Most Dangerous Women In The World

عورتیں تو یہ بھی ہیں

عورت بھی ہر انسانی معاشرے کا اُتناہی قیمتی اثاثہ ہے،جتنا کہ مرد۔ ماضی کا یہ کمزور احساس، آج کے دورِ جدید میں ایک ناقابل تردید اور بدیہی حقیقت کے طور تسلیم کرلیا گیا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آئے دن خواتین سے متعلق نت نئی خبریں،حیران کن انکشافات اور متاثر کن تخلیقی کاوشیں تسلسل کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ ایسے پیشہ وارانہ شعبہ جات،جن کے متعلق ماضی میں کبھی تصور کیا جاتاتھا،یہ صرف مرد کے کرنے کے ”خاص کام“ہیں،گزشتہ چند دہائیوں سے اُن خاص الخاص شعبوں میں بھی خواتین نے بالادستی قائم کرکے اپنی مستقل مزاجی، قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا مردوں سے منوا لیا ہے۔ مگر زیر نظر مضمون میں ایک عورت کو حاصل ہونے والی مادی کامیابیوں وہ غیر معمولی رتبہ کو زیر بحث لانے کے بجائے صنف نازک کی کچھ ایسی خوابیدہ، پراسرار اور عجیب و غریب عادات اور خوبیوں کا تذکرہ پیش خدمت ہے،جو اُسے فطرت کی جانب سے بطور تحفہ وقتاً فوقتاً ودیعت ہوتی رہی ہیں۔

حساس ترین عورت
تمام عورتیں حساس ہوتی ہیں،کم ازکم اپنی بیگمات کی حد تک تو سب شوہر اس بات کی سچائی بخوبی جانتے ہی نہیں ہیں بلکہ دل کی اتہاہ گہرانیوں سے مانتے بھی ہیں۔ لیکن ایک عورت کس حد تک حساس ہوسکتی ہے، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔کہا جاتاہے کہ فرانس کی مادام ریزرو دنیا کی حساس ترین عورت تھی۔ 1842 میں اس کے شوہر نے جو شاہی دربار میں اٹارنی کے اہم ترین عہدہ پر فائز تھا۔کسی دن گھریلو جھگڑے میں تنگ آکر کسی ماہر وکیل کی مانند اپنی حساس بیگم سے جرح کرتے ہوئے غصے میں یہ کہہ دیا کہ ”خاموش ہوجاؤ،ہر وقت کیا بے وقوفی کی باتیں کرتی رہتی ہو“۔اس لمحے کے بعد مادام ریزرو نے اپنے لبوں پر خاموشی کی مہر لگا کر اُسے مکمل طور پر مقفل کرلیا اور پھر وہ 35 سال تک بالکل خاموش ہی رہی۔ بیچارہ راج دربار کا ملازم اٹارنی شوہر معافی مانگ مانگ کر تھک گیا۔مادام کی سہیلیوں نے بھی لاکھ منت ترلے کیئے۔حتی کہ خاندان والوں نے بھی بڑی التجائیں کیں۔لیکن سب بے سودرہا۔مادام ریزرو کی بلا سے گھر میں کتنا ہی ہنگامہ کیوں نہ ہوتا وہ خاموش رہتی حتی کہ اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کے لیئے جب اُس کی مرضی معلوم کی گئی،تب بھی اس نے محض سر ہلاکر اپنی رضا مندی کا اظہار کرنے پر اکتفا کیا اور پھر35 برس تک مسلسل چپ رہنے والی یہ حساس خاتون خاموشی کی حالت میں ہی اگلے جہاں سدھار گئیں۔

فائر پروف دوشیزہ
برصغیر پاک و ہند میں کبھی جہیز نہ لانے کے نام پر اور کبھی کسی گھریلو تنازعہ کو بہانہ بنا کر معصوم اور بے قصور بہوؤں کو آگ میں جلانے کے واقعات اکثر و بیشتر اخبارات کی زینت بنتے ہی رہتے ہیں۔ کاش اللہ سبحانہ و تعالی ظالم گھرانوں میں بیاہی جانے والی تمام غریب بچیوں کو بالکل ویسا ہی ”آگ پروف“ بنادے جیسا کہ فلپائن میں رہنے والی ایک لڑکی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق فلپائن کے علاقے زمبوآنگا میں اچانک بھڑک اُٹھنے والی آگ کے باعث محلے میں موجود تمام گھر جل کر مکمل طور پر خاکستر ہوگئے۔لیکن اس بدقسمت محلے کے جلنے والے 500 گھروں میں ایک گھر کا کمرہ ایسا بھی تھا۔جس میں سونے والی 13 سالہ لڑکی میلیکی کو آگ نے بالکل بھی نہ چھوا۔حالانکہ اس کے اردگرد کی تمام اشیاء جل کر پوری طرح سے راکھ کا ڈھیربن گئیں۔فلپائن کے مقامی اخبار کے مطابق جلے ہوئے محلے میں امدادی کاروائی کرنے والے رضاکاروں کی جانب قومی امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ چونکہ اس حادثہ میں سارا گھر جل چکا ہے۔اس لیئے گھر میں پھنسی رہ جانے والی یہ لڑکی بھی مر چکی ہوگی لیکن لڑکی کی ماں کی چیخ و پکار پر امداد کرنے والے فوجی جوانوں کو جب بارِ دگر بچی کے کمرے سے اس کی لاش نکالنے کے لیئے بھیجا گیا تو حیران کن طور پر وہ خوش قسمت لڑکی وہاں مردہ حالت میں ہونے کے بجائے سکون سے گہری نیند سو رہی تھی۔جسے فوجیوں نے اپنے کندھوں پر اُٹھاکر نہیں بلکہ باقاعدہ جگا کر گھر سے باہر نکل آنے کو کہا۔

معجزاتی شفایابی حاصل کرنے والی خاتون
ڈرامے کی کہانی میں ناظرین کو دلچسپی لینے پر مجبور کرنے کے لیئے کئی بار کسی اہم ترین کردار کی ایک حادثے میں یادداشت ختم کردی جاتی ہے اور چند اقساط کے بعد کسی دوسرے حادثے کے نتیجے میں اُس کی یادداشت کو بحال کروادیا جاتاہے۔یہ گھسا پٹا فارمولا اکثر و بیشتر ڈراموں اور فلموں میں ریٹنگ اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیئے اختیار کیا جاتاہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقیقی زندگی میں بھی ایسا ہوپانا عین ممکن ہے؟۔ کہ ایک حادثے یا بیماری کے نتیجے میں جسمانی معذوری پیدا ہوجائے اور بعد ازاں کسی دوسری حادثے یا بیماری کے نتیجے میں کامل شفایابی میسر آجائے۔یاد رہے کہ سائنسی اصطلاح میں ایسے کسی واقعے کو ”میڈیکل مریکل“ یعنی طبی معجزہ کہا جاتاہے۔ حیران کن طور پر برطانیہ کی ایک خاتون مسز ریٹا کا شمار بھی ایسے معجزاتی مریضوں کی فہرست میں کیا جاتا ہے،جو اچانک کسی ”طبی معجزہ“ کے نتیجے میں صحت یاب ہوچکے ہیں۔تفصیلات کے مطابق مسز ریٹا اچانک ایک بیماری کے باعث اپنی بینائی سے مکمل طور پر محروم ہوگئیں تھیں۔اس حادثاتی بیماری کے تھوڑ ے دن بعد اچانک مسز ریٹا کے شوہر اور بیٹی ہولناک کار حادثے میں ہلاک ہوگئے۔یہ خبر سن کر مسز ریٹا کئی گھنٹے تک پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب اس کے آنسو تھمے تو اس کی بینائی مکمل طور پر بحال ہوچکی تھیں۔یوں مس ریٹا کا اپنے پیاروں کے غم میں آنسو بہانا اُن کے لیئے معجزاتی شفایابی کا باعث ثابت ہوا۔

خوش نصیب عورت
کہا جاتاہے دنیا کے تمام نشوں میں سب سے برا نشہ اقتدار کا ہے اور جو اقتدار کے نشے کی لت میں ایک بار مبتلاء ہوجائے تو پھر وہ اقتدار حاصل کرنے یا اسے برقرار رکھنے کے لیئے کسی بھی حد سے گزر سکتاہے۔ بلاشبہ اس بات کی صحت کا ادراک ہم پاکستانیوں سے بہتر کس کو ہوگا کہ جنہوں نے گزشتہ 76 برسوں میں تسلسل کے ساتھ کئی نامور سیاسی خاندانوں کو اقتدار کے نشے میں چُور چُور ہوکر ذلیل و رسوا ہی نہیں بلکہ جلاوطن اور تختہ دار پر چڑھتے ہوئے بھی ملاحظہ کیا ہے۔ نیز آج بھی پاکستانی سیاست میں بے شمار شخصیات اقتدار کے نشے میں بُری طرح سے دھت نظر آتی ہیں۔ شاید پاکستانی سیاست کے نام نہاد جمہوری اَن داتا نہیں جانتے کہ اقتدار تک رسائی سراسر قسمت کا کھیل ہے،جس میں جمہوری بے ایمانی کر کے کھیل کو خراب تو کیا جاسکتاہے لیکن اسے جیتا نہیں جاسکتا۔ بہرحال جن کے نصیب میں اقتدار ہوتا ہے،تو پھر اُنہیں مل کر ہی رہتاہے۔ ”میری رومیٹو“دنیا کی وہ خوش نصیب عورت تھی جس کے اکثر بچوں کو کسی نہ کسی ملک کی شہنشاہی ضرور نصیب ہوئی۔ وہ 1750 میں پیدا ہوئی۔اس نے اجاکیو کے شاہی مختار عام کارلوس بونا پارٹ سے شادی کی۔ اس کے کل 13 بچے پیدا ہوئے۔ جن میں سے 4 بچوں کی قسمت میں شہنشاہی آئی جبکہ باقی 9 بچوں بھی راج دربار میں کسی نہ کسی عہدے پر ضرور فائز ہوئے۔ یاد رہے کہ ”میری رومیٹو“ کا دوسرا بیٹا نپولین بونا پارٹ عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔ یہ فرانس کا شہنشاہ تھا۔ سب سے بڑا لڑکا جوزف بونا پارٹ سپین کا بادشاہ بنا۔ لڑکیوں میں سے ایک نیپلز کی ملکہ اور دوسری قسکانہ کی ملکہ بنی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ رومیٹو نے اپنے تمام بچوں کے عروج و زوال کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تمام اولاد اس کی زندگی میں ہی فوت ہوئی۔ آخر خاندان کی مکمل تباہی کے 20 برس بعدمزید زندہ رہ کر 1839 میں چل بسی۔

بچھوؤں کی ملکہ
عورت کو صنف مخالف ہی نہیں بلکہ صنفِ نازک کہہ کر بھی مخاطب کیا جاتا ہے۔ مگر خواتین کا صنفِ نازک ہونا آج کے دورِ جدید میں پوری طرح سے قصہ پارینہ ہوچکا ہے۔ کیونکہ بعض خواتین آج کل ایسے ناممکن اور مشکل دکھائی دینے والے اُمور بھی آسانی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔ جنہیں کرنے کی دعوت اگر ”صنفِ طاقت ور“ یعنی مرد کی دی جائے تو اُس کا پتہ بھی پانی ہو کر رہ جائے۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے مذکورہ بالا دعوی میں ذرا برابر بھی مبالغہ آمیزی اور یاوہ گوئی سے کام نہیں لیا گیا۔ کیونکہ دسمبر 2002 میں تھائی لینڈ کی خاتون کچینا کیٹ کیو نے 3 ہزار بچھوؤں کے ساتھ 32 دن گزار کر نہ صرف نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا بلکہ دنیا بھر کے مردوں پر اپنے بے خوفی اور بہادری کی دھاک بھی بٹھادی ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس سے قبل بھی یہ منفرد ریکارڈ ملائشیا کی ایک 24 سالہ خاتون میلینا حسن نے ہی 2001 میں قائم کیا تھا۔ جس نے بچھوؤں کے ساتھ 30 دن گزارے تھے۔واضح رہے کہ تھائی لینڈ کی اس بچھو ملکہ نے 12 مربع میٹر کے شیشے کے بنے ہوئے ایک مخصوص کمرے میں جس میں 3 ہزار خطرنا ک قسم کے بچھو موجود تھے 32 دن گزارے۔ اس کمرے میں بچھوؤں کو باقاعدہ غذا دی جاتی تھی اور وہ ملکہ کے جسم پر رینگتے رہتے تھے۔علاوہ ازیں کچینا کیٹ کیونے جون 2017 میں دنیا کا زہریلا ترین زندہ بچھو اپنے منہ میں تین منٹ رکھ کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لیئے ایک منفرد ریکارڈ بناکر بھی سب کو حیران کردیا تھا۔

بجلی کی عورت
”بجلی بھر ی ہے میرے اَنگ اَنگ میں۔۔۔ جو مجھ چھو لے گا وہ مرجائے گا“ معروف گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں یہ گانا تو آپ نے یقینا سماعت فرمایا ہی ہوگا۔ اس گانے کے علاوہ اُردو شاعری میں محبوبہ کو بجلی کا حامل ثابت کرنے کے لیئے ہزاروں اچھے،بُرے دیگر اشعار بھی موجود ہیں۔ دراصل بجلی شعراء کے نزدیک حسیناؤں کی ادائیں ہیں اور وہ بجلی کا اپنے اشعار میں ذکر کرکے نازنینوں کی عشوہ طرازی کو بیان کرتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی شاعر کی مبالغہ آمیزی،بدیہی حقیقت کے روپ میں متشکل ہوجاتی ہے۔ جیسے 1921 میں اونٹاریو کی ایک خاتون خانہ، جس کا نام ”کیرولین“ تھا۔ اچانک ایک ایسی پراسرار بیماری کا شکار ہوگئی، جس میں کچھ گھنٹوں کے لیئے اُس کا جسم مکمل طور پر سرخ ہوجاتا تھالیکن تھوڑی دیر بعد ہی واپس اپنی اصل حالت پر آجاتا تھا۔ کیرولین اس عجیب و غریب مرض کا شکار کم و بیش پورا ایک سال رہی اور ایک روز اچانک از خود ہی کیرولین اِس موذی مرض سے مکمل طور پر شفایابی ہوگئی۔ لیکن شفایابی، مرض سے بھی زیادہ اُس کے لیئے باعث آزار ثابت ہوئی۔ کیونکہ اچانک صحت مند ہونے کے بعد اس میں عجیب و غریب یہ تبدیلی رونما ہوئی کہ اگر اس کے جسم کو کوئی چھوتا تو، چھونے والے شخص کو بجلی کا زبردست جھٹکا لگتا تھا۔جبکہ اس کے جسم سے باقاعدہ شعاعین نکلتی ہوئی بھی محسوس ہوتی تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر وہ کسی کو ایک منٹ سے زیادہ پکڑتی تو اُس کے ساتھ بالکل ویسے ہی چمٹ جاتاتھا، جیسے کوئی کرنٹ زدہ بجلی کے کھمبے کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور کیرولین کے ساتھ چمٹے ہوئے شخص باقاعدہ کسی چیز کے ذریعے بھرپور طاقت و قوت سے الگ کرنا پڑتا تھا۔

زبان درازعورت
زبان دراز ہونا اُردو زبان کا ایک محاورہ ہے، یہ عموماً اُس وقت بولا جاتاہے،جب کوئی شخص عامیانہ اور گستاخانہ گفتگو کرنے کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنالے۔ ویسے تو مرد ہو یا عورت زبان دراز ہونا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا لیکن مشرق کے معاشرتی ماحول میں بطورِ خاص لڑکیوں کی لمبی زبان ہونا انتہائی بُرا سمجھا جاتا ہے۔مگر کیا کیجئے کہ زمانے کا چلن تبدیل ہوجانے سے لمبی زبان ہونا بھی باعثِ اعزاز بن گیا ہے۔ مئی 2015 میں مشی گن سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ ایڈرین لیوائس100 ملی میٹر یعنی کم و بیش 4 انچ لمبی زبان کی وجہ سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہوگئی۔ دراصل ایڈرین لیوائس کی زبان پیدائشی طور پر پر ہی کچھ زیادہ لمبی تھی۔ اُس کے والدین نے اس بابت بے شمار طبی ماہرین سے علاج معالجہ کے لیئے رجوع بھی کیا۔تاکہ اگر سرجری کے ذریعے زبان کو چھونا کرنا، ممکن ہوسکے تو آپریشن کروالیا جائے۔ مگر تمام ڈاکٹرز کو یہ خیال تھا کہ انسانی زبان کو کم یا زیادہ کرنے فی الحال ممکن نہیں ہے۔ اس لیئے ایڈرین لیوائس کو لمبی زبان کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہوگی۔ درج ذیل مختصرلنک سے ایڈرین لیوائس کی زبان درازی کے چند حیرت انگیز مناظر آپ بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔https://youtu.be/ipVgIIWGCak

بدبودار شہزادیاں
خواتین کم عمر ہوں یا ادھیڑ عمر بلا کسی تخصیص انتہائی نفاست پسند اور صفائی کی دلدادہ ہوتی ہیں۔ نیز عورت کسی بھی معاشرے سے تعلق رکھتی ہو، وہ اپنی خوبصورتی اور بناؤ سنگھار کے لیئے ہرممکن کوشش ضرور کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میک اَپ سازی کی صنعت کا شمار دنیا کی بڑی منافع بخش صنعتوں میں ہرگز نہ ہوتا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے اگر کہیں سے خبر سننے یا پڑھنے کو ملے کہ کوئی خاتون اپنی صفائی ستھرائی کا بالکل خیال نہیں رکھتی تو ایسی افواہ پر یقین کرنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ بہرکیف سچائی یہ ہی ہے کہ بعض عورتیں واقعی میک اَپ کو ایک آزار اور عذاب سمجھتی ہیں۔ جیسے روس کی حکم ران ملکہ (1740 – 1693) اینا ایوانونا جس نے 1730 سے لے کر 1740 تک روس پر حکومت کی کے بارے میں تاریخ کی مستند ترین کتابوں میں مرقوم ہے کہ اس نے دوران اقتدار نہ کبھی اپنا چہرہ دھویا اور نہ ہی کبھی غسل کیا۔ بلکہ وہ بعض اوقات اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مکھن لگالیا کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے ملکہ کے جسم مکھن اور گندگی کی بدبو آتی تھی اور اُس کے قریب رہنے والے وزراء،خدمت گار کنیزوں اور درباری عملہ کے لیئے اس کے قریب رہنا بھی دو بھر ہوجاتاہے۔ کچھ ایسا ہی مشہور فلمی اداکارہ گیزی مارٹن کے متعلق بھی زبان زدِ عام ہے کہ وہ صفائی ستھرائی کا زیادہ خیال نہیں رکھتی تھی اور اُس نے زندگی میں منہ دھونے کے لیئے نہ تو صابن استعمال کیا اور نہ ہی پانی۔بلکہ وہ روزانہ صبح اُٹھ کر پہلے نیم ابلے ہوئے آلو یا پھر لیموں ملتی تھی۔ اس کے بعد گرم دودھ سے منہ دھولیتی تھی۔جبکہ اُسے خوشبو سے بھی شدید الرجی تھی، نہ تو وہ خود پرفیوم لگاتی تھی اور نہ ہی کسی ایسے شخص کے ساتھ وقت گزارتی تھی، جس نے کسی بھی قسم کی خوشبو لگائی ہوئی ہو۔

پھر وہی”نسوانی“ہیرا پھیری
بیگم کی جانب سے اپنے شوہر کی جیب پر ہاتھ صاف کرنے کے متعلق تو قارئین نے سنا ہی ہوگا لیکن آج آپ کو ایسی خاتون خانہ کے بارے میں بتاتے ہیں،جس نے اپنے شوہر کی جانب سے دی گئی خیرات کو بھی بیچ کھایا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 1984 میں لاس اینجلس امریکہ کے اولمپک ویلج میں ایک کروڑ پتی امریکی کی بیوی کو ٹکٹ بلیک میں فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ 29 سالہ وزنائیک (Vizanyk) جمناسٹک مقابلوں کے ٹکٹ سو ڈالر فی ٹکٹ فروخت کررہی تھی۔ عورت نے پولیس کو بتایا کہ اس کے خاوند نے اولمپک آرگنائزنگ کمیٹی کو ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا تھا،جس کی بنا پر اس کے خاوند کو 15 ہزار ڈالر کے ٹکٹ ناقابل فروخت یعنی مفت دیئے گئے،جنہیں وزنائیک نے بلیک میں فروخت کرنا شروع کردیا۔

ہنسی تو مری
یوں تو ہنسنا، ہنسانا اور قہقہے لگانا مسکراتی زندگی کی علامت ہے۔ لیکن دنیا میں بعض اوقات قہقہے غم کا سبب بھی بنتے رہے ہیں۔اس مناسبت سے معروف شاعر بشیر بدر نے کیا خوب شعر کہا ہے کہ”ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے۔۔۔ تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر“۔لیکن ہمارے ہاں! شاعر کے خیالات کے یکسر برخلاف ہنسی کو علاج غم سمجھا جاتاہے۔ مگر ہنسنے مسکرانے کو زندہ دلی کی فہرست میں فقط اُس وقت ہی شمار کیا جائے گا، جب ہنسنے والی کی ہنسی اعتدال میں ہو۔حیران کن طور پر بہت زیادہ ہنسنے سے نہ صرف دل مردہ ہوجاتاہے بلکہ کبھی کبھار ہنسی مذاق میں حد سے تجاوز کرناسنگین حادثات و سانحات کا سبب بھی بن جاتاہے۔ 12 اگست 1945 کی ایک رات برطانیہ میں مسز نارڈ نامی خاتون مشہور و معروف مزاحیہ اداکار لارل اور ہارڈی کی مزاحیہ فلم پر اس قدر ہنسی کہ ہنسی روکنے سے بھی نہ رُکی۔واضح رہے کہ سینما ہال میں بیٹھے ہوئے سب لوگ خاتون کے مسلسل اور بے تحاشا ہنسنے سے سخت پریشان ہوگئے۔ یہاں تک سینما ہال کے منتظمین نے فلم کی نمائش روکنے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں سینما کے منیجر نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا، مگر ڈاکٹر کی کسی بھی تدبیر اور دوا سے مسز نارڈ کی ہنسی نہ رک سکی۔بالآخر اسے ہسپتال لے جایا گیا، جہاں چند گھنٹے بعد ہنستے ہنستے ہی اس خاتون کا انتقال ہوگا۔

پتلی کمرکرنے کا جنون
صرف مشرق میں ہی نہیں بلکہ مغرب میں بھی پتلی کمر کو خوب صورت اور دلکش خاتون کا ایک امتیازی وصف شمار کیا جاتاہے۔ خاص طور پر مشرق میں اگر کسی دوشیزہ کو پتلی کمر کے ساتھ ساتھ بل کھاتی کمر کی ”اضافی دلکشی“ بھی میسر آجائے تو حسن پرستوں کے نزدیک ایسی خاتون کی خوب صورتی دو آتشہ قرار پاتی ہے۔ قصہ مختصر پتلی کمر کا حصول ہر عورت کا ایک دیرینہ خواب ہوتاہے،جس کی تعبیر کو حاصل کرنے کے لیئے بے چاری خواتین ”ڈائٹنگ“کا کوہِ گراں بھی ہنستی مسکراتی اُٹھا لیتی ہیں۔ امریکی خاتون کیتھی جونگ (Cathie Jung) کو اَب تک کی سب سے پتلی کمر والی عورت ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ ابتدا ء میں اس کی کمر کی پیمائش 15 انچ تھی۔جو ہر لحاظ سے پتلی کمر کے”اعلیٰ معیار“پر پورا اُترتی تھی۔ مگر کیتھی اور اس کے خاوند بوب کو اتنی مختصر سے کمر بھی بڑی لگتی تھی۔ چنانچہ کیتھی نے اپنی کمر کو مزید مختصر اور باریک کرنے کے لیئے بیلٹ کا استعمال کرنا شروع کیا۔حیران کن طور پر 38 برس کی عمر میں اس خاتون نے اپنی کمر کا سائز 6 انچ تک مختصر کرلیا تھا۔ یہ عورت تین بچوں کی ماں بھی تھی۔

قاتل عورتیں
بہت پرانی مثل مشہور ہے کہ دنیا کے تمام قتل زن،زر، اور زمین کی وجہ سے ہوتے ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر عورت کسی قتل کا سبب بن سکتی ہے تو وہ خودکسی بے گناہ کو قتل نہیں کرسکتی۔ یاد رہے کہ تایخ میں بے شمار قتل عورتیں گزری ہیں لیکن زیادہ تر قاتل خواتین غیر ارادی طور پر قتل کی مرتکب ہوئی تھیں۔ کیا خواتین سیریل کلرز ہوسکتی ہیں۔ یعنی ایسی عورتیں جنہیں بلاوجہ لوگوں کو قتل کرکے آسودگی کا احساس پیدا ہوتا ہو۔ میکسیکو کی دو بہنوں ڈلفیا (Delfina) اور ماریا (Maria) نے مل کر سب سے زیادہ قتل کیے۔ ان دونوں بہنوں نے قحبہ خانوں سے لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے گھر لے جا کر قتل کیا۔ ان دونوں بہنوں نے بہت زیادہ قتل کیئے تھے لیکن ان کے خلاف صرف 90 لڑکیوں کے قتل کے ثبوت مل سکے۔ ڈلفینا اور ماریا کو 1964 میں 40 برس کی عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی۔جبکہ دنیا میں زہر دے کر قتل کرنے والی ایک سیریل کلر نرس بھی گزری ہے، جس کا نام جان ٹوپان تھا۔مقدس پیشے سے منسلک اس نرس نے 20 برس کے عرصہ میں 30 سے لے کر 100 مریضوں کو مارفین یا ایٹروپائن دے کر ہلاک کیا۔ گرفتار ہونے کے بعد اس نے صرف 30 قتل کرنے کا عتراف کیا۔بعدازاں عدالت نے جان ٹوپان نامی اس سیریل کلر نرس کو دماغی مریضہ قرار دے کر پاگل خانے بھیج دیا گیا۔علاوہ ازیں سرداروں بی بی نامی خاتون پاکستان کی وہ پہلی قاتل خاتون تھی،جسے 4 فروری 1954 جمعرات کے روز ساہی وال جیل میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ سرداراں کی عمر صرف 19برس تھی، وہ شادی شدہ اور ایک چودہ ماہ کے بچے کی ماں بھی تھی۔ عدالت نے اسے اپنی نسبتی بہن کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔

چہرے کے چھید بنے معیارِ حسن
تاریخ کی بعض کتابوں میں مرقوم ہے کہ لیلیٰ کی رنگت ہی صرف سیاہ نہیں تھی بلکہ شکل و صورت اور ناک،نقشہ کے لحاظ سے بھی اُسے قبول صورت ہی کہا جاسکتاتھا۔ مگر مجنوں کے نزدیک لیلیٰ دنیا کی حسین ترین خاتون تھی اور اس کے فراق میں مجنوں، اپنے جذبہ عشق کو اُس مقام تک لے گیا کہ لیلیٰ حسن ودلکشی کا افسانوی معیار کہلائی۔نیز آج بھی لیلیٰ مجنوں کی داستان عاشقانِ دل گرفتہ کے نزدیک نصاب کا درجہ رکھتی ہے۔تمہید باندھنے کا مقصد،اپنے قارئین کا فقط یہ باور کروانا ہے کہ حسن کا معیار،سب کے نزدیک ایک جیسا نہیں ہوتا۔ یعنی بعض افراد اور معاشروں کا معیار حسن اتنا عجیب و غریب ہوتا ہے کہ سُن کر حیرانگی ہوتی ہے۔ایڈنبرگ (سکاٹ لینڈ) کی ایلین ڈیوڈ سن (Elain Davidson) نے جنوری 1997 سے اَب تک اپنے پورے جسم میں 462 سوراخ اور چھید کروائے۔صرف اس کے چہرے پر 192 چھید تھے، جس میں اس نے موتی اور منکے پرورکھے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایلین ڈیوڈ سن نے یہ سب کچھ دوسروں کے سامنے سب سے زیادہ دلکش و حسین نظر آنے کے لیئے کیا۔

بیش قیمت پنڈلیاں
ہر انسان کے نزدیک اُس کے جسم کا ہر عضو ہی بیش قیمت اور اَن مول ہے۔ جسے روپے پیسے میں تولنا کسی بھی لحاظ سے مناسب بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔ مگر کیا کریں اگر کوئی فرد اپنے جسم کے کسی عضو کی خود ہی قیمت لگانے پر اصرار کرنا شروع کردے۔ کہتے ہیں کہ مور کو اپنے پروں کی خوب صورت پر ناز اور پاؤں کی بدصورتی سے شدید کراہت ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حضرت انسان کے ساتھ بھی ہے کہ یہ بھی کبھی کبھار اپنے کسی عضو کی محبت میں جنون کی حد تک مبتلا ہوجاتاہے۔ ایسے ہی غیر معمولی کیفیت یعنی نرگسیت کا شکار معروف امریکی اداکارہ،کائیڈ کیرسی (Cyd Charisse) بھی تھی۔1952 میں امریکی اداکارہ کائیڈ کیرسی نے اپنی ٹانگوں کی انشورنس 5 ملین ڈالر میں کروائی گئی تھی۔ چنانچہ یہ ادارہ آج بھی دنیا بھر میں ”ملین ڈالر ٹانگوں والی لڑکی“ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں