کہا جاتاہے کہ دنیا میں فقط ماں کا ہی ایک ایسا رشتہ ہے،جس کو کوئی نعم البدل نہیں۔ماں خدا کی محبت کا دوسرا روپ ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد کو راحت، آرام اور آسائش پہنچانے کے لیئے بڑی سے بڑی مشکل اور پریشانی کو بھی مسکرا کر برداشت کرلیتی ہے۔ ماں کسی بھی زمانے کی ہو، کسی بھی معاشرے یا کسی بھی امیر یا غریب ملک سے تعلق رکھتی ہو۔ماں بہرحال ماں ہی ہوتی ہے۔ ویسے تو دورِ جدید کی چکاچوند اوربے مہابا ترقی نے ہر انسانی رشتہ اور تعلق کی ڈور کو رفتہ رفتہ کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ لیکن ماں کی ممتا ایک ایسا لافانی جذبہ ہے،جس پر جدیدیت کا تمام تر جادو بے اثر ہی رہا اورہمارے اس دورِ جدید میں بھی ایسی اَن گنت مائیں تسلسل سے گزری ہیں جن کے ممتا سے بھرپور جذبات نے ایک عالم کو متاثر کیا۔
مدرز ڈے کی مائیں
1967 سے ہر برس مئی کے دوسرے اتوار کو اقوام متحدہ کے تمام رُکن ممالک انسانی معاشرے میں ماں کے کردار کی عظمت کو اُجاگر کرنے اور اُس کی اہمیت و افادیت کی ستائش کرنے کے لیئے اپنے اپنے انداز میں ماں کا عالمی یوم مناتے ہیں۔ لیکن تاریخی طور پر یہ دن بطور ایک رسم پہلی بار 1907 میں امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں منایا گیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ماں کے نام سے موسوم اِس دن کے منانے کا آغاز ایک ماں کو خراج تحسین پیش کرنے کی خاطر ہی کیا گیا تھا اور اُس معزز ماں کا نام این ماریا ریویس تھا۔ جس کا تعلق امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کے انتہائی پسماندہ علاقہ ٹیلر کاؤنٹی سے تھا۔ ریویس کو قدرت نے 11 بچوں کی نعمت سے نوازا،جن میں سے7 بچے دورانِ زچگی فوت ہوگئے تھے۔ریویس کے چار زندہ بچ جانے والے بچوں میں اُس کی ایک انتہائی ہونہار بیٹی این ماریا جاروس بھی شامل تھی۔ وضع حمل کی جان لیوا تکلیف کے فوراً بعد بچوں کی ناگہانی موت کا صدمہ ایک ماں کے لیئے کس قدر غم و اندوہ کا باعث ہوتاہے، یہ بات این ماریا جاروس سے بہتر بھلا کون سمجھ سکتا تھا۔کیونکہ اُس نے اپنی والدہ ریویس کی تمام تکالیفوں اور مصائب کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔پس! این ماریا جاروس نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد دنیا کی ہر ماں کو اس دوہرے دُکھ کے عذاب سے بچانے کے لیئے ”مدرز ڈے ورک کلب“ کے نام سے عوامی آگہی کی ایک تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ این ماریا جاروس نے اس عنوان کے تحت ایسی غریب و نادار ماؤں کے لیئے عملی مدد مہیا کرنے کا آغاز کیا، جنہیں اُس زمانے میں دورانِ زچگی ناقص علاج معالجہ اور حفظانِ صحت کے سنگین مسائل کا سامنا تھا۔
یا د رہے کہ یہ وہ نازک وقت جب پوری دنیا،خاص طور پر مغرب و یورپ جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں سے گزر رہے تھے۔ لیکن این ماریا جاروس نے جنگ کی مشکلات کی قطعی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنے علاقے میں ماؤں تک عملی امداد کی سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھی۔ بلکہ دورانِ جنگ فلاڈیلفیاکے علاقے میں طبی خدمات فراہم کرنے کے لیئے آنے ولاطبی عملہ این ماریا جاروس کے فلاحی کام سے اِس قدر متاثر ہوا کہ وہ بھی ”مدرز ڈے ورک کلب“ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔ جنگ عظیم اول کے خاتمہ کے بعد امریکا کی دیگر ریاستوں سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں رضاکاروں اور طبی عملہ کی تنظیمات نے این ماریا جاروس کی قیادت میں کام کرنے کے لیئے اُس کے قافلے میں شامل ہوگئے۔اگلے چند برسوں میں ”مدرز ڈے ورک کلب“صرف پورے امریکا ہی میں نہیں بلکہ قرب و جوار کے بے شمار علاقوں میں بھی ماں کی جسمانی،ذہنی اور نفسیاتی صحت کی بحالی و بہتری کے لیئے مشہور و معروف ہوچکا تھا۔
این ماریا جاروس نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں اپنے اِس عظیم مقصد کی زبردست تشہیر کی۔خاص طور این نے امریکی عمائدین حکومت کو اس حوالے سے مسلسل خطوط بھی لکھے،جن میں سے ایک خط امریکی صدر کے نام بھی تھا۔ امریکی صدر ووڈ روولسن،این کے خط کے نفس مضمون سے بے حدمتاثر ہوئے اور انہوں نے 1914 میں مئی کے دوسرے سنڈے کو این ماریاجاروس کی خدمات سے موسوم کرتے ہوئے ملک گیر سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو تسسلسل کے ساتھ بطور مدر ز ڈے منایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں اس دن کو Mothering Sunday بھی کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں مدر ڈے منانے کے لیے مختلف دن مختص ہیں تاہم امریکہ، ڈنمارک، فن لیند، ترکی، اسٹریلیا، بیلجیم اور پاکستان میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو ہی منائے جانے کا اہتمام کیا جاتاہے۔
ماں کے نام 4 طلائی تمغے
فینی بلینکرز کوین نے 16 برس کی مختصر عمر میں 800 میٹر کی قومی چیمپئن شپ جیت لی تھی،نیز اگلے برس ہائی جمپ کی قومی مقابلے میں چھٹی پوزیشن حاصل کرلی اور 18 سال کی عمرمیں اُسے 1936 اولمپکس میں ہائی جمپ کے مقابلے میں ہالینڈ کی نمائندگی کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ فینی اِن اولمپکس مقابلوں میں کوئی تمغہ تو اپنے نام کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔لیکن کھیلوں کے مقابلوں میں فینی کی غیر معمولی کارکردگی دیکھ کر اکثر مبصرین کا خیال تھا کہ اگر فینی نے یونہی اپنا سفر جاری رکھا تو وہ یقینا بہت آگے تک جائے گی۔ ارادے فینی کے بھی بہت بلند تھے مگر شومئی قسمت کہ اچانک جنگ عظیم دوم چھڑ گئی اور پورا یورپ اس جنگ کے اثرات سے اتھل پتھل ہوگیا۔ جہاں سب کی زندگیوں کو جنگ نے متاثر کیا، وہیں فینی پر بھی جنگ کے شدید منفی اثرات مرتب ہوئے اور اس نے کھیلوں کی دنیا کو خیر باد کہہ کر شادی کر کے اپنی گھر گرہستی کو آباد کرلیا۔ قسمت نے یاوری کی اور جلد ہی قدرت نے اسے دو خوبصورت بچوں کی ماں بنادیا اور یوں فینی مکمل طور پر ایک ماں کے روپ میں ڈھل گئی۔
جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد جیسے ہی دنیا کی ماند رونقیں بحال ہونا شروع ہوئی،ایک بار پھر سے بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کی خبریں اخبارات و رسائل کی زینت بننے لگی۔ جنہیں پڑھ کر فینی کا شوق بیدار ہونے لگا اور اُس کے دل میں لندن اولمپکس میں شرکت کی خواہش مچلنے لگی۔ اُس نے اپنی اس خواہش کا تذکرہ اپنے شوہر سے کیا،جس نے فینی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اس کی لندن اولمپکس میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیئے تگ و دو بھی شروع کردی۔کھیلوں میں سابقہ قومی ریکارڈ تو فینی کا پہلے ہی کافی شاندار تھا مگر فینی پر منتظمین کی جانب سے اعتراض یہ اُٹھایا گیا کہ وہ دو بچوں کی ماں ہے اور اُس کی تیس برس سے زائد ہوچکی ہے کیا اِن حالات میں وہ اولمپکس مقابلوں میں حصہ لے سکے گی؟۔ فینی کا جواب ہاں میں تھا۔ جس پر اولمپکس میں شرکت کے لیئے بنائی گئی جیوری میں کافی بحث و مباحثہ ہوا اور بالآخر فینی کو لندن میں منعقدہ 1948 کے اولمپکس مقابلوں میں شرکت کا پروانہ مل گیا۔
فینی بلینکرز کوین نے مذکورہ اولمپکس میں ناقابلِ فراموش کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی اولمپکس ایونٹ کے مختلف مقابلوں میں 4 سونے کے تمغے جیتنے والی پہلی خاتون ہونے کا منفرد اعزاز اپنے نام کرلیا۔چونکہ فینی نے جس وقت یہ طلائی تمغے اپنے نام کیئے وہ،اُس وقت دو بچوں کی ماں بھی تھی۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہالینڈ کی عوام نے اُسے ”فلائنگ ڈچ ہاؤس وائف“کا لقب دے دیا۔فینی کا انتقال 25 جنوری کو ایمسٹرڈیم میں ہوا، اُس نے اپنے پورے کیرئیر میں آٹھ مختلف عالمی ریکارڈقائم کیئے اور حیران کن طور پر یہ سب ریکارڈز انہوں نے ماں بننے کے بعد ہی بنائے تھے۔ 1999 میں فینی کو، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشن نے 20 ویں صدی کی ٹاپ فیملی ایتھلیٹ منتخب کرلیا۔
ماں کی قانونی جنگ
یہ امریکی ریاست کیلیفورنیامیں 1980 کی ایک دوپہر رونما ہونے والے واقعہ کا تذکرہ ہے کہ 13 سالہ کاری لائٹرن نامی ایک بچی کو ٹرک ڈارئیور نے جو کہ نشے میں بُری طرح سے دھت تھا اپنے گاڑی کی نیچے کچل کر ہلاک کردیا۔بچی کی ماں،کینڈی لائٹرز نے ٹرک ڈائیور کے خلاف بچی کے قتل کا مقدمہ کے اندراج کے لئے مقامی پولیس اسٹیشن سے رجوع کیا تو وہاں قاتل ٹرک ڈرائیور نشے میں پہلے ہی سے حوالہ زنداں تھا۔ پولیس حکام نے بچی کی ماں کینڈی کو خبردار کیا کہ ٹرک ڈرائیور کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اُس وقت اکثر امریکی ریاستوں میں یہ قانون تھا کہ جس ڈرائیور نے نشہ میں ایکسڈنٹ کیا ہو، اُسے جیل میں نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا عدالتیں ایسے ڈارئیورز کو فوری طور ضمانت پر رہا کردیا کرتی تھیں اور بعدازاں مختصر سی عدالتی کارروائی کے بعد انہیں باعزت بری بھی کردیا جاتاتھا۔ یہ سُن کینڈی لائٹرز نے بے ساختگی میں پکار اُٹھی کہ ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ میری بچی کا قتل ڈرائیور نے نہیں بلکہ امریکی سماج نے کیا ہے۔
لہٰذامیں اس قاتل سماج کے فرسودہ قانونی نظام کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لوں گی“۔پولیس حکام کی کسی نصیحت سے کینڈی لائٹرز، رام نہ ہوئی اور اُس نے مقدمہ بھی درج کروایا اور باقاعدگی سے اُس کی پیروی بھی کی۔کینڈی لائٹرز نے اپنی تمام جائیداد اور کاروبار اس متعصبانہ قانون کے خلاف قانونی جنگ لڑنے میں گنوادیا۔ کینڈی لائٹرز نے اپنی اس قانونی جنگ کو MADD کا نام دیا،جس کا مطلب ”Mothers Against Drunk Driving“تھا۔ جب کہ اسی عنوان سے1983 میں ایک دستاویز ی فلم بھی بنائی گئی اور کینڈی لائٹرز کی کہانی امریکی ٹیلی ویژن پر نشر بھی ہوئی،جس میں اظہار خیال کے لیئے امریکہ بھر سے اس متعصبانہ قانون سے متاثرہ ماؤں کو عام دعوتِ کلام دی گئی۔ بالآخر کینڈی لائٹرز کی جدوجہد رنگ لے آئیں اور امریکی حکومت نے قانون کو تبدیل کریا۔ جبکہ بے شمار امریکی ریاستوں میں شراب پی ڈرائیونگ پر کڑی سزا بھی نافذ کردی گئیں۔واضح رہے کہ اس قانون میں تبدیلی کے بعد امریکا بھر میں نشے کی حالت میں ڈرائیونگ ایکسیڈنٹ کے حادثات میں 40 فیصد تک نمایا ں کمی آئی۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک ماں نے اپنی بچی کا مقدمہ لڑکر نہ صرف امریکی معاشرہ سے ایک امتیازی قانون کا خاتمہ کروایا بلکہ بے شمار معصوم جانوں کو ممکنہ ”قانونی ہلاکت“ سے بھی بچالیا۔
ممتا کی ایجاد
ڈیبی ایلنٹن کا تعلق اسرائیل کے شہر تل ابیب سے ہے،ڈیبی کے ہاں جب دوسرے بیٹے ریمم کی ولادت ہوئی تو داکٹروں نے انکشاف کیا کہ اُس کا یہ بیٹا پیدائشی طور پر ایک ایسے موذی دماغی مرض میں مبتلا ہے۔جس کی وجہ سے یہ زندگی بھر چلنے پھرنے اور حرکت کرنے سے لاچار رہے گا۔ بظاہر ریمم جسمانی پر بالکل ٹھیک،ٹھاک اور تن درست نظر آتا تھا،لیکن اپنی بیماری کے باعث وہ ہر وقت بے حس و حرکت بستر میں پڑا رہتا تھا۔ ڈیبی ایلنٹن کے لیئے بطور ایک ماں اپنے بچے کی یہ حالت ناقابلِ برداشت تھی۔ ریمم کے علاج کے لیئے ڈیبی نے اسرائیل میں موجود ہر جدید ہسپتال اور بڑے بڑے سے قابل ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ مگر ہر جانب سے اُسے ایک ہی جواب ملا کہ یہ ایک لاعلاج مرض ہے اور اس کے بیٹے کو اپنی ساری زندگی بستر پر ہی گزارنا ہوگی۔ ڈیبی ایلنٹن ایک تخلیقی ذہن کی خاتون تھی اور پیشہ کے لحاظ میوزک تھراپسٹ کے شعبہ منسلک تھی۔ ڈیبی نے کافی سو چ و بچا رکے بعداپنی کمر کے ساتھ باندھنے کے لیئے ایک ایسا منفرد بیلٹ ایجاد کیا،جس میں وہ اپنے بیٹے کو کھڑا کر کے اپنے جسم کے ساتھ منسلک کرسکتی تھی۔
بیلٹ اتنا شاندار تھا کہ جب ڈیبی اپنا قدم اُٹھاتی تو اُس کا بیٹا ریمم بھی بغیر اپنا وزن پیروں پر ڈالے قدم اُٹھا سکتاتھا۔ بیلٹ کی بدولت ڈیبی اپنے بیٹے کو خریداری کے لیئے بازار بھی لے جانے لگی تھی۔بیرونی ماحول کا حصہ بننے سے ریمم کی صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے۔لیکن یہ سب ڈیبی ایلنٹن کے لیئے بالکل بھی آسان نہ تھا،کیونکہ ریمم کی عمر بڑھنے سے اُس کے وزن میں اضافہ ہوتا جارہاتھا۔بالآخر ڈیبی ایلنٹن کی محنت رنگ لے آئی اور بیلٹ کی بدولت ریمم، پارک میں اپنے والد اور بھائی کی جانب سے پھینکی جانی والی گیند کو لات مارنے اور چند قدم تک بغیر بیلٹ کے سہارے چلنے کے بھی قابل ہوگیا۔ ڈیبی نے مفاد عامہ میں اپنی ایجاد کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی۔ جہاں بچوں کی اشیاء بنانے والی ایک کمپنی کے مالک نے اسے ملاحظہ کیا تو اُس نے ڈیبی سے رابطہ کر کے اُس کی ایجادمیں تجارتی شراکت داری کی پیشکش کر دی۔ ڈیبی ایلنٹن کے ایجاد کیئے گئے بیلٹ کو UPSEE کے نام سے فروخت کے لیئے عالمی مارکیٹ میں پیش کردیا گیا۔ اَب تک لاکھوں کی تعداد میں UPSEE انٹرنیٹ پر فروخت ہوچکے ہیں۔جبکہ ذہنی و جسمانی طورپر معذور لاکھوں بچے ڈیبی کی اس منفرد ایجاد سے مستفید ہوکر ایک معتدل اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیابھر کے یہ تمام بچے ریمم کی ماں ڈیبی کے انتہائی مشکور وممنون ہیں۔
پارلیمان اور ماں
ویسے تو پارلیمان کسی بھی ملک کی ہو، اُس میں داخل ہونے والے ہر شخص کے لیئے کچھ قواعد و ضوابط پر پورا اُترنا ضروری ہوتا ہے اور جوافراد بھی ان شرائط پر پورا نہیں اُتر تے اُن کا داخلہ پارلیمان میں یکسر ممنوع ہی ہوتا ہے۔ خاص طور بچے پارلیمان میں داخل نہیں ہوسکتے۔لیکن اَب اراکین پارلیمنٹ اپنے شیر خوار بچوں کو بھی پارلیمانی اجلاسوں میں لے کر آنے لگے ہیں اور بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں رہی ہے بلکہ آسٹریلیا کی خاتون سینیٹر لاریسا واٹرز دنیا کی وہ پہلی سیاست دان بن چکی ہیں جنھوں نے پارلیمان کے جاری اجلاس میں اپنی شیرخوار بچی کو اپنا دودھ بھی پلایا ہے۔آسٹریلیا کے ایوان بالا میں 2003 سے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کی اجازت ہے لیکن اس کے باوجود سینیٹر لاریسا واٹرز سے پہلے کبھی کسی رکن پارلیمان نے پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں اپنے بچے کو دودھ نہیں پلایا تھا۔
تاہم 2016 میں سپین کی پارلیمان میں کیرولینا بیسکانسا کو ایوان میں اپنے بچے کو لانے اودودھ پلانے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھااور اسپین کے بعض اراکین پارلیمنٹ نے اس عمل کو پارلیمان کا تقدس پامال کرنے پر کیرولیناسے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ جبکہ اسپین کے عوامی حلقوں نے بھی کیرولینا کے اس حرکت پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک بھونڈا طریقہ قرار دیا تھا۔ شیر خوار بچوں کو پارلیمانی اجلاس میں لانے کے معاملہ پر برطانوی دارالعوام میں جاری اجلاس میں پہلی بار اپنے بچے کو ساتھ لانے والی خاتون رکن ِ پارلیمان اور لبرل ڈیموکریٹ کی ڈپٹی رہنما جو سونسن کاکہنا ہے کہ”پارلیمان میں شیر خوار بچوں کی آمد، بین الاقوامی جمہوریت کا جدت پسندی کی جانب پہلا قدم ہے اور اس عمل کے ذریعے ہم دنیا بھر کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایک ماں کو اپنے بچوں کی ذمہ داری سے عہد برآ ہونے کے لیئے کسی بھی جگہ روکا نہیں جاسکتا،چاہے وہ پارلیمان ہی کیوں نہ ہو“۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وہ دن اَب زیادہ دور نہیں رہے جب پارلیمان کے جاری اجلاسوں میں بچوں کے جھولے اور کھلونے بھی جابجا دکھائی دیں گے اور ارکان پارلیمنٹ کے شور شرابا میں بچوں کی کلکاریاں اور چیخ و پکار بھی شامل ہوا کرے گی۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 09 مئی 2021 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023