Muhajir Card Expire

مہاجر کارڈ کی موت؟

بالآخر 35 سال بعد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام نے اپنے آپ کو خوف و تشدد کی فضا سے نکال کر اپنے حقِ رائے دہی کا آزادنہ استعمال کر ہی دیا اور الیکشن 2018ء کا بائیکاٹ کرنے والی تمام پاکستان مخالف قوتوں کابیان ہوا میں اڑاتے ہوئے ملک دشمن عناصر کو ایسا بھرپور کراراجواب دے دیا ہے جو ایک سیاسی طمانچہ سے کم نہیں ہے، اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس زور دار طمانچہ کی سیاسی تپش لندن میں بیٹھا شخص بھی اپنے گا ل پر ضرور محسوس کررہا ہوگا۔کراچی کی مہاجرعوام کی طرف سے لگایا جانے والا یہ طمانچہ بلاشبہ تعصب اور تشدد کی سیاست کرنے والے تمام سیاسی رہنماؤں کے لیئے کراچی کی سیاست سے جبری و عملی بے دخلی کے مترادف ہے۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی21 اور صوبائی اسمبلی کی 44نشستوں پر ووٹ کے دوران پولنگ اسٹیشن پر عوام کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے۔ اہلیانِ کراچی کا جمہوریت اور امن پر اُن کے غیر متزلزل ایمان کا نتیجہ ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے پوری قوت سے ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیا، جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی کے حلقہ این اے 245 کے ایک پولنگ اسٹیشن پر 100 میٹر طویل قطار بھی دیکھنے میں آئی۔ جبکہ گلشن اقبال کے مختلف بلاکس،دہلی کالونی،پنجاب کالونی، ڈیفنس، پی ای سی ایس ایچ ایس،پی آئی بی کالونی، لیاقت آباد، شرف آباد، کلفٹن،لائنز ایریا،اردو بازار سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں واقع پولنگ اسٹیشن پر بھی بڑی تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے آئے، جسے دیکھ کر انتخابات کا معائنہ کرنے کے لیئے آنے والے غیر ملکی مبصرین بھی خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہوتے رہے۔ نیز کراچی میں ہونے والے انتخابات میں نوجوان نسل نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ کرنے والے افراد میں 18سے 30 سال کی عمر کے لوگ نظر آئے۔ان میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھیں۔خاص طور پر گلشن اقبال کے حلقہ این اے 243میں کئی پولنگ اسٹیشنوں پر دیکھا گیا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے گھروں کے بزرگوں کو ساتھ لیکر آئے۔ان میں سے کئی ایسے بھی تھے جو بغیر وہیل چیئر کے پولنگ اسٹیشن نہیں آسکتے تھے۔انھیں پولنگ اسٹیشن تک وہیل چیئرپر لایا گیا۔

انتخابات 2018ء کے نتائج کے مطابق کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 نشستوں پر تحریک انصاف کی غیر متوقع اور واضح کامیابی نے ثابت کردیا کہ کراچی میں مہاجر کارڈ اپنی سیاسی افادیت پوری طرح کھو چکا ہے اور اب مہاجر عوام کی اکثریت ایک بار پھر سے قومی سیاست کی طرف لوٹ رہی ہے جو کہ پاکستان کی وفاق کے لیئے ایک بہت ہی خوش آئند خبر ہے۔کیونکہ 35 سال پہلے کبھی کراچی قومی سیاست کا مرکز و محورہوا کرتاتھا۔ملک کے سارے بڑے رہنما اسی شہر میں یکجاہوکر ملکی سیاسی صورتحال کاجائزہ لیتے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتے تھے اور قومی اسمبلی میں پہنچ کر اس کو عملی جامہ بھی پہناتے تھے۔ لیکن اسی (80)کی دہائی سے اس شہر کی سیاست کا رخ یکسر تبدیل ہوگیا یا یوں کہہ لیں کہ کچھ ملک دشمن قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیئے قومی سطح کے بجائے یہاں صرف مقامی لوگوں کے حقوق کی سیاست کو متعارف کروا کر وفاق کی سیاست کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ لیکن بدقسمتی سے جو بات حق لینے سے شروع ہوئی تو وہ بات حقوق سلب کرنے تک چلی گئی۔ لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ کیونکہ شروع سے ” معاشی مرکز” کہلانے والا یہ شہراور اس کی معاشی صورتحال شایدہر ملک دشمن کو بری طرح کھٹکتی تھی۔اسی لیے جب یہاں صرف لوگوں کے حقوق سلب ہونا شروع ہوئے، امن وامان کی صورتحال بدترین ہوگئی تو بھی کسی کی ذات پر کوئی اثر نہ پڑا۔ بلکہ ایک اندر سے خوشی کا احساس تھا کیونکہ اب کراچی سے سرمایہ کاری نکل کر دوسرے ممالک میں منتقل ہورہی تھی اور یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ کراچی کے خراب حالات پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے مقام تک پہنچانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ اس شہر میں صنعتیں بند ہونے لگیں، کمرشل بنکس بھی کم ہونے لگے، بے روزگاری میں اضافہ ہونے لگا، یہاں کے مقامی جو بیرون ملک منتقل ہونے کی سکت رکھتے تھے ملک چھوڑ گئے۔ لیکن کیا کیجئے! ان سب کے باوجود اس شہر کی کاروباری سرگرمیاں ختم نہ ہوسکیں۔ چاہے اس کے محل وقوع کی بدولت، چاہے اس کے رہنے والوں کی باہمتی کی وجہ سے کہ جنہوں نے ہار نہ مانی اور تعصب پرستی کے خلاف اپنی سی جدوجہد میں لگے رہے، یا قدرت کی مدد کچھ بھی کہہ لیں۔کراچی کی سماجی، معاشی، کاروباری حیثیت اور اہمیت کو ختم نہ کیا جاسکا۔ یوں جب یہ بات سمجھ آئی تو ہارمانتے ہوئے یہاں کے امن کو بحال کرنے کے لیے پلک جھپکتے ہی منصوبہ تیار ہوگیا۔

سب سے پہلے تعمیراتی کاروبار کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اور اس کے بعد قانون نافذ کرنے والوں کو اصل ذمہ داری سونپی گئی۔ کراچی میں امن وامان کی حالت تو بہتر ہوگئی لیکن اب قلعہ کراچی کا اصل وارث کون ہوگا؟ اس کی جنگ شروع ہوگئی۔ کراچی پر حکومت کرنے کی خواہش رکھنے والے کئی سیاسی اُمیدوار تھے،کچھ اُمیدوار تو ایسے بھی تھے جو تعلق تو اندرونِ سندھ سے رکھتے تھے لیکن اِن کو کراچی صرف اس لیئے چاہیئے تھا کہ وہ اس شہر کو دولت کو دبئی منتقل کرنے کے لیئے مرے جارہے تھے لیکن کراچی کی عوام نے 2018 ء کے الیکشن میں بھرپور سیاسی اور قومی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے تمام نام نہاد جمہوریت کے علمبردار اُمیدواروں کی اُمیدوں پر مکمل طور پر پانی پھیر دیا اور تبدیلی کی ہوا کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا سارا ”سیاسی وزن“ وفاق کے پلڑے میں ڈال دیا۔حالات کا رُخ اور احتساب کی منہ زور ہوا دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کی عوام کی طرف سے کیا گیا یہ اُن کا ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ ہے جو آنے والے دنوں میں پورے سندھ کے عظیم مستقبل کی بنیاد بنے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 02 اگست 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں