Resignation of MQM

استعفا کی تیز چُھری

ہر شئے کا ایک بنیادی وصف یا خوبی ہوتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں کو اُس شئے کے منفردو نمایاں ہونے کا احساس ہمہ وقت رہتا ہے۔ جیسے سورج کا وصف اُس کی روشنی میں پنہاں ہے،چانداپنی شبنمی چاندنی سے اپنے وجود کا پتا دیتا ہے۔ سمندر کی وسعت و گہرائی ہی اصل میں ایک سمندر کو سمندر بناتی ہے جبکہ پہاڑ کی اونچائی اور سختی اُس کے وجود کا بیان ہوا کرتی ہے۔ بالکل ایسے ہی ہم انسان بھی اپنا اپنا ایک منفرد وصف رکھتے ہیں۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ انسانوں کی بنائی ہوئی اشیاء بھی کسی نہ کسی خاص وصف کا شاہکار ہوا کرتی ہیں۔ حتی کے انسانوں کے ترتیب دیئے گئے گروہوں اور اِن کی بنائی گئی ہر سیاسی جماعت بھی اپنی ایک بنیادی خوبی اور پہچان ضرور رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہی اُس جماعت کی منفرد شناخت قائم رہتی ہے۔ مثلاً پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیادی شناخت اور وصف ”بھٹو فیکٹر“ ہے۔ جس کے بغیر پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست کو سمجھنا اور سمجھانا انتہائی مشکل ہے۔”بھٹو فیکٹر“پیپلزپارٹی کے لیئے اتنا ضروری عنصر اور اہم وصف ہے کہ ساری دنیا کو بھلے ہی معلوم ہو کہ جناب بلاول بھٹو زرداری،شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اُنہیں بھٹو کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ فقط اس لیئے لازمی جوڑنا پڑتا ہے کہ”بھٹو فیکٹر“ کے بغیر پاکستان پیپلزپارٹی کا پیغام گھر گھر تک پہنچایا ہی نہیں جاسکتا۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کا بنیادی وصف اور محور ”شریف خاندان“ ہے۔یعنی جب سے میاں محمد نواز شریف اِس جماعت کے سربراہ بنے ہیں اُس وقت سے لے کر آج تک یہ جماعت ”شریف خاندان“ کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکی۔ کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن کا سیاسی نظریہ شریف خاندان کے مفادات کا تحفظ کے یک نکاتی بنیادی اُصول کے گرد گھومتا ہے۔

عین اِسی اُصول کے مطابق ایم کیو ایم بھی بطور سیاسی جماعت اپنا ایک منفرد سیاسی وصف رکھتی ہے اور وہ وصف ہے ”استعفا“۔ اَب ایم کیوایم حقیقی ہو یا پاکستان لیکن پاکستانی سیاست میں اِس جماعت نے اپنے ہونے کا احساس جب بھی دلایا ہے ”استعفے“ سے ہی دلایا ہے۔ اپنے قیام کے روزِ اوّل سے ہی اِس جماعت نے ”استعفے“ کی سیاسی طاقت کو کچھ اِس عجیب و غریب ”سیاسی مہارت“ سے استعمال کیا ہے کہ ”استعفا“ دینا اِس جماعت اور اس جماعت کے قائدین کا بنیادی وصف بن کر رہ گیا ہے۔ اپنا کوئی مطالبہ منوانا ہو یا کسی حکومت کو اپنے قدموں پر جھکانا ہو یعنی اپنے ہر سیاسی مقصد کی برآوری کے لیئے ”استعفے“ کااستعمال اِس جماعت کے لیئے بالکل ایک جادوئی تعویز کی طرح کام کرتا ہے۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستانی سیاست جس میں استعفا لینے کے لیئے دھرنے دیئے جاتے ہیں، مظاہرے کیئے جاتے ہیں اور تحریکیں چلائی جاتیں اور پھر بھی کوئی استعفا دینے پر تیار نہیں ہوتا۔وہیں اسی کارزارِ سیاست میں ایم کیو ایم واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جو دوسروں کی مرضی کے برخلاف استعفا دے کر اپنے مرضی کے عین مطابق جتنے سیاسی کام چاہتی ہے نکلوا لیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے ایم کیوایم یا اس سے متعلق کسی سیاسی شخصیت نے جب بھی ”استعفا“ دیا ہے پاکستانی سیاست میں زلزلہ لازمی آیا ہے۔سیاسی زلزلہ بھی ایسا کہ بس رہے نام اللہ کا، اور جس کی شدت سے سوائے ایم کیوایم کے ہر کوئی لرزہ براندام ہوجاتاہے۔اور پھر بعدازاں حکومت واپوزیشن کے درمیان ایم کیوایم کو منانے کا زبردست مقابلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایک چاہتا ہے کہ استعفا واپس ہوجائے،دوسرا چاہتا ہے کہ استعفا واپس نہ ہو۔ بہر کیف ااِس سیاسی تگ و دو کا نتیجہ جو بھی آئے فائدہ میں ہمیشہ ایم کیوایم ہی رہتی ہے۔اب وہ چاہے ایم کیوایم متحدہ ہو، حقیقی ہو یا پھر پاکستان۔



ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی کا اپنی وفاقی وزارت سے دیا گیا حالیہ استعفا کو بھی ماضی میں ایم کیو ایم کی جانب سے دیئے گئے ”سیاسی استعفوں“ کا ایک تسلسل ہی سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ اِس استعفا کے بعد بھی حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے وہی پرانا سیاسی ڈرامہ،نئی کاسٹ کے ساتھ دوہرایا جارہاہے۔ یقینا اگر”سیاسی استعفا“کا یہ ڈرامہ پرانے اسکرپٹ کے مطابق ہے تو پھر اِس کا اختتام بھی پرانے ڈراموں جیسا ہی ہوگا اور کسی بھی وقت ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی کی جانب سے یہ اعلان کردیا جائے گا کہ انہوں نے کراچی کے وسیع تر مفادات اور اپنے کارکنوں کے پرزور اصرار پر وزارت سے استعفا واپس لے لیا ہے۔ بہر کیف اگر صورت حال اِس سے مختلف بھی رہے اور خالد مقبول صدیقی استعفا واپس نہ لینے کی ”سیاسی ضد“ پر قائم بھی رہیں۔ تب بھی استعفا واپس نہ لینے کا فائدہ ہرگز ہرگز اپوزیشن،پاکستان پیپلزپارٹی یا سندھ حکومت کو ہونے والا نہیں ہے۔کیونکہ ایم کیو ایم رہنماؤں کا استعفا ایک ایسی تیز دھار سیاسی چھری ہے جو چاہے حکومت کے خربوزے پر گرے یا اپوزیشن کا خربوزہ اِس پر آن گرے بہر حال نقصان ”سیاسی خربوزوں“ کاہی ہوگااور ”سیاسی چھری“ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بڑے گہرے فائدے میں رہے گی۔

خالد مقبول صدیقی کا استعفا اِس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے سیاسی اوسان آہستہ آہستہ بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں اور جماعت نے پرانی سیاسی ڈگر پر اپنے نئے سفر کا از سرِ نو آغاز کردیاہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اَب یہ سیاسی سفر اُس وقت تک تھمنے کا نہیں ہے،جب تک ایم کیوایم پاکستان ایک،دومزید اچھی سی وزارتیں مع سندھ کی گورنر شپ کے حاصل نہیں کر لیتی۔ فی الحال یہ چند چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں ہیں چاہے انہیں تحریک انصاف کی حکومت پورا کردے یا یہ”سیاسی مرادیں“ بلاول بھٹو زرداری بر لے آئیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کو تو فقط اقتدار کے میٹھے میٹھے آم کھانے سے مطلب ہے۔ اَب یہ آم تحریک انصاف کی حکومت اپنے”وفاقی پیٹر“سے توڑ کر دیتی ہے یا پھر سندھ حکومت اپنے ”صوبائی پیٹر“ سے توڑ کر اِن کی جھولی میں ڈالتی ہے۔ سیاسی معاملات کی اِس طرح کی جزیات سے ایم کیو ایم پاکستان کو قطعی کوئی سروکار نہیں ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 16 جنوری 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں