Karachi Lok Story

کراچی کی بھولی بسری لوک کہانی

کسی زمانے میں بحیرہ عرب کے قریب ایک بستی تھی جس کا نام سنمیانی تھا۔اس بستی کے نزدیک ایک بہت بڑا اور مشہور سمندری پانی کا تالاب بھی تھا،جوکلاچی کہلاتا تھا۔کلاچی کے اردگرد ماہی گیروں کی ایک کثیر تعداد آباد تھی جن کا آبائی پیشہ سمندر میں مچھلیوں کا شکار کرنا تھا۔اِن ہی مچھیروں کے ایک چھوٹے سے گھرمیں میں سائیں بخش اور اسکے چھ سگے بھائی بھی رہتے تھے۔ سائیں بخش کے ماں باپ اُس کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی اس علاقہ میں پھیلنے والے وبائی مرض طاعون کا شکار ہوکر انتقال کر چکے تھے، جس کے باعث یتیم سائیں بخش اپنے بھائیوں کے زیرِ سایہ رہتا تھا۔ سائیں بخش اپنے تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور بڑا ہی ہونہار تھا، جبکہ سائیں بخش کے چھ بھائی خاصے تنو مند اور چست و چالاک اور مچھلی پکڑنے کے فن میں پوری طرح ماہر تھے۔روز کا معمول تھا کہ سائیں بخش کے بھائی اُسے گھر پر اکیلا چھوڑ کر صبح سویرے مچھلی کے شکار کے لیئے نکل جاتے تھے۔سائیں بخش کوبھی سمندر کو قریب سے دیکھنے اور مچھلی کے شکار پر جانے کا بہت شوق تھا،لیکن کوئی بھی بھائی اسے اپنے ساتھ سمندر پر لے کر نہیں جاتاتھا۔وہ ہررات سونے سے پہلے سوچتا تھا کہ صبح ضرور اپنے بھائیوں کے ساتھ جانے کی ضد کرے گامگر پھر اُسے یہ بات اپنے بھائیوں سے کہنے کی ہمت نہ ہوتی۔

خلافِ توقع آج جب صبح سویرے سائیں بخش بیدار ہوا تو اُس نے ہمت کرکے اپنے بھائیوں سے آخر کہہ ہی دیا کہ ”مجھے بھی آپ سب کے ساتھ مچھلی کے شکار کے لیئے سمندر پر جاناہے“۔ بھائی سائیں بخش کی بات سُن کر زور زور سے ہنسنے لگے اور ایک بھائی نے سائیں بخش کو جھڑکتے ہوئے غصیلے انداز میں کہا ”تم ابھی صرف دس سال کے ہوئے ہو اور یہ عمر سمندر کے عین بیچوں بیچ جانے کے لیئے موزوں نہیں،اس لیئے آرام سے گھر پر بیٹھو،ہمارا کام بہت خطرناک ہے، سمندر میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے،ہم وہاں اپنا کام کریں گے یا تمہیں سنبھالیں گے“۔



یہ کہہ سارے بھائی ہنستے ہوئے سمندر پر شکار کے لیئے چلے گئے اور سائیں بخش ہمیشہ کی طرح اس بار بھی گھر میں اکیلا رہ گیا۔سائیں بخش نے اپنے بھائیوں کے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ یا تو مجھے جلدی سے بڑا کردے یا پھر ایسا کچھ کردے کہ میں بھی لوگوں کی نظروں میں اہمیت اختیار کر جاؤں“۔یہ دُعا مانگ کر سائیں بخش کو سکون سا مل گیا اور وہ پھر گھر کے اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف ہوگیا۔ اُسے پتا ہی نہ چلا کہ کب دن گزر گیا اور کب شام ہوگئی،اچانک سائیں بخش کو خیال آیا کہ خلافِ توقع ابھی تک اُس کے بھائیوں کی گھر واپسی نہیں ہوئی۔

اب تو سورج ڈوبے ہوئے بھی کافی دیر ہوچکی تھی لیکن اُس کے بھائی واپس نہ لوٹے تھے وگرنہ اس سے پہلے تو وہ سرِ شام ہی واپس آجاتے تھے۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا سائیں بخش کی پریشانی بڑھتی گئی۔آخر اُس سے برداشت نہ ہوا اور وہ سمندر کے کنارے جاکر ملاحوں اور مچھیروں سے اپنے بھائیوں کا حال احوال پوچھنے لگا اور وہاں کسی نے اُسے بتایا کہ اس کے بھائی ایک بھنور میں پھنس گئے تھے۔پھر انہیں سمندر کے آدم خور جانور نہنگ نے نگل لیا جو پہلے بھی کئی بار شکار کی غرض سے سمندر میں اُترنے والے ماہی گیروں کو اپنا لقمہ بنا چکا تھا۔سائیں بخش یہ المناک خبر سن کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا لیکن ساتھ ہی اس کے دل میں آدم خور نہنگ سے انتقام لینے کی آگ پوری شدت سے بھڑک اُٹھی۔

سائیں بخش عمر میں چھوٹا اور جسمانی طور پر کمزور ضرور تھا لیکن فہم و فراست کے اعتبار سے اس میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ کوئی ایسی تدبیر کرسکے جو حسبِ حال ہو۔کافی سوچ و بچار کے بعد اس نے اپنے گاؤں کے بڑوں کو لوہے کا ایک بہت بڑا پنجرہ بنوانے کاکہا۔اس پنجرے کے چاروں طرف بڑے بڑے کیل لگوائے اور پھر اس کو احتیاط سے موٹے موٹے رسوں سے بندھواکر اُسے سمندر میں اُتارنے کی ترکیب سوچنے لگا۔وہ بذاتِ خود اپنی حفاظت کا پورا سامان کر کے ہاتھوں میں نوکیلے اور زخم کاری لگانے والے بھالے لے کر پنجرے میں بیٹھ گیااور اسے اندر سے اچھی طرح بند کرلیا۔کنارے پر اس نے اپنے نوجوان ساتھیوں کو اس کام پر لگادیا کہ وہ رسّوں کے سروں کو مضبوطی سے تھامے رہیں اور جیسے ہی رسہ ضرورت سے زیادہ ہلے وہ اسے اپنی جانب کھینچ لیں۔

سائیں بخش کی ہدایات کے عین مطابق ایک بڑی سی کشتی کی مدد سے پنجرہ کو سمندر میں عین اُس جگہ اُتار دیا گیا جہاں لوگوں کو آدم خور شیطانی نہنگ کے ہونے کا پختہ یقین تھا۔خوش قسمتی سے جب یہ پنجرہ خوفناک نہنگ کے قریب پہنچا تو وہ اس کے اندر بیٹھے ہوئے انسان کو دیکھ کر خشمگیں ہوکر اس پر جھپٹا،پنجرے کے باہر لگے ہوئے فولادی کیل اور کانٹے اس کے جبڑے میں پیوست ہوگئے اور آدم خور سمندری نہنگ تکلیف کی شدت سے ٹرپ کر ادھر اُدھر لہرانے لگا،سائیں بخش نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے بھالے بھی اُس موذی پر چلانے شروع کردیئے۔ کنارے پر بیٹھے ہوئے جو نوجوان رسّے تھامے ہوئے تھے انہوں نے جب رسہ کو ہلتے دیکھا تو پوری طاقت سے پنجرے کو اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔اس طرح پنجرے کے ساتھ ساتھ تکلیف کی شدت سے تڑپتا پھڑکتا آدم خور سمندری نہنگ بھی کنارے سے آلگا۔تب سب بستی والوں نے ملکر نہنگ پر چاروں طرف سے حملہ کر کے اسے ہلاک کردیا اور پیٹ چاک کر کے سائیں بخش کے گمشدہ بھائیوں کی لاشوں کے وہ حصّے نکال لیئے جو سمندری شیطان نہنگ کے پیٹ میں ہضم ہونے سے رہ گئے تھے۔پھر بستی والوں نے سائیں بخش کے بھائیوں کے بچ جانے والے جسمانی اعضاء کو پورے عزّت و احترام کے ساتھ دفن کردیا اور نہنگ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سمندر میں پھینک دیئے۔

اس واقعہ نے سائیں بخش کی ذہانت اور بہادری کی دھاک نہ صرف بستی والوں پر بٹھادی بلکہ آہستہ آہستہ ارد گرد کے علاقوں میں بھی اس کی شہرت سنائی دینے لگی۔ جس کی وجہ سے لوگ جوق در جوق کلاچی میں آکرآباد ہونا شروع ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کلاچی کی آبادی دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔آج کلاچی کی یہی بستی پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شہر ”کراچی“ کہلاتاہے۔ یہ ایک قدیم لوک کہانی ہے جو سینہ بھی سفر کرتی ہوئی ہم تک پہنچی۔

حوالہ: یہ کہانی سب سے پہلے ماہنامہ الف نگر میں جولائی 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

کراچی کی بھولی بسری لوک کہانی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں