JI announces nationwide sit-ins protests at 5 places in Karachi

نئے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا

پاکستان کی احتجاجی سیاست میں دھرنا متعارف کروانے کا سہرا تو بلاشبہ جماعت اسلامی کے سر ہی بندھتاہے۔ لیکن ماضی گواہ ہے کہ فقط دو،چار احتجاجی دھرنوں کے ناکام ہونے کے بعد ہی جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو احساس ہوگیا تھا کہ صرف”دھرنا سیاست“کے بل بوتے پر خاطر خواہ سیاسی فوائد حاصل نہیں کیئے جاسکتے۔جبکہ یہ احتجاجی طرز سیاست صرف ملک کے لیے ہی نہیں بلکہ خود اُن کے کارکنان کے لیئے بھی سخت باعث زحمت ثابت ہوا ہے۔لہٰذا، ایک مدت ہوئی جماعت نے دھرنا طرزِ سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تیاگ دیا ہوا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے بعد ”دھرنا سیاست“ کے میدان میں جن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی دھرنے کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف اور مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی، اُنہیں بھی اپنی پیشرو جماعت اسلامی کی مانند ہر بار شدید مایوسی اور زبردست ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا اور زیادہ تر سیاسی و مذہبی دھرنوں کا اختتام ”سیف سیونگ“کے خطرناک موڑپر جاکر ہوا۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں ”دھرنا سیاست“وقتی طور پر مقبول ہونے کے باوجود کچھ زیادہ موثر”طرز ِ احتجاج“ ثابت نہیں ہوسکی۔

ہماری دانست میں اس حقیقت کا سب سے زیادہ ادراک جماعت اسلامی سے زیادہ کسی دوسری سیاسی جماعت ہوبھی نہیں سکتا،کیونکہ جماعت اسلامی نے فقط اپنے ناکام دھرنے ہی نہیں بھگتائے ہیں،بلکہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاجی و انقلابی دھرنوں کی عبرت ناک ناکامیوں کو بھی بہت قریب سے ملاحظہ کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود، امیر جماعت اسلامی کراچی،جناب حافظ نعیم کی قیادت میں سندھ اسمبلی کے باہر دیا جانے والا احتجاجی دھرنا ایک ہفتے کی نفسیاتی حدکو عبور کرچکاہے اور سخت سرد موسم کے باوجود بھی دھرنے کے شرکاء کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسا اشارہ ظاہر نہیں کیاجارہا ہے،جس سے یہ پیش گوئی کی جاسکے کہ اگلے ایک،دو روز میں اس دھرنے کی بساط منتظمین کے جانب سے رضاکارانہ طور پر لپیٹ دی جائے گی۔ بلکہ امیر جماعت اسلامی کراچی، حافظ نعیم نے دھرنے سے کیئے گئے اپنے تازہ ترین خطاب میں اس بات کا ایک بار پھر سے اعادہ کیا ہے کہ ”وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کیے جانے تک دھرنے کو ختم نہیں کریں گے“۔

خدالگتی تو یہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی کراچی، اپنے ہزاروں کارکنان اور عام افراد کے ہمراہ سندھ حکومت کے منظور کردہ نئے بلدیاتی قانون کی جن شقوں میں ترمیم یا تنسیخ کے لیئے سندھ اسمبلی احاطے میں دھرنا دے رہے ہیں، اُن میں سے کم و بیش تمام مطالبات، صرف جائز ہی نہیں بلکہ اس قابل بھی ہیں کہ اگر سندھ حکومت کو کراچی کے شہریوں کو درپیش سیاسی و انتظامی تکالیف کا ذرہ برابر بھی احساس ہوتو وہ دھرنے میں پیش کردہ مطالبات کو تسلیم کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیرسے بھی کام نہ لے۔ یعنی صوبے بھر میں نافذ العمل نئے بلدیاتی قانون کے خلاف بھرپور احتجاج کا راست جواز تو بہر صورت جماعت اسلامی کراچی کے پاس موجود ہے لیکن بدنام زمانہ ”دھرنا سیاست“ کو کراچی کو اس کے اصل حقوق واپس دلانے کے لیے اس لیئے ایک درست سیاسی اقدام ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتاکہ دھرنے کا نام آتے ہی ایک عام پاکستانی کے ذہن میں توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤاور قتل و غارت گری کی بدنما تصویریں ذہن میں گھومنے لگی ہیں۔

حالانکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی، کراچی کا سندھ اسمبلی کے باہر دیا جانے والا مذکورہ احتجاجی دھرنا نہ صرف مکمل طورپر پراَمن ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے معین کردہ سیکورٹی حصارتک محدود بھی ہے۔مگر اس کے باوجود اس اندیشے کو تو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ بعض شر پسند عناصر محفوظ سیکورٹی حصار کو توڑ کر دھرنے میں گھس کر فتنہ و فساد پھیلانے پر قدرت نہیں رکھتے؟۔چونکہ وطن عزیز پاکستان خطے کی پل پل بدلتی صورت حال کے باعث ملک دشمن عناصر کی نظربد میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ اس لیئے ایسے دھرنے نما احتجاج جو وقت کے قید سے آزاد ہوں، کبھی نہ کبھی شرپسند عناصر کے مذموم عزائم کو پورا کرنے کے لیئے ایک ”تاریک موقع“ ضرور بن سکتے ہیں۔ لہٰذا، امیر جماعت اسلامی کراچی، حافظ نعیم کے کاندھوں پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئے بلدیاتی قانون کے خلاف مؤثر احتجاج بھی کریں لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیں کے اُن کے پراَمن احتجاج کو کوئی تیسری قوت کراچی شہر کا امن و اَمان تاراج کرنے کے لیے استعمال نہ کرسکے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے سندھ اسمبلی کے باہر جاری دھرنے کے معاملے پراسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کا بیان بھی بڑا معنی خیز ہے۔جس میں انہوں نے امیر جماعت اسلامی کراچی،حافظ نعیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ”جماعت اسلامی کراچی کے دھرنے سے ایوان کا تقدس پامال ہو رہا ہے، کیونکہ یہ وہ اسمبلی ہے جہاں قائد اعظم نے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا تھا،نیز اسی اسمبلی نے قرار داد پاکستان پاس کی تھی، جبکہ اس میں پہلے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان بھی بیٹھے تھے۔ ویسے بھی جماعت اسلامی کو سندھ سیکرٹریٹ جانا چاہیے اور دھرنا دینا چاہیے، کیونکہ سندھ کی صوبائی حکومت وہاں ہے، یہاں نہیں“۔

دراصل آغاسراج درانی، جماعت اسلامی کراچی کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے کی ترغیب دے رہے ہیں اور اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اُن کی تجویز پر عمل پیرا ہونے میں کوئی خاص قباحت بھی نہیں ہے بلکہ زیادہ بہتر ہوگا کہ جماعت اسلامی کراچی،نئے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کے ساتھ ساتھ، وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ کے باہر بھی اپنا احتجاج کرے اور سندھ اسمبلی کے باہر بھی وقتاً فوقتا ً اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی رہے۔ بس! خیال ایک بات رکھنا ہوگا کہ ہر احتجاج بڑا اور موثر تو چاہے جتنا ہو لیکن زیادہ طویل نہیں ہونا چاہیے تاکہ ملک دشمن عناصر سیاسی احتجاج کی آڑ میں اپنے مذموم اہداف کو حاصل نہ کرپائیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 10 جنوری 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں