Mob Murder

ہجوم، کب تک قتل کرتا رہے گا؟

ایک مدت سے سنتے آئے تھے کہ گھر سے باہر اپنی روزی، روٹی کمانے کے لیئے نکلنے والا کوئی بھی شخص لوگوں کے درمیان، یعنی ہجوم میں زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقہ مچھر کالونی میں رونما ہونے والے ایک دلخراش واقعہ نے بزرگوں کا یہ مقولہ بھی سراسر، غلط ثابت کردیا ہے۔کیونکہ اَب ہم لوگ،ہجوم میں بھی بالکل محفوظ نہیں رہے ہیں اور کوئی بھی ہجوم کسی کی بھی شخص کی،کبھی بھی،کہیں بھی اور کسی بھی طریقہ سے جان لے سکتاہے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر سچ یہ ہی ہے کہ صرف ایک افواہ کی بنیاد پر کراچی،ڈاکس کے علاقے مچھر کالونی کے علاقہ مکینوں نے ایک نجی ٹیلی کام کمپنی میں ملازم دو افرادپر بچوں کے اغوا کا الزام عائد کرکے ہلاک کردیا۔

غصے میں بپھرے اور نفرت سے بھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں بے جرم و سزا، جاں بحق ہونے دونوں افرد کی شناخت ایمن جاوید اور اسحاق کے ناموں سے کرلی گئی ہے۔ ایمن جاوید،ٹیلی کام کمپنی کا انجینئر، جبکہ اسحاق ڈرائیورتھا اور یہ دونوں افراد اپنی گاڑی میں لیپ ٹاپ اور دیگر تیکنیکی سامان کے ذریعے علاقے میں لگے سیلولر ٹاورز کے سگنلز چیک کررہے تھے۔ جب وہ دونوں افراد، اپنا کام ختم ہوجانے کے بعد، مذکورہ علاقے سے باہر نکلنے کے لیے ایک بچے سے راستہ پوچھنے کے لیئے بات چیت کر رہے تھے تو عین اُسی وقت کسی نے علاقے میں افواہ پھیلادی کہ سفید گاڑی میں دو افراد ایک بچہ کو اغواء کر کے لے جارہے ہیں۔افواہ سنتے ہی علاقہ مکین جتھے کی صورت میں جمع ہوئے اور دونوں افراد کو چاروں طرف سے گھیر کر اُن پر پتھروں،اینٹوں اور سیمنٹ کے بلاکوں کی اتنی بارش کی کہ دونوں شخص موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

یادرہے کہ اسی علاقہ میں پولیوٹیم کے ساتھ موجود ایک پولیس اہلکار ہجوم کے نرغے میں پھنسے ہوئے دونوں افراد کی امداد کے لیے بھی پہنچا تھا اور اُس نے لوگوں سے چیخ چیخ کر یہ اپیل بھی کی تھی کہ چونکہ دونوں افراد ہماری گرفت میں آچکے ہیں۔لہٰذا، ایک بار اِن سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ وہ یہاں کیا کررہے تھے یا انہیں تفتیش کے لیئے پولیس کے حوالے کردیتے ہیں۔لیکن بپھرے ہوئے ہجوم نے اُس پولیس اہلکار کی بات سننے کے بجائے، اُلٹا اُسے بھی تھپڑ، مکے، پتھر اور اینٹیں مار، مار کر شدید زخمی کردیا۔ بظاہر پولیس نے واقعہ کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کی مدد سے 8 افراد کو شناخت کرکے ان میں سے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔جبکہ چیف جسٹس آف سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ مچھر کالونی کا ازخود نوٹس لے کر آئی جی سندھ، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو واقعہ کی مکمل رپورٹ کے ساتھ عدالت میں طلب کرلیاہے۔ یقینا عدالت عالیہ کے متحرک ہونے کے بعد غالب امکان یہ ہی ہے کہ واقعہ میں شامل تمام ملزمان بہت جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے۔

مگر یہاں ذرا ایک لمحہ کے لیئے سوچئے! کہ جب مذکورہ سانحہ میں ملوث ملزمان کو سزا ہونے کے بعد یہ معلوم ہوگا کہ جن افراد کے بہیمانہ قتل کے جرم میں اُنہیں قرار واقعی سزا سنائی گئی ہے، وہ افراد تو بے گناہ تھے، تو اُن کی حالت کیا ہوگی؟۔ جبکہ اس وقت مقتولین اور گرفتار ملزمان کے لواحقین بھی کم و بیش ایک جیسے ہی کرب سے تو گزر رہے ہیں۔یعنی مقتولین کے وارث اس غم میں مبتلا ہیں کہ اُن کے اپنے بے جرم و خطا کیوں قتل کردیئے گئے؟ اور قاتلوں کے وارث اِس صدمہ سے پریشان ہیں کہ اُن کے پیاروں نے بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ کیوں رنگ لیئے؟۔ سادہ الفاظ میں سمجھ لیجئے کہ اگر مقتولین کے ورثا غم زدہ ہیں تو اُن کے قاتل بھی شرمندہ تو ضرور ہی ہوں گے۔

واضح رہے کہ ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے بہیمانہ قتل کے واقعات کا رجحان ہمارے ملک میں اپنی انتہائی حدوں کو چھورہا ہے اور ہجوم کے ہاتھوں قتل و غارت کے پرتشدد واقعات روز بروزبڑھتے ہی جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر خانیوال کے ایک گاؤں جنگل ڈیرہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک شخص کو پہلے مارنے اور پھر اس کی لاش کو درخت سے لٹکانے کا واقعہ، گوجرانوالہ میں موٹرسائیکل چوری کرنے کا الزام لگانے کے بعد ہجوم کے تشدد سے ایک فرد کی ہلاکت کی خبر، ڈسکہ روڈ سیالکوٹ میں دو نوجوانوں پراہل علاقہ کی جانب سے ڈاکہ زنی اور قتل کا جھوٹا الزام لگا کر رسیوں سے باندھنے، ڈنڈوں سے بدترین تشدد اور پھر ان کی لاشوں کو سرعام لٹکانے کا سانحہ اور سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں سری لنکن منیجرپریانتھا کمار کے ہجوم کے نرغے میں مرنے جیسے اندوہ ناک واقعات سے اظہر من الشمس ہے کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر نفرت زدہ ہوگیا ہے اور اَب ہمیں کسی انسان کو قتل کرنے کے لئے کسی ٹھوس وجہ کی ضرورت بھی نہیں رہی ہے۔

مچھر کالونی کراچی میں رونما ہونے والا تازہ ترین سانحہ سراسر سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا شاخسانہ ہے۔ دراصل گزشتہ چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر ایسی ڈیپ فیک،یعنی خودساختہ اور جھوٹی ویڈیوز وائرل ہورہی تھیں،جن میں دکھایا جارہا تھا کہ بعض اغوا کار لوگوں کو اغواء کرکے زندہ حالت میں ہی اُن کے اعضا چھری، پیچ کس اور پلاس سے نکال رہے ہیں۔ ایسی تمام ویڈیو کے اختتام میں دیکھنے والوں سے یہ اپیل بھی کی جارہی تھی کہ وہ اپنے دروازے پر آنے والے کسی بھی شخص کو پانی نہ پلائیں، کھانا نہ کھلائیں اور بھیک نہ دیں۔کیونکہ یہ لوگ آپ کے بچے اغواء کر کے لے جائیں گے۔ یاد ر ہے کہ یہ ویڈیوز، ڈیپ فیک اور مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی مدد سے اس تیکنیکی مہارت سے بنائی گئی ہیں کہ اُن پر بالکل حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

دوسری جانب طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایسی ڈیپ فیک ویڈیوز کے بارے میں بعض افراد اتنا مرچ مصالحہ لگا کر گفتگو کرتے ہیں کہ سننے والوں کے ہوش و حواس رفوچکر ہوجاتے ہیں اور ایک لمحہ کے لیئے تو سامع کو اپنے سامنا کھڑا ہوا ہر اجنبی مشکوک، دھوکہ باز،اغواکار اورقاتل نظر آنے لگتاہے۔ غالب گمان یہ ہی ہے کہ مچھر کالونی کے مکینوں نے بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایسی ہی ڈیپ فیک ویڈیو ز کے زیر اثر آکر سیلولر کمپنی کے ملازمین کو اغوا کار سمجھ لیا اور یوں دو معصوم افراد ہجوم کے بہیمانہ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع واردات پر ہی جاں بحق ہوگئے۔کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں ہی اُس رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کے دعوے دار تھے کہ جنہوں نے آج سے چودہ سو برس قبل ارشاد فرمادیا تھا کہ ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیئے یہ ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تحقیق کئے بغیر)آگے بیان کردے“۔جبکہ قرآن حمید فرقان میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ”جھوٹ تو وہی افترا کیا کرتے ہیں،جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی جھوٹے ہیں“۔

کیا درج بالا آیت و حدیث کی روشنی میں ہم میں سے کسی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نظر آنے والی ویڈیو یا پوسٹ کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ شیئر کرنے سے پہلے کبھی اُس کی تصدیق کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ مذکورہ پوسٹ کا مواد،درست ہے یا غلط؟۔اگر آپ کا جواب بھی نہیں میں ہے تو پھر یقینا پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل و غارت کے واقعات یوں ہی ہوتے رہیں گے اورمشتعل ہجوم قانون اپنے ہاتھ میں لیتا رہے گا۔ کیونکہ ریاست کتنی بھی طاقت ور ہوجائے بہرحال وہ ہر شخص کے ساتھ ایک پولیس والا کھڑا کرنے کے قابل تو کبھی بھی نہیں ہوسکے گی۔ لہٰذا، اس بار ہماری حکومت سے نہیں بلکہ پاکستانی عوام سے التماس ہے کہ وہ مچھرکالونی کراچی میں رونما ہونے والے سانحہ کا سختی سے فوری نوٹس لے اور خبر کے لیئے صرف مصدقہ ذرائع مثلاً اخبار اور نیوز چنیلز پر انحصار کرے۔جبکہ سوشل میڈیا کو فقط سستی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھے۔ تاکہ پاکستانی معاشرہ کو افواہ ساز فیکٹری بننے سے بچایا جاسکے۔بقول شاعر
چہرے اُداس کردیے خوف و ہراس نے
افواہ کو نہ دیکھ، حقیقت تلاش کر

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 03 نومبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں