Missing-in-Care-lockdown

کیئر فار یو سے کیئر غائب ہوگئی

وطن عزیز میں کورونا وائر س کے بذریعہ تفتان وارد ہونے کے بعد پہلا خیال تو یہ ہی آیا تھا کہ اِس وبائی بحران سے نمٹنے کے لیئے اہلِ سیاست کی جانب سے غیر معمولی بالغ نظری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیئے کسی ایک متفقہ”انتظامی لائحہ عمل“ کا انتخاب کرلیاجائے گا۔ مگر افسوس! ہمارے سیاست دانوں نے تو کورونا وائرس کو بھی اپنی اپنی سیاسی بقا کے لیئے ایک سنہری ”سیاسی موقع“ سمجھا اورکورونا وائرس کی چھتری تلے اپنی اپنی سیاست چمکانے کا ”مشن بے کار“ بھرپور انداز میں شروع کردیا۔شاید ہمارے سیاست دانوں کے نزدیک کورونا وائرس کوئی عالمگیر مہلک وبائی مرض نہیں بلکہ ایک خطرناک ”سیاسی ہتھیار“ ہے، جس کی مدد سے وہ ایک دوسرے کو عبرت ناک سیاسی شکست سے دوچا ر کرنے کے درپے ہیں۔خاص طور پر مشکل ترین وبائی ایّام میں سندھ حکومت اور وفاق کے مابین جس طرح کی گھمسان کی معرکہ آرائی جاری ہے،اُسے دیکھ کر تو یہ ہی لگتا ہے کہ کورونا وائرس کے نام پر شروع ہونے والی یہ سیاسی جنگ اُس وقت تک اختتام پذیر ہونے والی نہیں ہے جب تک کہ دونوں فریقوں میں سے کسی ایک فریق کو واضح طور پر شکستِ فاش نہیں ہوجاتی۔ مگر اِس ساری سیاسی لڑائی کا سب سے زیادہ نقصان سندھ کی عوام کا ہورہا ہے۔جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اُنہیں کورونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہو کر مرنا ہے یا پھر لاک ڈاؤن کے سبب ہونے پیدا ہونے والے مختلف مصائب کا شکار ہو کر راہی ملک عدم ہونا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ وفاق اور سندھ حکومت کی آپسی لڑائی میں سندھ کی مجبور اور مقہور عوام کو کورونا وائرس کے انسداد کے نام پر ایک امتیازی لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔جب میڈیا کی جانب سندھ میں ہونے والے اِس امتیازی لاک ڈاؤن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو وزیراطلاعات سندھ،ناصر حسین شاہ کی طرف سے بیان سامنے آجاتاہے کہ ”ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے،مگر بدنام سندھ کو کیا جارہاہے“۔لیکن کیا قابلِ احترام ناصر حسین شاہ صاحب سندھ میں جاری ہونے والے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری کے اُس منفرد حکم نامے کی کوئی قابلِ قبول تشریح اور توضیع پیش فرمائیں گے۔جس کے مطابق سندھ میں صحافیوں کو تو ایک طرف رکھیں،خواتین اور معصوم بچوں کو بھی موٹر سائیکل پر بٹھانا قابلِ دست اندازی پولیس جرم بنادیا گیا ہے۔ڈبل سواری پر پابندی کا ایسا حکم نامہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں کبھی جاری نہیں کیا گیا،جیسا کہ اِس وقت سندھ بھر میں نافذ العمل ہے۔ صر ف اِس ایک حکم نامے کی وجہ سے سندھ کے عوام کی زندگی ملک عزیز کے دیگر علاقوں میں رہنے والے شہریوں کی نسبت کتنی زیادہ اجیرن بنادی گئی ہے۔ شاید اِس کا اندازہ وہ خود ساختہ عوامی رہنما بالکل بھی نہیں لگاسکتے،جن کے اہلِ خانہ ہمیشہ سے ہی بڑی بڑی تیز فراٹے مارتی گاڑیوں میں سفر کرنے کی عادی ہوں۔ حالانکہ سندھ حکومت نے ہی لاک ڈاؤن کے دوران ہنگامی حالت یا جائز ضرورت کی صورت میں گھر کے دوافراد کو آزادانہ نقل و حمل کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ لیکن لطیفہ ملاحظہ ہو کہ ڈبل سواری کے منفرد حکم نامے کی وجہ سے سندھ کا شہری کسی بھی صورت حال میں اپنی بیوی،بہن،بیٹی یا بچہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر کہیں نہیں لے جاسکتا،کیونکہ ایسا کرنا قانون کی صریح خلاف ورزی ہوگا۔ یعنی اَب سندھ حکومت کو سوچنا ہوگا اُن کا لاک ڈاؤن کے نفاذ کے پہلے دن ”کیئر فار یو“ کا لگایا گیا نعرہ اچانک سے کہاں غائب ہوگیاہے۔



سندھ میں ”کیئرفار یو“ نامی لاک ڈاؤن کی دوسری ہنستی مسکراتی مثال ملاحظہ کرنی ہوتو سندھ کے بے چارے چھوٹے تاجروں کی حالتِ زار دیکھ لی جائے۔جنہیں سندھ حکومت کی طرف سے اپنی اپنی دُکانوں سے آن لائن کاروبار کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی گئی ہے لیکن سندھ کے بے وقوف تاجر ابھی تک اِس پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کا راستہ ہی نہیں تلاش کر پائے ہیں اور بجائے اپنا آن لائن کاروبار شروع کرنے کے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر سندھ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے میں مصروف عمل ہیں۔جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں مثلاً تحریک انصاف سندھ اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی سندھ حکومت کے خلاف احتجاج کے لیئے اپنے اپنے ”تہنیتی“ پیغامات تاجروں کو پہنچاچکے ہیں۔جس کے بعد اِمکان ظاہر کیا جارہاہے کہ آنے والے دنوں میں سندھ میں لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کے لیئے تاجر برادری کی جانب سے بھرپور مظاہروں کا ایک نیاسلسلہ شروع ہوسکتاہے۔ یقینا اگر سندھ میں مظاہرے ہوں گے تو میڈیا اُن کی کوریج بھی ضرور کرے گا۔یوں ایک بار پھر سے میڈیا کو یہ قولِ فیصل سننے کو ملے گا کہ ”ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے،مگر بدنام سندھ کو کیا جارہا ہے“۔

کیا ہی اچھی بات ہو کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے انتظامی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے صوبہ سندھ میں بھی لاک ڈاؤن کو مزید سخت کرنے سے قبل متاثر ہونے والے تجارتی،مذہبی اور عوامی نمائندوں کو بھی ایک بار اعتماد میں لے لیں۔سندھ حکومت کی ”سیاسی انانیت“ کو دیکھتے ہوئے اِس تجویزپر عمل کرنا وزیراعلیٰ سندھ کے لیئے مشکل ضررو ہوگا مگر ہمیں اُمید ہے کہ اگر وہ ایسا ایک بار بھی کر گزریں گے توپھر واقعی سندھ کا لاک ڈاؤن ”کیئر فار یو“ کا خوب صورت منظر پیش کرنے لگے گا اور سندھ میں نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کو بھی عوامی و سیاسی حمایت میسر آجائے گی۔بصورت دیگر ملک بھر سے سندھ میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے خلاف بھانت بھانت کی آوازیں یوں ہی سنائی دیتی رہیں گی اور سندھ کی عام عوام بھی لاک ڈاؤن پر ”کل فار یو“ کی پھبتی کستے رہیں گے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 07 مئی 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں