Justin Traudu Winer

جسٹن ٹروڈو کی جیت یا مودی سرکار کی ہار؟

کنیڈا کے حالیہ انتخابات میں ایک بار پھر سے جسٹن ٹروڈوکی جماعت لبرل پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یعنی اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو مسلسل دوسری بار کنیڈا کے وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ میں جسٹن ٹروڈو کی اِس جیت کو ایک مشکل ترین اور غیرمعمولی انتخابی فتح کے طور پرپیش کیا جارہاہے کیونکہ کنیڈا کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی بار ہورہا تھا کہ جب کئی بیرونی ممالک خاص طور پر امریکہ اور بھارت جسٹن ٹروڈو کو ہرانے کے لیئے مختلف حیلے بہانوں سے انتخابات میں براہ راست مداخلت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اپنے مذموم مقصد کے حصول کے لیئے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے سی آئی اے سے ساز باز کرکے جسٹن ٹروڈو کی کردار کشی کرنے کے لیئے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم بھی چلائی تھی۔کردار کشی کی اِس مہم کو انتخابات میں جسٹن ٹروڈو کے لیئے ایک چیلنج کہا جارہا تھا اور ہوا بھی ایسا ہی یعنی اس مہم کی وجہ سے ٹروڈو کی جماعت کو گزشتہ الیکشن میں جیتی گئیں اپنی کئی نشستوں پر ہا ر کا مزاچکھنا پڑا لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ جسٹن ٹروڈو بمشکل ہی سہی بہرحال حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ انتخابی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔

اَ ب آپ سوچ رہے ہوں گے بھارت کیوں چاہتا تھا کہ جسٹن ٹروڈوانتخابات میں شکست سے دوچار ہوجائیں تو عرض یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو کو بھارت کی برسرِ اقتدار جماعت بی جے پی انتہائی ناپسندیدہ شخصیت سمجھتی ہے۔ بھارت میں ہندو توا کے پرچارک سوچتے ہیں کہ جسٹن ٹروڈو خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کے زبردست حامی ہیں اور سکھوں کو کنیڈا میں ایک بڑی سیاسی قوت بنانے میں بھی جسٹن ٹروڈو کا ہی سب بڑا کردار ہے۔ دلیل کے طور پر اُن کا ایک بیان بھی اکثر بھارت ذرائع ابلاغ پر بار بار دہرایا جاتا ہے۔جسٹن ٹروڈو نے 2015 میں کنیڈا کے ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”انہوں نے اپنی کابینہ میں جتنی تعداد میں سکھوں کو جگہ دی ہوئی ہے،اتنی جگہ تو سکھوں کو ہندوستان کی کابینہ میں بھی حاصل نہیں ہے“۔جسٹن ٹروڈو کے اِس بیان کی سچائی کا اندازہ کنیڈین حکومت کی جانب جاری کردہ سالانہ پارلیمانی رپورٹ میں پیش کیئے گئے جائزہ سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ 2015 میں ہندوستانی نژاد 19 افراد کو کنیڈا کے ہاؤس آف کامنز میں منتخب کیا گیا تھا۔اِن میں 17 کا تعلق جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی سے تھا اور یہ سب کے سب سکھ تھے۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ جسٹن ٹرڈو نے جب اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی تھی تو اِس میں چار سکھ وزراء کو بھی شامل کیا گیا تھا،جس میں ایک وزیر ہرجیت سجن کو تو وزارتِ دفاع جیسی اہم ترین وزارت سونپ دی گئی تھی۔



بھارتی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ جب سے کنیڈا میں جسٹن ٹروڈو برسرِ اقتدار آئے ہیں،تب سے بھارت میں چلنے والی خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک میں تیزی آئی ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب فروری 2019 میں کنیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اپنے سات روزہ سرکاری دورے پر بھارت گئے تھے تو نریندر مودی کی حکومت نے انہیں نظر انداز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور جب مسٹر ٹروڈو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ دہلی ائیرپورٹ پر پہنچے تو انہیں ایک جونیئر وزیر کے ذریعے خوش آمدید کہا گیا اور جب جسٹن ٹردوڈو تاج محل کی سیاحت کے لیئے آگرہ پہنچے تو ان کے پروٹوکول کے لیئے ایک مجسٹریٹ کو تعینات کیا گیا۔کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیئے ایسے بدترین سرکاری پروٹوکول کی شاید ہی کوئی دوسری مثال پیش کی جاسکے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کی طرف سے روا رکھے جانے والے اِس امتیازی سفارتی سلوک کو بین الاقوامی میڈیا نے اپنی شہ سرخیوں میں نمایاں جگہ بھی دی، جس سے دنیا بھر میں مودی سرکار کی زبردست جگ ہنسائی بھی ہوئی تھی۔اَب آ پ خود ہی سوچ لیں ایک ایسی بین الاقوامی سیاسی شخصیت جس سے بھارتی حکومت آخری درجہ کا بغض و عناد رکھتی ہو،جب آئندہ ہفتے وہی جسٹن ٹروڈو ایک بار پھر سے کنیڈا کے وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھائیں گے تو بھارت بھر کے میڈیا میں کیا قیامت خیز کہرام برپا ہوگا۔

کنیڈا میں منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات میں جسٹن ٹروڈو کے علاوہ ایک اور بھی ضرب نریندر مودی کی سرکار کو لگی ہے اور اُس کاری ضرب کا نام ہے نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے جگمیت سنگھ۔ جن کی جیتی ہوئی 24 نشستیں کنیڈا میں حکومت بنانے کے لیئے سب سے فیصلہ کن کردار کی حامل ہوگئی ہیں۔ یعنی کنیڈا کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ سکھوں کو اپنے ہمراہ شامل کیئے بغیر حکومت بنانے کا اِمکان کسی بھی جماعت کے لیئے بالکل صفر ہو کر رہ گیا ہو۔یاد رہے کہ جگمیت سنگھ کا شمار بھی اُن سکھ رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہیں بھارتی سرکار سخت ناپسند کرتی ہے اور اُن کے بارے میں بھارت کے میڈیا میں یہ پروپیگنڈا وقتا فوقتا کیا جاتا رہتا ہے کہ جگمیت سنگھ علیحدگی پسند خالصتان تحریک کے سب سے سرگرم حمایتی ہیں۔اِس بناء پر بھارت سرکارنے ایک مدت سے جگمیت سنگھ کے بھارت داخلے پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔جسٹن ٹروڈو اور جگمیت سنگھ کا ایک بار پھر سے کنیڈا کے سیاسی اُفق پر طاقتور حیثیت میں سامنے آنے پر دہلی کی فضاؤں پر افسردگی نے ڈیرے ڈال لیئے ہیں اور بھارت میں تجزیہ کار وں نے اندیشے ظاہر کرنا شروع کردیئے ہیں کہ اِس بار کنیڈا میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی تعداد میں اہم ترین وزارتیں علیحدگی پسند تحریک خالصتان کے حامی سکھوں کے پاس چلی جائیں گی۔اگر ایسا ہو گیا تو پھر یقینا بھارت سے علیحدگی کی تحریک خالصتان کو کامیاب ہونے سے زیادہ دیر تک روکنا مودی سرکار کے لیئے ممکن نہ رہ پائے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 07 نومبر 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں