Ittifaqya-lockdown-in-pakistan

اتفاقیہ لاک ڈاؤن

ساری قوم کو مبارک ہو کہ بالآخر وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پہلی بار کورونا وائرس کے انسداد کے لیئے وفاق اور صوبے ایک حکمت عملی وضع کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔کورونا وائر س کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیئے اِس اچانک اور غیر متوقع قومی اتفاقِ رائے نے عملی طور پر ملک بھر سے لاک ڈاؤن کے مکمل خاتمہ پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ ویسے کہنے کو تو ابھی بھی حکومت کی طرف سے ملک بھر میں ہفتہ میں دو دن سخت لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اہتمام کیا جائے گا،مگر اِس دو روزہ لاک ڈاؤن کی حیثیت ایک علامتی لاک ڈاؤن سے زیادہ کچھ نہ ہوگی۔کیونکہ عام آدمی کو کاروبارِ زندگی رواں دواں رکھنے کے لیئے لاک ڈاؤن میں جتنی نرمیاں اور آزادیاں درکار تھیں،وہ سب کی سب پہلی فرصت میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے فراہم کردی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان اور تمام وزراء اعلیٰ کو اِس قومی اتفاق رائے تک پہنچانے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا بھی اہم ترین کردارہے۔ کیونکہ اگر عید الفطر سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان،جناب جسٹس گلزار احمد صاحب لاک ڈاؤن کے حوالے سے لیئے گئے سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران لاک ڈاؤن نرم کرنے کا عبوری حکم نامہ جاری نہیں کرتے تو ہوسکتاتھا کہ ابھی تک صوبے اٹھارویں ترمیم کی آڑ میں لاک ڈاؤن کو مزید سخت سے سخت کرنے پر ہی بضد رہتے۔

اِس بار قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد سب سے حیران کن صورت حال سندھ میں دیکھنے میں آئی، جہاں پہلی بار وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اعلان کے عین مطابق بلکہ شاید کچھ بڑھ کر ہی لاک ڈاؤن میں نرمی کا اطلاق فور ی طور پر فرمادیا گیا۔حالانکہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد لاک ڈاؤن میں ہونے والی نرمی کے فیصلہ کی خبر سُن کر سندھ کے باسیوں کو بالکل بھی یقین نہیں تھا کہ اِن نرمیوں کا اطلاق اُن کے صوبے پر بھی کردیا جائے گا۔ کیونکہ آج سے پہلے ہمیشہ سے ہی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ وفاق کی جانب سے لاک ڈاؤن پر کیئے ہر فیصلہ کی تشریح اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں کرتے ہوئے اِسے مزید سخت سے سخت تر بنادیتے تھے۔مگر یہ پہلا موقع ہے کہ جب سندھ حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی کا حکم نامہ جاری کرنے میں اپنی پیشرو تمام صوبائی حکومتوں سے واضح طور پر سبقت لے گئی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سندھ حکومت کی طرف سے کاروباری اوقات میں بھی دوسرے صوبے کی نسبت دو گھنٹے کازائد اضافہ فرمادیاگیا ہے۔ جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ جو کہ سندھ میں کم و بیش تین ماہ سے مکمل طور پر بند تھی،اُسے بھی فوری طور پر کھولنے کے اعلان ہوجانے سے اِس شعبے سے منسلک لاکھوں غریب افراد کو بھی اپنی معاشی سرگرمیوں ازسرِ نو بحال کرنے کا موقع میسر آگیا ہے۔اس کے علاوہ کئی ماہ بعد سندھ میں پبلک ٹرانسپورٹ کھلنے سے ایسے مسافروں نے بھی سُکھ کا سانس لیا ہے،جو لاک ڈاؤن کے ابتدائی ایّام میں کسی نہ کسی وجہ سے اپنے پیاروں سے دُور کسی دوسرے شہر میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔



بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سندھ حکومت کا لاک ڈاؤن میں نرمی فیصلہ اُس زبردست ”سیاسی دباؤ“کا اظہارہے،جو سندھ حکومت پر گزشتہ چند ہفتوں سے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے اٹھارویں ترمیم میں تنسیخ و تبدیلی کی خبروں اور صوبہ سندھ میں گورنر راج نافذ کیئے جانے کے بیانات جاری کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ لیکن ہماری ناقص رائے میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کیئے جانے کے فیصلہ کے پس پردہ سیاسی دباؤ سے زیادہ عوامی دباؤ کارفرما ہے۔کیونکہ وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلوں کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے لیئے عوامی حلقوں کو لاک ڈاؤن میں مزید سختی کے لیئے قائل کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھااور انہیں اپنے اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں لاک ڈاؤن پر کیئے گئے اقدامات سے متعلق شدید ترین عوامی دباؤ بلکہ یوں کہیے کہ کہیں کہیں تو بدترین عوامی غیض و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کی سب سے مقبول ترین عوامی جماعت ہے، اِس لیئے بطور سیاسی جماعت یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو ناراض کرکے اپنی سیاسی مقبولیت کو خطر ے میں ڈالنے کی بے وقوفی کرے۔اَب چاہے کورونا وائرس کے حوالے سے صوبہ بھر میں زمینی حقائق کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوجائیں فی الحال تو سندھ حکومت کے لیئے لاک ڈاؤن میں مزید سختی کا فیصلہ کرنا ایک سیاسی خودکشی کے مترادف ہی ہوتا۔

پس! وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاق سے اُٹھنے والی تند و تیز سیاسی ہواؤں کا رُخ دیکھتے ہوئے اور سندھ کی عوامی اُمنگوں و خواہشات کی شدت کا بروقت ”سیاسی ادراک“ کرتے ہوئے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن نرم کرنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کی۔ اِس طرح سے وزیراعلیٰ سندھ نے صحیح معنوں میں ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے کورونا وائرس کے معاملہ میں قومی اتفاق رائے کو زک پہنچانے کے الزام سے بھی گلوخلاصی حاصل کرلی ہے اور سندھ کی عوام کو بھی اپنے”انتظامی فیصلہ“سے کافی حد تک مطمئن کردیا ہے۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت کا وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ طے پانے والایہ ”اتفاقیہ لاک ڈاؤن“ کب تک چلتا ہے،کیونکہ بقول وزیراعلیٰ سندھ ”سندھ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے“۔اگر وزیراعلیٰ سندھ کا یہ فرمان مستند ہے تو ہوسکتاہے بہت جلد سندھ میں ”اتفاقیہ لاک ڈاؤن“ کی مکمل اتفاق رائے سے موت واقع ہوجائے اور ایک بار بھر سندھ میں ”کیر فار یو“ جیسا سخت ترین لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لیئے کوئی قانونی،سیاسی اور انتظامی راہ تلاش کرنے کوشش کی جائے۔ اِس لیئے سندھ کی عوام گزارش ہے کہ برائے مہربانی ”سب جاگتے رہنا اور صرف ”اتفاقیہ لاک ڈاؤن“ کے ہی بھروسہ پر نہ رہ جانا“۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 04 جون 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں