پاکستان میں دہشت گردی کا ہر واقعہ امریکہ بہادر کو پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرنے کا ایک نیا موقع فراہم کردیتا ہے لیکن امریکی سرزمین پر جب بھی کوئی پاکستانی کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو کیا پھر ہمارے حکمرانوں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ بھی امریکی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے شہریوں کے خون کا حساب امریکی حکمرانوں سے ببانگ دہل طلب کریں، مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے حکمران امریکہ سے اس قدر مرعوب اور کاسہ لیس ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے شہری کے قتل پراُونچی آواز میں مذمت کرتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں اور یہی کچھ ہمیں ”سانحہ ہیوسٹن“ پر بھی دیکھنے کو ملا۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہرہیوسٹن کے سانتا فی ہائی اسکول میں ایک طالب علم نے اسکول میں گھس کراندھا دھند فائرنگ کردی،عینی شاہد کے مطابق آرٹ کی کلاس جاری تھی کہ اس دوران ایک شخص چلتا ہو ا اندر داخل ہوا اور اس نے اچانک فائرنگ کردی، ایک لڑکی کی ٹانگ میں گولی لگی، حملہ آور کے ہاتھ میں شاٹ گن تھی۔ فائرنگ ہوتے ہی لڑکوں نے کلاس سے باہر دوڑ لگادی اور الارم بجادیا جس پر پورے اسکول سے طلبا اور اساتذہ جان بچا کر باہر کی جانب بھاگ نکلے۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی طالبہ سبیکا عزیزشیخ سمیت 10 افراد ہلاک اورمتعدد زخمی ہوگئے۔ واقعے کے فوری بعد پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی درجنوں گاڑیوں اورتین ہیلی کاپٹرزنے اسکول کوگھیرلیا اورمقابلے کے بعد 17 سالہ طالب علم سمیت دو افراد کوگرفتارکرلیا۔ فائرنگ کرنے والا اسی اسکول کا طالب علم ہے جسے حراست میں لے لیا گیا ہے، ہلاک ہونے والوں میں اکثریت طالب علموں کی ہے۔پولیس کے مطابق 10 افراد کو قتل کرنے والے ملزم کی شناخت ہوگئی ہے اس کا نام دمتری پاگورٹز ہے۔ملزم نے حملے سے چند گھنٹے قبل اپنی ایک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تصویر شیئر کی تھی جس پر ”بورن ٹو کل“ کے الفاظ درج تھے۔ امدادی اداروں نے وہاں پہنچ کر فوری طور پر لاشوں اور زخمیوں کو منتقل کیا۔
سبیکا گلشن اقبال، کراچی کی رہائشی تھی۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔اس کی دو چھوٹی بہنیں اور ایک بھائی ہے علی شیخ جو سبیکا سے سب سے زیادہ قریب تھا۔ سبیکا فرمابردار ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں بہت تیز اور ذہین تھی اسی وجہ سے وہ امریکہ جاکر تعلیم حاصل کرنے والوں کی فہرست میں جگہ پانے میں کامیاب ہوئی، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔سبیکا کی عمر 17 سال تھی۔ وہ گزشتہ سال کیری۔لوگر یوتھ ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ گئی تھیں۔سبیکا کے والد عزیزشیخ اور تایا جلیل شیخ نے نہایت جذباتی انداز میں بتایا کہ”سبیکا 21 اگست 2017 کو کراچی سے امریکہ پہنچی تھی اور اگلے مہینے یعنی 9 جون کو اسے واپس آنا تھا لیکن 22 دن پہلے اس کی موت کی خبر آگئی۔میری اس سے آخری بات ہوئی تو کہنے لگی بابا میں نے پچھلے ایک سال سے گھر کا کھانا نہیں کھایا بس پوٹاٹو چپس کھاکر گزارا کیا ہے آپ میرے لئے سب کھانے بنوا کر رکھئے گا۔اس نے اپنی پسند کے کھانوں کی طویل فہرست مجھے اور اپنی ماں کو بھیجی تھی۔ہم لوگ اس کی واپسی کے منتظر تھے اور گھر میں تیاریاں چل رہی تھیں لیکن ہماری تیاریوں سے پہلے سبییکا اپنے آخری سفر کی تیاری کر بیٹھی۔وہ کم عمری میں ہی اتنی بڑی بڑی باتیں کیا کرتی تھیں کہ یقین نہیں آتا تھا اور اب یقین نہیں آ رہا کہ سبیکا ہم میں نہیں ہے“۔انہوں نے کہا کہ”فائرنگ کے واقعے سے متعلق انہیں افطار کے بعد مقامی ٹی وی پر آنے والی خبروں سے معلوم ہوا،جس پرمیرا ماتھا ٹھنکا تو میں نے سی این این لگایا، اسکول وہی تھا جہاں سبیکا پڑھتی تھی، میں نے سبیکا کو فون پر فون کرنا شروع کردیئے لیکن کوئی رسپانس نہیں ملا۔ میں پریشان ہوگیا کیوں کہ کبھی ایسا ہوا ہی نہیں تھا کہ سبیکا نے میرا فون نہ اٹھایا ہو۔پھر میں نے اس کی دوستوں کے نمبر ڈائل کئے، امریکی کورڈی نیٹرز سے رابطہ کیا، اپنے جاننے والوں میں سے ایک خاتون نے رات دس بجے کے قریب مجھے روتے ہوئے فون کیا تو میں سمجھ گیا کہ سبیکا ہمیں چھوڑ کر چلی گئی۔بعد میں ہیوسٹن میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل نے فون پر سبیکا کی موت کی افسوسناک خبر دی۔امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چودھری نے بھی فون کر کے تعزیت کی، اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے بھی افسوس کا اظہار کیا گیا جبکہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے بھی سبیکا شیخ کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا گیا“۔ایک بیان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ“ میں نے سبیکا شیخ کے خاندان کو فون کیا اور ان سے دلی تعزیت کی۔ ایکسچینج اسٹوڈنٹ کے طور پر سبیکا ایک نوجوان سفیر تھیں، ہمارے لوگوں اور ثقافتوں کے درمیان ایک پل۔ پاکستان میں موجود ہم تمام امریکی مشن کے لوگوں شدید دکھی ہیں اور اس نقصان پر افسردہ ہیں“۔
سبیکا کی والدہ فرح شیخ نے اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ”کراچی پبلک سکول کی طالبہ ہوتے ہوئے اس کو بہت لوگ باہر پڑھنے کا کہتے تھے۔میری بیٹی بالکل آخری مراحل میں جا کر اس سکالرشپ کے لیے منتخب ہوئی تھی کیونکہ فارم جمع کرنے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع ہوئی تھی۔ اس کے پاکستان آنے میں صرف 20 دن رہ گیے تھے۔ مجھے روز بتاتی تھی کہ مما آج 45 دن رہ گئے ہیں، پھر 35 دن رہ گئے ہیں، ابھی پرسوں ہی اس نے مجھے فون پر بتایا کہ مما اب صرف 19 دن رہ گئے ہیں اور پھر میں واپس آجاؤں گی، اپنی مرضی کے کھانے بتاتی رہتی تھی کہ مما میرے لیے افطاری میں یہ کھانا بنائیے گا۔ یہ واقع تو ہم سب کے لیے ایک سانحہ بن کر رہ گیا ہے، میری بیٹی اب واپس نہیں آئے گی“۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 31 مئی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023