Israel-and-UAE-Agreement

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں؟

ٓ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای)،اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے جارہا ہے،دنیا پر سکتہ طاری ہوگیا ہے۔خاص طور اسلامی دنیا پر یہ اعلان بجلی بن کر گرا ہے۔ اسلامی ممالک جو پہلے ہی سفارتی و سیاسی معاملات پر ایک دوسرے سے سخت شاکی تھے۔ اس خبر نے تو اُن کے رہے سہے سفارتی اوسان کا بھرم بھی خطا کرکے رکھ دیاہے۔ ایران اور ترکی جیسے ممالک نے تو واشگاف الفاظ میں متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ قائم ہونے والے تعلقات کو شرمناک قرار دے کر مذمتی بیانات جاری کردیئے ہیں۔جبکہ سعودی عرب جیسے اہم ترین اسلامی ملک نے اسرائیل کے ساتھ یو اے ای کی طرز کسی ممکنہ معاہدہ کا امکان رد کرتے ہوئے، اپنے سفارتی لبوں سے ایک بڑا سا حرفِ انکار ادا کر ڈالا ہے، شاید سعودی عرب خطہ کے حالات کا باریک بینی سے مکمل جائزہ لے کر ہی متحدہ عرب امارات کے اقدام کے انسداد کے لیئے کوئی حکمت عملی مرتب کرے گا۔ رہی بات پاکستان کی تو وہ بھی اس غیرمتوقع خبر کی پرزور الفاظ میں مذمت کرکے اپنا سارا وزن مظلو م فلسطینیوں کے پلڑ ے میں ڈال چکا ہے۔یقینا آج یا کل پاکستان بھی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین بننے والے سفارتی اتحاد کے خواب کو چکنا چور کرنے کے لیئے کوئی نہ کوئی کاوش ضرور انجام دے گا۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب پر حملے کے اصل محرکات۔۔۔؟

اِس حسن ظن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو روزِ اول سے آج تک اسرائیل کے وجود کا سرے سے ہی منکر رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا یہ موقف اسرائیل کے متعلق فلسطین کے موقف سے بھی زیادہ مضبوط اور اٹل ثابت ہوا ہے۔کیونکہ فلسطینی تو پھر بھی کسی نہ کسی سیاسی صورت حال کے دباؤ میں آکر یا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی مجبوری میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا زہریلاگھونٹ قطرہ قطرہ پیتے رہے ہیں لیکن پاکستان کسی بھی حیثیت میں، کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر نمایاں اور صاف صاف لفظوں میں تحریر ہوتا ہے کہ ”یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ ہر ملک کے لیئے قابل قبول ہے“۔پاکستانی پاسپورٹ پر لکھی ہوئی یہ سطر ہی پاکستانی کا اسرائیل کے متعلق اُصولی نظریہ دنیا بھر کے سامنے بیان کرتی ہے۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ اپنے اس نظریہ کی دنیا بھر میں تشہیر سے پاکستان کبھی بھی نہیں ہچکچایا۔ فی الحال اگر پاکستان کچھ بول نہیں رہا تو اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ پاکستانی حکومت اور عوام اِس اعلان پر غمزدہ یا دکھی نہیں بلکہ پاکستانی اربابِ اختیار کی اولین کوشش یہ ہے کہ اپنی دلیرانہ اورمخفی سفارتی کوششوں سے زیادہ زیادہ اسلامی ممالک کو اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان قائم ہونے والے معاہدہ کے مضر اثرات سے آگاہ کرکے، اسرائیل کے خلاف اپنا ہمنوا بنایا جائے۔ بظاہر یہ کام مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج تک جس نے بھی اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم کیئے ہیں۔وہ اسلامی ممالک ہمیشہ ہی سے زبردست خسارے میں رہے ہیں۔ جیسے 1979 میں مصرکی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ اعلان کرتے ہوئے مصر کا خیال تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے سے اُس کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے محفوظ ہوجائے گا۔ مگر افسوس اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کا انعام مصر کوشورش،انارکی اور انورسادات کی لاش کی صورت میں ملا۔ اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد نے امن معاہدہ کی آڑ میں مصر کی گلی،گلی میں وہ طوفان بدتمیزی بپا کیا کہ برسوں سے تہذیت کا گہورا اور امین کہلانے والی سرزمین میں لہلاتے کھیت اور فصلوں کے بجائے دہشت گردی،لاشوں اور خون کی کاشت ہونے لگی۔اسرائیل سے امن معاہد ہ کرنے سے قبل مصر بلادِ عرب میں زبردست سیاسی و سفارتی حیثیت رکھتا تھا لیکن اسرائیل نے چند دہائیوں میں ہی مصر کو سیاسی و سفارتی طور پر اُس اپاہج شخص کی طرح بنادیا ہے، جوکسی اور کی تو کیا خاک مدد کرے گا،خود اپنے لیئے کچھ کرنے جیسا نہیں رہا۔

لطیفہ ملاحظہ ہو کہ اسرائیل کے ساتھ ایسا ہی ایک معاہدہ 1994 میں اُس ترکی نے بھی کیا تھا، جس نے آج یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان قائم ہونے والے سفارتی تعلقات کے بعد سب سے پہلے مذمتی بیان جاری کیاہے۔لیکن 1994 میں اسرائیل سے متعلق طیب اردوان کی رائے 2020 سے بہت زیادہ مختلف تھی،اُس وقت طیب اردوان کا بھی خیال تھا کہ اسرائیل کو اعلانیہ تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ دفاعی شراکت داری کرنے سے ترکی بھی اہلِ مغرب کی آنکھ کا تارا بن سکتاہے۔مگر بدقسمتی سے طیب اردوان کی خوش فہمی بھی صرف خوش فہمی تک ہی محدود رہی اور ترکی نے مغربی ممالک کی آنکھ کا تارا تو خیر سے کیا بننا تھا،اُلٹا یہ ہوا ہے کہ ترکی نے اسرائیل سے جو جدید ترین جنگی جہاز اور دیگر سازو سامان اپنے ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیئے خریدا،اُس میں میں بھی ایسے خفیہ آلات نصب کرکے پروگرامنگ کردی گئی تھی کہ اُن کی فوج ان ہتھیاروں سے ترکی کی بغل میں موجود اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کو بھی نشانہ نہیں بناسکتے تھے۔ گویا اسرائیل نے اپنے ساتھ تعلقات بنانے کے صلہ کے طورپر ترکی کو اپنی دانست میں جنگی جہاز نہیں بلکہ جنگی کھلونے دے کر بہلا دیا۔ صرف یہ ہی نہیں اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد اور صیہونی مالیاتی اداروں نے ترکی میں شورش اور انارکی پھیلانے کے لیئے کردوں کے لیئے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے۔ آج بھی حالت یہ ہے کہ ترکی میں اسرائیلی دندناتے پھرتے ہیں اور ترکی کی حکومت لاکھ کوشش کی باوجود بھی اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرپاتی۔بہرحال اچھی بات یہ ہوئی کہ طیب اردوان نے اسرائیل کے ساتھ حاصل ہونے والے اپنے تلخ تجربہ سے بروقت سیکھ حاصل کرلی اور یہ نصیحت ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اپنے پلے سے باندھ لی کہ اسرائیل پر اعتبار کرنا اپنے پاؤں پر اپنی مرضی سے کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

اسرائیل کے غاصبانہ قیام کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات باضابطہ طورپر قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔نیز یہ خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں پہلا ملک ہے جس نے ایسا اقدام اُٹھایا ہے۔یہ فیصلہ اچانک یا عجلت میں ہرگز نہیں کیا گیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین خفیہ سفارتی و دفاعی تعلقات برسوں سے قائم چلے آرہے تھے۔ بس اُن تعلقات کا اعلان آج کیا گیا ہے۔ اس اعلان سے سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہوگاکیونکہ اِس معاہدہ میں فلسطین کے لیئے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔سوائے اِس کے کہ اُن پر اسرائیل کی جانب سے ہونے والے منظم ظلم و ستم میں کچھ مزید اضافہ کردیاجائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس معاہد ہ کے ثمرات کے نتیجہ میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کو کیا کچھ حاصل ہوگا؟۔ جیسا کہ اِس معاہدہ کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ترجمانوں کی جانب سے بڑھ چڑھ کر بلند وبانگ دعوے کیئے جارہے ہیں۔ ایک اماراتی اہلکار نے تو ترنگ میں آکر میڈیا پر یہ بھی فرمادیا ہے کہ ”اسرائیل کے ساتھ معاہدے کا اعلان ہونے کے بعد انٹرنیٹ پر یو اے ای میں سب سے زیادہ اسرائیل میں موجود ہوٹل سرچ کیئے جارہے ہیں اور اماراتی لوگ بے چین ہیں اسرائیل جانے اور اسرائیلیوں سے ملنے کے لیے“۔بہرکیف اماراتی اہلکار جو چاہے دنیا کو باور کراتے پھریں،ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں لیکن اسرائیل کا ماضی تو یہ بتاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور حقیقی طور پر حکمرانی کرنے والے شیخ محمد بن زید کے لیے یہ معاہدہ ایک جوئے سے کم نہیں ہے، جس میں ان کی جیت کے امکانات صفر سے بھی کم ہی ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل جس طرح مصر اور ترکی کے ساتھ اپنے کیئے گئے معاہدوں سے مکر گیا تھا۔اگر ایسی ہی کوئی ملتی جلتی صورت حال متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی اختیار کرنے کی کوشش کی گئی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو معاہدہ میں درج اہم ترین شرط جیسے مغربی کنارے کو مزید الحاق نہ کرنے کے وعدے سے مکر گئے تو اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی یہ”سیاسی حرکت“ اماراتی شیخ کے لیے کس حد تک شرمناک ہوگی،اس کا فی الحال انداز ہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔

متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات اعلانیہ تسلیم کرنے پر فوری طورپر یہ نقصان تو ہوا ہی ہے کہ خطہ میں متحدہ عرب امارات تنہا دکھائی دے رہا ہے۔جبکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دیگر ذرائع پر جس طرح سے اماراتی شیخ کی تذلیل کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا جارہاہے۔ وہ بلاشبہ لائق عبرت ہے۔ ذرائع تو یہ بھی خبر دے رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی عوام میں بھی اِس فیصلہ کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتاہے۔اَب وہ الگ بات ہے کہ یو اے ای کی عوام اُس طرح سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے جس طرح کی سہولت دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد کے ساتھ مل کر اپنے شہریوں کی جاسوسی کے لیئے زبردست قسم کا نظام تشکیل دیا ہوا۔ جس کی مدد سے اسرائیل دشمن خیالات کا اظہار کرنے والوں کی کڑی چھان بین کی جاتی ہے اور اکثر بیشتر انہیں گرفتار کرکے سخت سے سخت سزائیں بھی دے دی جاتی ہیں۔ لیکن ان تمام تر حفاظتی انتظام کے باوجود بھی متحدہ عرب امارات کی سرکار کو خدشہ ہے کہ اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف اُن کی عوام کے اذہان میں ایک لاوا پک رہا ہے۔ جوکسی بھی وقت آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ کر سب کچھ اپنے ساتھ بہاکر لے جاسکتاہے۔ ہمیں تو ڈر یہ ہے کہ کہیں یہ ہی وہ واقعہ نہ ہو جو اماراتی عوام کو اپنے حکمرانوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی زنجیروں کو خس و خاشاک کی مانند توڑنے پر مجبور کردے۔

مزید پڑھیں: ڈیجیٹل اسٹرائیک اور چین کا جواب

ہماری ناقص رائے میں اسرائیل کے نزدیک بین الاقوامی سیاست کی بساط پرمتحدہ عرب امارات کی حیثیت ایک پیادہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور اِس بار متحدہ عرب امارات کے مہرہ کو پیٹنے کے لیئے آگے بڑھا دیا گیا ہے۔یعنی متحدہ عرب امارات ایک”سفارتی سیڑھی“ ہے جس پر چڑھ کر اسرائیل اپنے صیہونی عزائم کی سمت ایک نیا قدم آگے کی جانب بڑھانا چاہتا ہے اور جیسے ہی اسرائیل بلادِ عرب میں اپنے بڑھے ہوئے قدم جمالے گا تو متحدہ عرب امارات کی سیڑھی کو سیاسی آگ کے دریا میں جلنے کے لیئے پھینک دیاجائے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 03 ستمبر 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں