اب تک ہونے والی تحقیقات کی روشنی میں کسی کو ذرا برابر بھی شک نہیں رہا کہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والا دہشت گردوں کا حملہ ملک دشمن طاقتوں کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔جسے پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے اپنی زبردست مزاحمت سے ناکامی سے دوچار کردیا۔دہشت گردوں کی مذموم کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی کئی معصوم جانوں کے ضیاع پر پوری قوم کبیدہ خاطر ہے مگر یہ نقصان اُس متوقع نقصان کے مقابلے میں ہزار گنا کم ہے جودہشت گردوں کے چینی قونصلیٹ میں ممکنہ رسائی کی صورت میں ہوسکتاتھا۔ایف سی،رینجرز،پولیس اور پرائیوٹ سیکورٹی گارڈ نے مشترکہ طور جس بے خوفی اور چابک دستی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا وہ لائقِ تحسین ہے۔جس پر پوری پاکستان قوم ہمیشہ اپنے جاں بازوں کی احسان مند رہے گی بالخصوص اُن شہدا کی جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مادرِ وطن کی عزت و عصمت کے کامیاب دفاع کو یقینی بنایا۔کراچی حملہ کے آخری نتیجہ نے کراچی پولیس کے بارے میں بھی مجموعی طور پر ایک اچھا تاثر پیش کیا اورچینی قونصلیٹ کے دفاع میں کراچی پولیس کی شاندار کارکردگی نے سب کو حیران کردیا۔ پاکستانی فوج کی جانب سے پولیس کو اپنے قدموں میں کھڑے کرنے کی جن پیشہ ورانہ کوششوں کا آغاز چند برس قبل کیا گیا تھا،آج اُن کے دوررس اور خوشگوار اثرات واضح طورپر سب کے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ 35 برسوں میں کراچی پولیس نے بہت ہی بُرے اور نامساعد حالات کا سامنا کیاہے۔اگرگزری دہائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ کراچی میں ماضی کی لسانی سیاست نے سب سے زیادہ نقصان کراچی پولیس کو پہنچایا۔ گزشتہ مختلف ادوار میں جس طرح کراچی پولیس کے قابل اور بہادر افسروں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اُتارا گیا اُسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔کراچی پولیس جو کبھی پاکستان کی سب سے بہترین پولیس فور س خیال کی جاتی تھی اس پر ایک وقت ایسا بھی گزرا جب اس کے لیئے کراچی کی گلیوں میں آزادانہ گشت کرنا بھی مشکل بنادیا گیا تھا۔کون نہیں جانتا کہ صرف چند سال پہلے تک کراچی شہر کے اکثر علاقے کراچی پولیس کے لیئے باقاعدہ نوگو ایریا بنے ہوئے تھے۔ان علاقوں میں دہشت،طاقت اور امارت کی علامت مسلح افراد یا گروہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے اور اپنے اپنے زیر اثر علاقوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ گویا اسلحہ، پیسہ اور اختیارات ان کے گھر کی لونڈی تھے۔ طرفہ تماشہ تو یہ تھا کہ ملک اور صوبے کے قانونی حکمران خود چل کر ان کی ضروریات پوری کرنے،خیر خیریت پوچھنے، ان کےNO GO AREA پر مودبانہ حاضری دیتے تھے اوران ظالموں سے ان کے ظلم پر کسی قسم کی باز پرس کرنے کے بجائے خود ان سے سیاسی ا مداد کے طلبگار ہوتے تھے۔مقام ِ افسوس تو یہ تھا کہ کبھی کبھار تو ان نو گو ایریاز میں راج کرنے والوں کی فرمائش پر ان کے پروٹو کول کے لیئے پولیس کو بھی تعینات کردیا جاتا تھا۔ یہ وقت کراچی پولیس کے لیئے ایک تاریک ترین دور تھا۔پولیس فورس کے مورال کا یہ عالم تھا کہ اس اہم ترین ادارے میں کام کرنے والوں نے یہ سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا کہ اُن کا پرانا سنہرا دور بھی کبھی واپس آسکتاہے۔ایسے مشکل وقت میں پاک فوج نے کراچی پولیس کواپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا بیڑہ اُٹھایا اور چند سالوں کی محنت کے بعد آخر وہ معجزہ کر کے دکھاہی دیا۔جس کی مجھ سمیت شاید ہی کسی نے کبھی اُمید کی ہوگی۔
ہم سب کے لیئے مقامِ شکر ہے کہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کراچی پولیس، ملک کے دیگر سیکورٹی اداروں کے ہمراہ ایک متحرک اور فعال کردار ادا کررہی ہے اورلگ یہ رہا کہ بہت جلد کراچی پولیس کا وہی پرانا سنہری دور ایک بار پھر سے واپس آنے والا ہے۔ مگر اس کے لیئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔خاص طور پر کراچی پولیس کو وی وی آئی پی پروٹو کول کی لایعنی ڈیوٹیوں سے علحیدہ کرنا ہوگا کیونکہ کراچی میں اتنے وی وی آئی پی رہتے ہیں کہ پولیس فورس کا آدھا سا زیادہ وقت تو پروٹوکول ڈیوٹیوں کو مانیٹر کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔جبکہ ابھی تک سندھ پولیس کو پوری طرح سیاسی دباؤ سے بھی نہیں نکالا جاسکا جس کی وجہ سے میرٹ کے خلاف اور ذاتی پسندو ناپسند کے تحت ہونے والے تقرر و تبادلے قابل پولیس افسران کے لیئے حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔اربابِ اختیار کو اس طرف بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نیز پولیس کو جدید اسلحہ و دیگر سہولیات سے لیس کرنے سے بھی اس کی استعداد کار میں میں زبردست اضافہ ممکن ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی پولیس آئندہ بھی ایسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ جاری رکھے۔جس قسم کی بے مثال بہادری کا مظاہرہ اُس کے سپاہیوں اور افسروں نے چینی قونصلیٹ کے دفاع میں دکھایا۔ویسے بھی دنیا بھر میں یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اگر سول سیکورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف بہتر طور پر اور بروقت مزاحمت کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف عام شہریوں کوتحفظ کا احساس ہوتا ہے بلکہ امن دشمن قوتوں کو بھی شدید نفسیاتی کمزوری اور بے چارگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو چھپے دشمن کوزیادہ سے زیادہ غلطیاں کرنے پر مجبور کرتی ہے اور آخر کاریہ ہی غلطیاں اس کے لیئے ابدی ہلاکت کاباعث بن جاتی ہیں۔اس لیئے کہا جاسکتاہے کہ دہشت گردی کے عفریت پر مکمل طور پر فتح یاب ہونے کے لیئے ہمیں ایک قابل پولیس فورس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 06 دسمبر 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023