journalist-of-nawabshah-press-club-on-the-way-of-love

یہ اتفاق مبارک ہو، صحافیوں کے لیئے

سندھ کی صحافتی تاریخ کوکسی بھی حوالے سے جب بھی اور جہاں بھی زیربحث لایا جائے گا تو سب سے پہلے ”نواب شاہ پریس کلب“ کی صحافتی خدمات کو ستائش اور تحسین کے سنہرے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ کیونکہ اندرونِ سندھ کی صحافتی جدوجہد کی ہرتحریک میں انسانی حقوق کے تحفظ،جمہوریت کی بحالی اور اعلیٰ صحافتی اقدار کے فروغ میں جس استقامت، حوصلہ مندی، جرات اور عزیمت کا مظاہرہ ”نواب شاہ پریس کلب“ سے منسلک صحافی رہنما،مختلف سیاسی اور غیر سیاسی ادوار میں تواتر کے ساتھ کرتے آئے ہیں وہ سندھ کی تمام صحافتی براداری کے لیئے قابل فخر ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔خاص طور پر اندرونِ سندھ کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے کمزور،پست اور پسے ہوئے طبقات کی آواز اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہچانے کے لیئے ”نواب شاہ پریس کلب“کی حیثیت ہمیشہ سے ہی ایک مؤثر ترین ”عوامی پلیٹ فارم“ کی رہی ہے۔ شاید اسی لیئے اکثر و بیشتر مقامی افراد آج بھی اپنی روزمرہ گفتگو ایک جملہ تواتر سے بولتے ہیں کہ ”جو مظلوم ”نواب شاہ پریس کلب“ تک پہنچ گیا، سمجھو اُس کی آواز وزیراعلیٰ سندھ تک پہنچ گئی“۔

لیکن کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اندرونِ سندھ کا سب سے مضبوط اور مقبول ترین پریس کلب، زبردست اور خطرناک قسم کی ”صحافتی گروہ بندی“کی نظر بد کا شکار تھا۔ اور ”نواب شاہ پریس کلب“ کے سرکردہ صحافی رہنما جن کا نصب العین کبھی عوامی مسائل کو اُجاگر کرنا ہوتا تھا، وہ سب کے سب اپنے خود ساختہ اور لایعنی مسائل کے گرداب میں گھرے دکھائی دیتے تھے۔ جس کے باعث ”پریس کلب نواب شاہ“ سے منسلک سینکڑوں صحافی رو ز بہ روز سخت اضطراب اور عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے تھے۔ بالخصوص”پریس کلب نواب شاہ“ کے نئے نئے رکن بننے والے نو آموز صحافیوں کو تو بالکل بھی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ وہ ”پریس کلب نواب شاہ“ میں خود رو پودوں کے طرح اُگ آنے والے مختلف ”صحافتی گروہوں“ میں سے کسی گروہ کا حصہ بن کر زیادہ بہتر صحافتی اسرار و رموز سیکھ سکتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ صحافتی رہنماؤں کی آپسی چپقلس اور گروہ بندی کے وجہ سے ”پریس کلب نواب شاہ“ میں منعقد ہونے والی مختلف سیاسی،سماجی، اصلاحی اور احتجاجی تقریبات کا شدید بدنظمی کا شکار ہوجانا بھی ایک معمول کی بات بن چکی تھی۔ بعض اوقات تو”پریس کلب نواب شاہ“کے ایک کمرے میں ہونے والی ہنگامی پریس کانفرنس تھوڑی دیر بعد دوسرے کمرے میں کرنا اس لیئے ضروری ہوجاتا تھا کہ پہلی تقریب کا بے شمار صحافتی اراکین بائیکاٹ کردیتے تھے۔ بلاوجہ کی بدگمانی اور بدظنی کے ایسے مخدوش ماحول میں ”پریس کلب نواب شاہ“ کے سرکردہ رہنماؤں کے باہمی اختلافات کو ختم کرکے انہیں ایک ساتھ ایک میز پر بٹھادینا صحافتی برادری کے لیے ایک ایسی مشکل اور دشوار مہم بن چکی تھی۔جسے کامیابی کے ساتھ سَر کرنے کے لیئے اُنہیں کسی ایسے مسیحا کا انتظار تھاکہ جو ”پریس کلب نواب شاہ“ کی پرشکوہ عمارت میں اپنے قدم رنجا فرما کر، مفاہمت کی جادوئی چھڑی سے شکوے اور شکایات کی حبس زدہ فضا کو یکسر بدل کر رکھ دے۔

یادش بخیر! کہ ”پریس کلب نواب شاہ“ میں گزشتہ روز،وہ دلفریب،روشن صبح بھی طلوع ہو گئی،جب سابق وزیر قانون سندھ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما ضیاء الحسن لنجار کی اچانک پریس کلب آمد نے صحافی رہنماؤں کے درمیان پنپنے والی برسوں پرانی رنجشوں کو چند لمحات میں محبت،اُخوت اور ایثار کے مسحور کن جذبات میں ڈھال دیا۔ملاحظہ کرنے والوں کے لئے کیا خوب صورت منظر تھا کہ، جب ضیاء الحسن لنجا ر کی ہمراہی میں انور شیخ، محمد رضوان تھیبو اور ذوالفقار علی خاصخیلی ”پریس کلب نواب شاہ“ کے مرکزی ہال میں ستاروں کی مانند خاص ترتیب میں جگمگا رہے تھے اور اُن کے اردگرد پروانوں کی طرح منڈلاتے، پریس کلب نواب شاہ کے دیگر اراکین اپنے رہنماؤں کے اتحاد و یگانگت پر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ عموماً نیوز چینلز پر سیاست دان لڑتے ہیں تو اُن کے درمیان صلح اور بیچ بچاؤ کے لیئے صحافی و اینکر حضرات بروئے کار آتے ہیں۔مگر یہاں صورت حال اس لحاظ سے یکسر منفرد اور غیر متوقع تھی کہ اہل صحافت کی صفوں میں پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کا،بظاہر ناممکن دکھائی دینے والا،کام ایک سیاست دان نے انجام دیا۔

واضح رہے کہ ”پریس کلب نواب شاہ“کے صحافتی رہنماؤں کے درمیان جنم لینے والے اختلافات اور تنازعات سراسر پیشہ وارانہ غلط فہمی کا نتیجہ تھے۔ جس میں ذاتی مخاصمت اور مخالفت نام کو بھی شامل نہ تھی۔یوں سمجھ لیجئے کہ اندرونِ سندھ کے صحافتی حلقوں میں جناب انور شیخ ہوں، یا محترم محمد رضوان تھیبو یا پھر قابل احترام،ذوالفقار علی خاصخیلی،ان تینوں صحافتی شخصیات میں سے کسی ایک کے بھی بارے میں یہ تصور کرنا گناہ از بدتر گناہ کے مترادف ہوگا کہ انہوں نے کبھی اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیئے ایک دوسرے سے مسابقت کی کوشش کی ہوگی۔ دراصل تینوں رہنماؤں کی اولین ترجیح ہمیشہ ہی سے ”پریس کلب نواب شاہ“ اور اس سے منسلک صحافیوں کے حقوق کا تحفظ ہی تھا۔بس،طریقہ کار کے اختلاف نے پہلے راستے جدا کیے اور بعد ازاں اہداف اور مقاصد بھی علحیدہ علحیدہ کردیئے۔ حالانکہ اگر انور شیخ کو قلم کی حرمت قرار دیا جائے تو محمد رضوان تھیبو الفاظ کے محافظ کہلائیں گے۔جبکہ ذوالفقار علی خاصخیلی کو صحافت کے سارے نفس مضمون کا میر مجلس کہنا عین مناسب ہوگا۔
سوچوں کا اختلاف ہے یہ اور کچھ نہیں
سو پیش رفت اور نہ پسپائی جنگ ہے

یاد رہے کہ سینئر صحافی انور شیخ نے ماضی میں بطور صدر ”پریس کلب نواب شاہ“ ادارے کی تعمیر و ترقی کے لیئے اپنی تخلیقی اور انتظامی مہارت سے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں،وہ بہر صورت آئندہ کئی برس تک ناقابل فراموش ہی رہیں گے۔جبکہ محمد رمضان تھیبو نے صحافت کے بازار میں کھوٹے اور کھرے صحافیوں کو”پیشہ ورانہ“ اور ”سرکاری“ پیمانے پر الگ الگ کرنے کے لیئے جس پامردی اور جرات کے ساتھ قانونی جنگ لڑی۔اُسے ”زرد صحافت“ کے خلاف بڑی کامیابی کے طور پر مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں ذوالفقار علی خاصخیلی نے بطور موجودہ صدر”پریس کلب نواب شاہ“ ہوتے ہوئے، اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو انصاف کے ترازو میں برابر، برابر رکھ کر جس وسیع القلبی، وسعت نظری اور معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے بکھرے ہوئے ناراض صحافتی رہنماؤں کو اتحاد کی مضبوط لڑی میں پرونے کی مخلصانہ اور کامیاب کاوش کی ہے۔ اُن کے اس عمل سعید کی تمام صحافتی برادری ہمیشہ ممنون رہے گی۔مگر یہاں مزید اُمید اور توقع یہ رکھنی چاہئے کہ ”پریس کلب نواب شاہ“ کے تمام صحافتی رہنما، اَب ایک نئے جوش،جذبے اور ولولے کے ساتھ ریاست کے چوتھے ستون ”صحافت“کی مضبوطی اور صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑیں گے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 15 جولائی 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں