطابق پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال کے خفیہ مذاکرات بھی آصف علی زرداری کے ساتھ آخری مراحل ہیں۔یعنی آنے والے دنوں میں کسی بھی وقت مصطفی کمال کوئی بڑا”سیاسی فیصلہ“کرسکتے ہیں۔یہ فیصلہ کیا ہوگا؟کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہوگا؟اور اس بڑے فیصلہ کے عوض میں مصطفی کمال کیا سیاسی فیوض و برکات حاصل کرسکیں گے؟۔ اِس بارے میں تفصیل سے بات کریں گے اگلے کالم میں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 19 مئی 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں