پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیپلزپارٹی کا پہلا میئر منتخب ہونا ملکی سیاست کی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ یا د رہے غیر معمولی اور تاریخی فتوحات کی خوشیاں اور صدمات بھی بہت بڑے ہوتے ہیں۔جہاں ایک جانب آپ مرتضیٰ وہاب کے کراچی میں پیپلزپارٹی کے پہلے میئر کے طور پر انتخاب کے بعد فتح مندی کی روپہلی جھلک پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان کے تمتاتے چہروں پر صاف دیکھ سکتے ہیں۔ تو وہیں دوسری طرف شکست کے لہراتے ہوئے مہیب سائے واضح طور پر پیپلزپارٹی کے سیاسی مخالفین کے مایوس چہروں پر ملاحظہ کیئے جا سکتے ہیں۔ ویسے تو زندگی میں فتح و شکست مقد ر کی ہی بات ہوتی ہے، مگر پھر بھی واقفان ِ سیاست کا قول ہے کہ جیسے جنگ و جدل میں فاتح و مفتوح کا تعین کرنے میں نت نئے، مہلک ہتھیار کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔بالکل ویسے ہی سیاست میں کامیابی و ناکامیابی کے فیصلے اکثر سیاسی چالوں اور درست حکمت عملی کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔
مرتضیٰ وہاب کے کراچی میں پیپلزپارٹی کے پہلے میئر منتخب ہونے اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کے ہارنے کے بعد ملکی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر دو طرح کی آراء یا نقطہ نظر اپنے اپنے انداز میں پیش کیئے جارہے ہیں۔ پہلے مکتبہ فکر جن میں جماعت اسلامی کے متعلقین،پاکستان تحریک انصاف کے ہمدرد اور پیپلزپارٹی کے جملہ سیاسی مخالفین شامل ہیں،اُن کے رائے میں میئر کراچی کے انتخاب میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کر کے حافظ نعیم الرحمن کی یقینی جیت کو زبردستی کی ہار کے ساتھ بدلا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے طبقہ فکر یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں کے خیال میں کراچی کی عوام نے ہمیں واضح انتخابی مینڈیٹ سے نواز کر میئر شپ کے منصب کا حق دار قرار دیا ہے۔ یہاں مذکورہ بالا دونوں رائے سے جزوی اختلاف کے ساتھ میری ایک تیسری رائے ہے اور وہ یہ ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے بائیکاٹ کے بعد کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جیت کا تمام تر،انحصار عوامی مینڈیٹ سے کہیں زیادہ سیاسی کاری گری اور جوڑ توڑ کی سیاست پر ہوگیا تھا۔ لہٰذا، پیپلزپارٹی جسے ہمیشہ سے ہی سیاسی جوڑ توڑ کرنے میں مہارت حاصل رہی ہے،وہ باآسانی میئر کراچی کے عہدہ پر مرتضیٰ وہاب کو منتخب کروانے میں کامیاب رہی۔جبکہ حافظ نعیم الرحمن کا سارا تکیہ،چونکہ صرف پاکستا ن تحریک انصاف کی ممکنہ حمایت پر دھرا تھا۔ لہٰذا وہ میئر کے انتخاب سے دو روز قبل ہی پی ٹی آئی ارکان کی سیاسی دغابازی کا آسان شکار ہوگئے۔
واضح رہے کہ میئر کراچی کا انتخاب ہونے سے قبل پیپلزپاٹی 155 کے ساتھ اکثریتی جماعت تھی، جبکہ جماعت اسلامی 130 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت تھی۔ یہ باریک سا فرق سب سے پہلے بتانا اِس لیئے بہت ضرور ی ہے کہ سوشل میڈیا پر منظم انداز میں یہ منفی پروپیگنڈا کیا جارہاہے کہ میئر کراچی کے انتخاب میں اکثریتی جماعت کے مقابلے میں ایک اقلیتی جماعت کو دھاندلی کرکے زبردستی جتوایا گیا ہے،بالکل ویسے ہی جیسے 1971 کے قومی انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریتی جماعت کو ہرایا گیا تھا۔یہ موازنہ سراسر جھوٹ اور کذب بیانی پر مبنی ہے۔ جب کہ حقیقت ِ احوال یہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کے پاس میئر کراچی کے لیئے واضح اکثریت تو بہت دور کی بات ہے،سادہ اکثریت بھی کبھی نہیں تھی۔نیز اُ ن کے پاس پاکستان پیپلزپاٹی کی کُل حاصل کردہ نشستوں سے 25 نشستیں کم تھیں۔ جبکہ جن 63 نشستوں کو ملاکر سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کے 193 اراکین کا نمبر گیم ہونے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہاہے، وہ پاکستان تحریک انصاف کی نشستیں تھیں،ناکہ جماعت اسلامی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے 32 اراکین کے فارورڈ بلاک نے میئر کراچی کے انتخاب سے دو روز قبل ہی پریس کانفرنس میں اعلان کردیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں حافظ نعیم الرحمن کو ووٹ نہیں دیں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے مرتضیٰ وہاب کو میئر کراچی منتخب کروانے کے لیئے زیادہ جدوجہد، تردد اور بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑی۔بس! پیپلزپارٹی نے پاکستان تحریک انصاف کے 32 اراکین کو سیاسی وعدے اور چند انتظامی مناصب سے لبھانے کی ایک کوشش کی اور پاکستان تحریک انصاف کے کبھی نہ بکنے والے اور کسی کے بھی سامنے کبھی نہ جھکنے والے اراکین نے پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک بہت اچھی سیاسی ڈیل فائنل کرلی۔ سیاست خاص طور پر مقامی حلقہ کی سیاست سراسر مفادات کا کھیل ہے اورسیاست کے اِس کھیل میں مخالفین کے ساتھ اچھا سودا طے کرنے کے لیئے پیپلزپارٹی کے پاس دینے کے لیئے بہت کچھ تھا۔لہٰذا، پاکستان تحریک انصاف کے 32 منحرف اراکین کو اپنی جانب کرکے مرتضیٰ وہاب کو میئر کراچی منتخب کروالیا گیا۔ ایک لمحے کے لیئے سوچئے! کہ اگر جماعت اسلامی کے پاس بھی مخالفین کو دینے کے لیئے مفادات کی صورت میں بہت کچھ ہوتاتو کیا وہ یہ ڈیل نہ کرتی؟۔میرے خیال میں بالکل کرتی،بلکہ صرف جماعت اسلامی پر ہی کیا موقوف ہے کوئی اور سیاسی جماعت بھی ہوتی تو وہ بھی یہ موقع اپنے ہاتھ سے کبھی ضائع نہ جانے دیتی۔
دراصل کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بات اور بالکل نئی اور پہلی بار ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایم کیوایم کے انتخابی بائیکاٹ کے باوجود جماعت اسلامی کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں بُری طرح سے ناکام رہی۔ وگرنہ کراچی کی انتخابی سیاست کی تاریخ میں جب بھی ایم کیوایم نے انتخابی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو اُس انتخاب کے نتیجہ میں ہمیشہ جماعت اسلامی واضح اکثریتی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھرنے میں کامیاب رہی۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے کراچی میں پچھلے دو میئر بھی ایم کیوایم کے انتخابی بائیکاٹ کے نتیجے میں ہی بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔
مگر اِس بار کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی غیر متوقع طور پر 155 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی،جبکہ جماعت اسلامی کو بمشکل 130 نشستیں مل سکیں۔ یاد رہے کہ پیپلزپارٹی کی 155 نشستیں صرف اور صرف انتخابی دھاندلی کا ثمر نہیں ہیں۔ بلکہ کراچی شہر میں اتنا بڑا نمبر حاصل کرنے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی مفاہمتی سیاست کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے دیگر چھ شہری علاقوں حیدرآباد، نواب شاہ، میرپورخاص،سکھراور لاڑکانہ میں بھی پہلی بار، پاکستان پیپلزپارٹی کے میئر اور ڈپنی میئر منتخب ہو جانا ہے اور سب سے زیادہ حیران کن اور اچھی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے مذکورہ تمام میئر اور ڈپٹی میئر طاقت ور شہری شناخت کے حامل ہیں۔ یعنی اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ سندھ کا شہری طبقہ بھی پیپلزپارٹی کے پرچم تلے سیاست کرنے کی جانب بڑی تیزی کے ساتھ مائل ہورہاہے اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی اُنہیں حصہ بقدر جثہ کے سنہری اُصول کے تحت اپنی اگلی صفوں میں نمایاں مقام دے رہی ہے۔ بہرکیف اُمید یہ ہی ہے کہ دیہی اور شہری سندھ کا ایک دوسرے کے قریب آناصوبہ میں سیاسی رواداری کی سمت انتہائی مثبت اور بھرپور آغاز ہے۔
حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 19 جون 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023