kemari-toxic-gas-incident

یہ “زہریلادھواں” سا کہاں سے اُٹھتا ہے

آفت عربی زبان کا لفظ ہے اور اِس کے معنی مصیبت،تکلیف اور پریشانی کے ہیں۔ آفت انفرادی ہو یا اجتماعی، قدرتی ہو یا خود ساختہ بہرحال اِس کا سامنا کرنا کسی بھی فردِ واحد یا قوم کے لیئے کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اجتماعی اور قدرتی آفات بہت خطرناک ہوا کرتی ہیں اور اِن کے نقصانات بھی بہت ہی مہلک ہوتے ہیں۔ مثال کے طو ر چین میں آج کل کوروناوائرس کی قدرتی آفت آئی ہوئی ہے اور چینی قوم انتہائی استقامت اور جواں مردی کے ساتھ تن تنہا بغیر کسی عالمی مدد و استعانت کے پوری جان فشانی کے ساتھ اُس سے نبرد آزما ہے۔ کورنا وائرس کی ہلاکت خیزی اپنی جگہ پر مگر چینی قوم جس طرح سے اِس قدرتی آفت کے سامنے عزم و ہمت کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کرکھڑی ہوئی ہے،اُس کی ستائش دنیا میں رہنے والا ہر فرد،بشر خوب دل کھول کر کر رہا ہے۔کیونکہ زندہ قومیں مشکل حالات اِسی طرح کے ذمہ دارانہ اجتماعی رویوں کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے قدرتی و ناگہانی آفات سے نبرد آزما ہونے کا ہمارا رویہ کبھی بھی قابلِ فخر اور قابلِ ستائش نہیں رہا۔ یہ ہی وجہ کہ ہمارے ملک میں کسی جگہ بس چھوٹی موٹی سی کوئی ناگہانی آفت آنے کی دیر ہوتی ہے کہ ہم وہ دھول دھپا اور شورو غل مچاتے ہیں کہ ایک دھان،پان سی قدرتی آفت کب ہمارے لیئے بلائے جان بن جاتی ہے ہمیں کچھ پتا ہی نہیں لگتا۔ ہماری آنکھیں تو اُس وقت تک کسی آفت کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہوتیں جب تک کہ اُس آفت کے ہاتھوں ایک درجن سے زائد معصوم اور قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہوجائے۔

بدقسمتی کی با ت ہے کہ اِس بار بھی ویسا ہی ہوا جیسا ہم پاکستانیوں کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس کے دھواں کی ناگہانی آفت کا اُس وقت تک ہمارے حکومتی ادارے ادرک ہی نہ کرسکے جب تک کہ زہریلی گیس سے 14 معصوم افراد لقمہ اجل نہ بن گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں مرد،عورت،بوڑھے، جوان،بچے اِس زہریلی آفت سے متاثر نہ ہوگئے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باجود بھی ابھی تک یہ نہیں معلوم کیا جاسکا کہ کیماڑی اور اُس کے ملحقہ علاقوں میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ زہریلی گیس، جوکئی دنوں سے کراچی کی فضاؤں میں خاموشی سے گردش کررہی تھی اور ماحولیاتی یا موسمیاتی ادارے کے کراچی میں جگہ جگہ نصب جدید سائنسی آلات فضائی زہر کو شناخت کرنے سے کیونکر قاصر رہے۔لطیفہ تو یہ ہے کہ ایک درجن سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہونے کے باوجود بھی ابھی تک حکومتی ادارے متفق نہیں ہو پارہے کہ کیماڑی کے گرد و نواح میں ہونے والی ہلاکتیں بندر گاہ پر لنگر انداز ایک امریکی بحری جہاز میں موجود سویا بین کی آف لوڈنگ کے نتیجے میں زہریلی گیس کے اخراج سے ہی ہوئی ہیں یا کسی اور وجہ سے؟کیونکہ جامعہ کراچی کے تحقیقاتی ادارہ ایچ ای جے کی رپورٹ نے کیماڑی میں مقیم افراد کے گیس سے متاثر ہونے کا امکان یکسر رد کردیا ہے۔حالانکہ اِس سے پہلے معروف سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمٰن میڈیا کو بتا چکے تھے کہ14 معصوم لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنے والی زہریلی گیس سویا بین کے ذرات سے پھیلی، جس کا محرک کراچی کے قریب بندرگاہ پر کھڑے ہونے والے بحری جہاز سے سویابین کی ہونے والی آف لوڈنگ تھی۔



واضح رہے کہ زہریلی گیس سے کراچی میں کیماڑی، ریلوے کالونی، جیکسن مارکیٹ، مسان چوک اور ٹاورسمیت کئی علاقے متاثر ہوئے جہاں کے مکینوں میں ابھی تک خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور بچے، بوڑھے، جوان عورتیں سب زہریلی گیس کے اثرات سے بچنے کے لیئے ماسک لگاکر رہنے پر مجبور ہیں، جبکہ کلفٹن، ڈیفنس،باتھ آئی لینڈ میں ناگوار بدبو پھیلنے پر اسکولوں میں چھٹی کر دی گئی، زہریلی گیس کے خوف سے ٹاورکے علاقے میں دکانیں بند ہیں۔ اس کے علاوہ دفاترا ور فیکٹریوں میں حاضری معمول سے کم اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں اور زہریلی گیس کے خوف کے باعث شہریوں نے اپنی اہم تقریبات ملتوی کردی ہیں جبکہ بعض علاقوں سے نقل مکانی بھی شروع ہوگئی ہے۔محکمہ صحت سندھ کے فوکل پرسن ڈاکٹر ظفر مہدی کے مطابق کیماڑی سانحہ سے 9افراد ضیاء الدین، 2سول اسپتال کراچی، 2کتیانہ میمن اسپتال جبکہ ایک مریض برہانی اسپتال میں جاں بحق ہوا۔سب سے زیادہ 345 مریض ضیاء الدین اسپتال کیماڑی میں لائے گئے۔ ضیاء الدین اسپتال کے ترجمان کے مطابق متاثرہ افراد میں اسپتال کا عملہ بھی شامل تھا۔ان تمام افراد کو طبی امداد دی گئی اور روبہ صحت ہونے پر گھر روانہ کر دیا گیا۔ڈاکٹر ظفر مہدی کے مطابق سانحہ کیماڑی سے جناح اسپتال کراچی میں 33، سول اسپتال کراچی میں 30، برہانی اسپتال میں 10جبکہ کتیانہ میمن اسپتال میں 10افراد کو لایا گیا جنہیں روبہ صحت ہونے پر گھر روانہ کر دیا گیا تاہم 10افراد تاحال ضیاء الدین اسپتال میں داخل ہیں۔ دوسری جانب جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا ہے کہ گزشتہ روز کیماڑی اور اطراف کے علاقوں میں گیس سے متاثر تقریباً 500 افراد کو اسپتال لایا گیا۔

یادش بخیر! کہ اس زہریلی گیس کا جانوروں پر کوئی اثر نہیں ہوا اور گیس سے متاثرہ علاقوں میں دُکانداروں نے ماسک کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کردیا ہے پانچ روپے والا ماسک 50روپے میں بیچا جارہا ہے، جبکہ زہریلی گیس سے متاثرہ علاقوں کی دُکانوں اور میڈیکل اسٹور پر ماسک کی قلت بھی بڑھ گئی ہے۔کسی بھی ناگہانی اور قدرتی آفت سے مقابلہ کرنے کا یہ ہمارا سب سے معروف اور پسندیدہ طریقہ ہے۔ یعنی ایک طرف معصوم لوگ زہریلی گیس سے جان بلب ہیں اور دوسری جانب کچھ لوگ علاج اور احتیاط کے نام پر اپنی اپنی تجوریاں بھرنے کے نت نئے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ہاتھ بھی اپنی اپنی سیاست چمکانے کا سنہری ایشو آگیا ہے۔ کراچی کا ایک رہنما آواز لگا رہا ہے شہر کو آفت زدہ قرار دے دیا جائے اور کراچی کا دوسرا والی وارث مطالبہ کررہا ہے کہ زہریلی گیس کے اثرات و عواقب پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی جائے۔جبکہ سندھ حکومت کے کرتا دھرتا دہائی دے رہے ہیں کہ زہریلی گیس سے ہونے والے جانی نقصان پر ہم سے سوال و جواب سے اجتناب برتا جائے کیونکہ قدرتی آفت سندھ حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ قدرتی آفت کے مقابل ہمارا اجتماعی رویہ زہریلی گیس سے بھی زیادہ زہریلا ثابت ہورہا ہے۔ کیا کبھی اِس خود ساختہ قومی آفت کا بھی کوئی علاج ممکن ہوسکے گا؟۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 24 فروری 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں