karachi-lovers-where-are-gone

کراچی کے اپنے

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ”وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے“۔ مگر یہ آدھا سچ ہے،پوری سچائی تو یہ ہے کہ کراچی میں حکمرانی کرنے والے کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی رہنما نے کراچی کو اپنا سمجھاہی کب ہے؟۔ وزیراعلی سندھ تو خیر سے کراچی کو اس لیئے اپنا نہیں سمجھتے کہ کراچی سے انہیں اور ان کی جماعت کو ووٹ ہی نہیں ملتے۔لہٰذا وزیراعلی سندھ کی جانب کراچی کے ساتھ روا رکھے جانے والا ”سیاسی برتاؤ“ کا غیر منصفانہ رویہ سمجھ میں بھی آتا ہے اور اس جانب دارنہ انتظامی سلوک پر شکوہ بھی نہیں بنتا۔ ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے اہلیانِ کراچی کو ”سیاسی خیر“ کی کبھی کوئی خاص اُمید رہی بھی نہیں ہے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں کراچی نے گزشتہ قومی انتخابات میں ووٹ دے کر منتخب کروایا اور ایوانِ بالا اور ایونِ زیریں تک پہنچایا،کیا وہ کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں؟۔ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر اسد عمر اور ان کی جماعت کراچی کو واقعی اپنا سمجھ لیں تو پھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا سمجھیں یا نہ سمجھیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ کراچی کو تعمیر کرنے،اس کے مکینوں کو آباد اور شاد رکھنے کے بے شمار ایسے انتظامی راستے وفاقی حکومت کو مہیا ہیں،جن راستوں پر سندھ حکومت کا اسپیڈ بریکر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بس! ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ آیا تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کراچی کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لیئے اُن راستوں پر چلنا بھی چاہتی ہے یا نہیں؟۔

یاد رہے کہ اسد عمر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ہیں لیکن محسوس ایسا ہوتا کہ جیسے کہیں دو ر،دور تک بھی ان کی منصوبہ بندی میں کراچی کے مسائل کو حل کرنا شامل ہی نہیں ہے۔ جس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ ہر دو، چار ہفتوں کے بعد موصوف کراچی میں تشریف لاتے ہیں اور یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ”وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے“۔ارے بھئی!اہلیانِ کراچی کو بار بار یہ مت بتائیں کہ کراچی کو کون اپنا سمجھتا ہے اور کون نہیں۔اگر کچھ ثابت ہی کرنا ہے تو چند ایسے کام ضرور کرگزریں، جن سے یہ یقین ہوسکے کہ کم ازکم آپ تو کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لئے انتظامی اپنے پن کا مظاہرہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی نے اگر تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ووٹ دیئے تھے تو صر ف اس لیئے کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی ”کراچی کش“ سیاسی پالیسی سے بیزار آئے ہوئے تھے اور انہیں قوی اُمید تھی کہ عمران خان گزشتہ چالیس برسوں میں کراچی پر لگائے گئے سیاسی زخموں کا مداوا ضرور فرمائیں گے۔لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ اسد عمرپچھلے دو برسوں سے مسلسل یہ”سیاسی راگ“ تو ضرور الاپ رہے ہیں کہ سندھ حکومت کراچی کے ساتھ سیاسی و انتظامی زیادتی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب شہر کراچی کو سیاسی و انتظامی طور پر چھوڑا ہو ا بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے رحم و کرم پر ہی ہے۔ یعنی پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کراچی کے ساتھ ہونے والی ہر سیاسی و انتظامی زخم کا علاج فقط ”منہ زبانی“کرنا چاہتے ہیں۔تحریک انصاف کے رہنماؤں نے جتنا زیادہ وقت کراچی پر بیانات دینے میں ضائع کیا ہے اگر اس سے آدھا وقت بھی وہ ”سیاسی اخلاص“ کے ساتھ کراچی کے مسائل کرنے میں لگاتے تو اَب تک شہر کے آدھے مسائل مکمل طور پر نہ سہی تو کم ازکم جزوی طور پر تو ضرور حل ہی ہوجانے تھے۔

درحقیقت اہلیان ِ کراچی کو اسد عمر سے کچھ زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ کراچی کونسا اُن کا حلقہ انتخاب ہے۔ مقامِ افسوس تو یہ ہے کراچی جس کا حلقہ انتخاب ہے،ا ُسے بھی اس شہر کی بدحالی کی کوئی خاص فکر اور پرواہ نہیں ہے۔ جی ہاں! آپ درست سمجھے ہماری مراد صدر مملکت پاکستان جناب عارف علوی سے ہے۔یاد رہے کہ یہ تحریک انصاف کراچی کے وہی متحرک،ولولہ انگیز اور انقلابی رہنما ہیں جن کا ایک زمانہ میں دعوی ہوا کرتا تھا کہ”وہ تو سیاست میں آئے ہی فقط کراچی کے حالات کو بدلنے کے لیئے ہیں“۔مگر صدر مملکت بننے کے بعد جس بے رخی اور تیزرفتاری سے انہوں نے خود کو بدل کر کراچی سے نگاہیں پھیری ہیں،ایسی ”سیاسی اجنبیت“ کا مظاہر ہ تو سابق صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے بھی نہیں کیا تھا۔اگر چاہتے تو عارف علوی بطور صدر مملکت اپنے شہر کراچی کی سیاسی و انتظامی بہتری کے لیئے بہت کچھ کرسکتے تھے،لیکن انہیں بھی اسلام آباد کی ”سیاسی فضا“ایسی راس آئی کہ شاید اَب انہیں یاد بھی نہ رہا ہو کہ وہ ایوانِ صدر میں جن بے خانماں لوگوں کے ووٹوں کے بل بوتے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ بدنصیب افراد کراچی میں کبھی بارش کے پانی میں ڈوبوئے جارہے ہیں اور کبھی سیاسی تعصب کی چکی میں بے رحمی کے ساتھ پیسے جارہے ہیں۔جبکہ اُن کا سیاسی رہنما عارف علوی، صدر مملکت کا چولا پہن کر اسلام آباد میں سکھ چین کی بانسری بجارہاہے۔

شاید کراچی کی سیاسی فضا ہی میں بدنصیبی کی آمیزش حد سے زیادہ شامل ہوئی ہوئی ہے،جب ہی تو اہلیانِ کراچی کو کبھی الطاف سے لطف وکرم نہیں ملتا، ممنون حسین سے”سیاسی ممنونیت“ نہیں ملتی،عارف علوی سے ”انتظامی معرفت“ دستیاب نہیں ہوتی اور مرادعلی شاہ سے وابستہ کوئی ”مراد“پوری نہیں ہو پاتی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ کراچی سب کا ہے،مگر کراچی کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔کراچی سب کے مسائل حل کرتا ہے لیکن کراچی کے مسائل کوئی حل نہیں کرنا چاہتا۔ کراچی سب کے بارے میں سوچتا ہے مگر کراچی کے متعلق سوچنے کی کسی کے پاس بھی فرصت نہیں ہے۔کراچی شہر کے تما م نام نہاد”اپنے رہنما“ صرف اُس وقت تک کراچی کے ساتھ ”سیاسی اپنائیت“ کا اظہار کرتے ہیں جب تک کہ کراچی اُنہیں کسی بلند و بالاتر سیاسی و انتظامی مقام پر نہیں پہنچادیتا۔ پھراُس کے بعد کراچی کے سارے اپنے ”سپنے“ ہوجاتے ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر  04 فروری 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں