Israeel-and-our-muslim-people

اسرائیل اور ہمارے جنتی لوگ

ہمیں اس حقیقت کو واقعی کھلے دل اور دماغ سے تسلیم کرلیناچاہیئے کہ حالیہ دوریہودیوں کے دوام اور اسرائیل کے قیام کے لیئے سیاسی، سفارتی، تہذیبی اور عسکری لحاظ سے بے مثال ترقی و عروج کا زمانہ ہے۔ یعنی یہودی سیاسی،سفارتی،تہذیبی اور عسکری میدان میں جس قدر آج مضبوط اور طاقت ور ہوچکے ہیں۔ماضی میں اتنی سیاسی طاقت و قوت کبھی یہودیوں کو حاصل نہ ہوسکی تھی۔یقینا جب کسی قوم کے ہاتھ میں اچانک سے سیاسی طاقت کا عصا آجائے تو ایسی قوم کی خود اعتمادی آسمانوں کو چھونے لگتی ہے اور پھراُس قوم کے مقتدر رہنما اپنے ہاتھ میں آجانے والے طاقت کے ڈنڈے سے اقوام عالم کو اپنی مرضی سے غلاموں کی طرح ہانکنا شروع کردیتے ہیں۔پس! اسرائیل کے یہودی حکمران بھی یہ ہی کچھ کررہے ہیں کیونکہ اچانک سے ملنے والی غیرمعمولی سیاسی طاقت نے اسرائیلیوں کو من حیث القوم اِس خبط میں مبتلا کردیا ہے کہ عالمی حکمرانی کا تاج اُن سے فقط دو چار قدم کی دوری پر ہی رہ گیا ہے، جسے وہ کسی بھی وقت ہاتھ بڑھاکر اپنے قبضے میں لے کر اپنا حقیقی تاجدار ِ عالم ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ خود کو فاتح عالم کہلوانے اور ساری دنیا کو اپنا مفتوح بنانے کا خواب یہودی صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔مگر اس بارانہیں واقعی لگتا ہے کہ اگلے چند برسوں میں وہ اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر کو باآسانی ممکن الحصول بنالیں گے۔ اس لیئے جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہودیوں کا بنیادی مقصد وحید فقط ارض ِ فلسطین کے مختصر سے قطعہ اراضی میں ”اسرائیل“ کے نام سے چھوٹا سا ایک ملک بناکر خاموشی سے بیٹھ کر اپنے رب کے حضور مناجات کرنا ہے،بلاشبہ ایسے تمام تجزیہ کار،دانشور،سینئر اینکرز اور کالم نگار حضرات احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بسنے والے یہ ہی جنتی لوگ ہمیں صبح و شام پورے شد و مد کے ساتھ یہ باور کروانے اور سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ”یہودیوں کو فقط اسرائیل کی ایک مملکت ہی تو چاہیئے،اگر ہم اسرائیلیوں کو اُن کا اسرائیل دے دیتے ہیں تو یہودی بھی بخوشی فلسطینیوں کو اُن کا فلسطین دے دیں گے“۔ کاش! یہودی واقعی اتنے ہی قناعت پسند ہوتے،جتنے کہ ہمارے جنتی لوگ بیان کررہے ہیں۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ یہودی اپنا ملک اسرائیل عرصہ دراز ہوا فلسطینیوں کی سر زمین پر بذور طاقت آباد کرچکے ہیں اور اَب تو خیر سے اسرائیل کے اردگرد رہنے والے تمام مسلم عرب ممالک بھی اعلانیہ یا غیراعلانیہ اسرائیل کو بطور ایک ریاست تہہ دل سے قبول کر چکے ہیں۔ حتی کہ بے چارے فلسطینی بھی اسرائیلی ریاست کو مجبوری میں ہی سہی لیکن قانونی طور پر تسلیم تو بہرحال کرتے ہی ہیں۔

ایسے میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا یہودی اسرائیل کو بطور ایک ملک تسلیم کرنے کے احسان کے عوض میں معصوم فلسطینیوں پر بموں اور گولیوں کے بجائے اُن پر مال و زر کی بارش کردیتے۔تاکہ دنیا کو احساس ہوتا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں سے اُن کی زمین تو ضرور ہتھیا لی ہے مگر جواب میں اِن کے گھر خوانِ نعمت سے بھی بھر دیئے ہیں۔ لیکن اسرائیلیوں کا منافقانہ اور معاندانہ رویہ ملاحظہ ہو کہ ایسے فلسطینی جو اسرائیل کو روز اوّل سے تسلیم کرتے چلے آرہے ہیں اور جن کو اسرائیل نے اپنی شہریت بھی دی ہوئی ہے۔ ایسے اسرائیل نواز فلسطینیوں پر بھی الزام لگا کر اسرائیل کی عدالتوں میں مقدمے چلائے جارہے ہیں کہ ”یہ اسرائیلی فلسطینی یہودی دوشیزاؤں کو ورغلا کر اُن سے شادی کررہے ہیں اور ہم یہودیوں کی پاک نسل کو فلسطینی خون سے آلودہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں“۔ اَب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ جب اسرائیل کے یہودی رہنما، اسرائیلی فلسطینیوں سے بھی اس درجہ نفرت،حقارت اور ہتک آمیز سلوک کرتے ہیں تو ایسے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں کا سلوک کتنا بہیمانہ اور ظالمانہ ہوگا،جوکہ یہودیوں کو ایک غاصب قوم گردانتے ہیں۔

احمقوں کی جنت میں رہنے والے جنتی لوگ آج کل یہ کہہ کہہ کر بھی ہمیں ڈرارہے ہیں کہ ”اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی ”سفارتی ضد“کی وجہ سے پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کردیا جائے گا اور پاکستان پر سیاسی،سفارتی اور معاشی سطح پر اس قد ردباؤ ڈالا جائے گا کہ مستقبل قریب میں پاکستانیوں پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ تر ہوجائے گا“۔بلاشبہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں واقعی وہ تنہا ملک ہے جس نے ابھی تک اسرائیل کو بطور ایک ریاست اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ہر سطح پر تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا ہواہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کیا ظالموں کی پرہجوم صف میں کھڑا ہونے سے لاکھ درجے بہتر یہ نہیں ہے کہ ہم پاکستانی مظلوم کی حمایت میں استقامت کے ساتھ تن،تنہا ہی کھڑے رہیں؟۔

جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے کہ اسرائیل کو جلدازجلد تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے دوست ممالک اور دشمن ممالک اسرائیل کے ایماء پر پاکستان پر سخت ترین معاشی و سفارتی پابندیاں عائد کردی جائیں گی تو، اس ضمن میں جنتیوں کی خدمت میں بصد احترام اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اَب تک وہ کونسی عالمی،معاشی و سفارتی”سخت پابندی“ باقی بچی ہے، جسے وقتاً فوقتا کسی نہ کسی نا کردہ جرم کی پاداش میں دنیا نے ہم پر عائد کرنے کی کوشش نہیں کی ہو۔یوں سمجھ لیجئے کہ عالمی پابندیوں کے سائے میں ہی ہمارا ملک پل کر جوان ہوا ہے۔لہٰذا صرف چند غیرمنصفانہ عالمی پابندیوں کے خوف سے ہم مظلوم فلسطینیوں کی آزادی پر ”سفارتی سمجھوتا“ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ خدانخوستہ اگر ہم نے ایسا کیا تو پھر ہم دنیا بھر میں کشمیر کا مقدمہ کس قانونی دلیل کی بنیاد پر لڑیں گے۔یاد رہے کہ فلسطین اور کشمیر کا مقدمہ بھی ایک ہے اور ان مقدمات کو دنیا بھر میں لڑنے والا وکیل بھی فقط ایک ہی ہے یعنی پاکستان۔اس لیئے ہم پاکستانی نہ تو کبھی اپنے مقدمات سے دستبردار ہوں گے اور نہ ہی دنیا بھر میں اپنے مظلومین کی وکالت کرنے سے باز آئیں گے۔

گزشتہ دنوں ہمارے ایک اور جنتی اور فن کالم نگاری کے چوہدری نے اپنے مقبول ترین کالم میں یہ انکشاف کر کے سبھی کو حیران و پریشان کردیا کہ ”یہودی مسلمانوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے بلکہ اُن کا تو سرے سے کبھی مسلمانوں کے ساتھ کوئی تنازعہ رہا ہی نہیں ہے۔اس کے برعکس یہودیوں کے تو سارے جھگڑے عیسائیوں کے ساتھ ہی رہے ہیں“۔یقینا یہاں تک تو ہمارے جنتی کالم نگار کی بات بالکل درست ہے کہ عیسائی اور یہودی قبل از اسلام سے ہی باہم دست و گریبان رہے ہیں اور جب دین اسلام کا ظہور دنیا میں ہوا تو اُس وقت یہودی اور عیسائی آپس میں برسرِ پیکار ہی تھے۔مگر یہاں یہ وضاحت بھی ازحد ضروری ہے کہ عیسائیوں کے ہاتھوں عبرتناک شکست و رسوائی سے دوچاریہودیوں کو عیسائیوں کے ظلم و ستم سے جہاں جہاں مسلمان بادشاہوں نے نجات دلوائی،وہاں وہاں یہودیوں نے احسان فراموشی کرتے ہوئے مسلمانوں میں نفاق پیدا کرکے مسلم حکومتوں کو ہی کمزور یا ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی ضرور کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان حکمرانوں نے تو کبھی بھی یہودیوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھا لیکن یہودیوں نے اپنے طرز عمل سے ہر بار یہ ثابت کیا کہ انہیں مسلمانوں کی انصاف پسند حکمرانی کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لیے تلخ ترین تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ تک مسلم معاشرے میں پنپنے والے ہر فساد، انارکی اور عدم استحکام کے پیچھے یہودی پورے طرح سے ملوث رہے ہیں۔

دراصل یہودی اپنے علاوہ کسی بھی دوسری قوم کو چاہے وہ عیسائی ہوں،مسلمان ہوں یا پھر کمیونسٹ ہوں۔ یہ کسی بھی غیر یہودی کو دنیا میں امن و امان کے ساتھ حکمرانی کرتے ہوئے برداشت ہی نہیں کرسکتے ہیں۔کیونکہ بنی اسرائیل کے زمانے سے ہی یہودی ربیوں نے اپنی قوم کے اذہان میں ایک بات اچھی طرح سے راسخ کردی ہے کہ ”یہودی خداوند کی سب سے برتر،محبوب ترین اور افضل قوم ہیں اور انہیں ساری دنیا پر حکمرانی کے لیئے پیدا کیا گیا ہے“۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہودی ظالم ہوں یا مظلوم ہردو صورتوں میں اِن کے توسیع پسندانہ عزائم دنیا کے امن و امان کے لیئے ہمیشہ سے ہی خطرناک اور مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ لہٰذا اسرائیلی ریاست کا قیام صرف ارضِ فلسطین کے لیئے ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہرملت اور ملک کی آزادی و سلامتی کے لیئے ”سخت خطرہ“ہے۔ خاص طور پر وہ عاقبت نااندیش عرب رہنما جو اسرائیل کی ”سفارتی محبت“ میں مرے جارہے ہیں۔ اسرائیلی سب سے پہلے اِن متمول عرب حکمرانوں کو ہی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں قربان کرنا چاہیں گے۔اس لیئے ہمارا ماننا ہے کہ آج جو بھی مسلم ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ”سفارتی معاہدہ“ پر دستخط کررہی ہے، جلد یابدیر بہر کیف،اُس پر منکشف ہوہی جائے گا کہ جسے وہ معاشی ترقی کا سرنامہ سمجھ رہے تھے،درحقیقت وہ معاہدہ تو اُن کی ریاست کے لیئے ایک ”پروانہ موت“ نکلا۔

یقینا وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جہاں دوست ممالک کا شدید ترین بیرونی دباؤ ہے،وہیں ہمارے ملک میں موجود احمقوں کی جنت میں رہنے والے جنتی مشیروں،وزراء،تجزیہ کاروں اور کالم نگار حضرات کی ”اسرائیلی بھبھکیوں“ کا اندرونی دباؤ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ جو تل ابیب کی شاہراؤں پر یہودیوں کے سامنے تسلیمات بجالانے کے لیئے مرے جارہے ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ عمران خان ہمیشہ سے ہی دباؤ میں انتہائی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔لہٰذا ہمیں کامل یقین ہے کہ اسرائیلی ترغیبات، خوف،بہلاوے اورلالچ سب مل کر بھی ریاست پاکستان کی اسرائیل مخالف پالیسی میں ذرہ برابر بھی تغیر و تبدل نہیں کرواسکیں گے۔ساری دنیا بھلے ہی اسرائیل کی ہمقدم بن جائے لیکن پاکستان ”قیامت“ تک فلسطینیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکرکھڑا رہے گا۔بقول بشیر بدرؔ
ہمیں ایسی جنت نہیں چاہیئے
جہاں سے مدینہ دکھائی نہ دے

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ میں 14 دسمبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں