Rao Anwar and Naqeeb Ullah

نقیب اللہ قتل کیس کا ڈرامائی موڑ

نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف اہم گواہ کے منحرف ہونے کے بعد کیس نے ایک ڈرامائی موڑ اختیار کرلیا ہے اور مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ سندھ حکومت راؤ انوار کو بچانے کے لیئے بھرپور تگ و دو کررہی ہے۔کیس کے ابتدائی مرحلہ پر ہی ایک انتہائی اہم ترین گواہ کا منحرف ہونا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی خیال کی جارہی ہے۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران جب راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر احمد شیخ، اللہ یار، اقبال اور ارشد سمیت 11 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس کی جانب سے راؤ انوار کو وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا اور بغیر ہتھکڑی کے بھی پیش کیا گیا۔ دوران سماعت نقیب اللہ قتل کیس کا اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگیا۔ پولیس نے گواہ شہزادہ جہانگیر کو واقعہ کا عینی شاہد ظاہر کیا تھا۔شہزادہ جہانگیر نے عدالت میں اپنے بیان حلفی میں کہا کہ میرا نقیب محسود قتل واقعے سے کوئی تعلق نہیں، پولیس نے مجھ سے زبردستی راؤ انوار کے خلاف بیان لیا، پولیس نے مجھ پر تشدد کر کے اپنی مرضی کا بیان ریکارڈ کروایا، میری جان کو خطرہ ہے، عدالت سیکیورٹی کا بندوبست کرے۔ سماعت میں راؤ نوار سمیت 12 ملزمان کو مقدمے کی نقول فراہم کردی گئیں۔ 11 مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کے ایک بار پھر ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے۔ مفرور ملزمان میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت، شعیب شوٹر اور دیگر شامل ہیں۔پولیس نے راؤ انوار اور دیگر ملزمان کے خلاف تیسرے مقدمے میں چالان جمع کرادیا جسے عدالت نے منظور کرلیا۔ پولیس نے چالان میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو نقیب اللہ کیس میں مرکزی ملزم قرار دے دیا۔ چالان کے مطابق نقیب اللہ، صابر، اسحاق اور نظر جان کی ڈی این اے رپورٹس موصول ہوگئیں، نقیب اللہ سمیت چاروں مقتولین کو ایک کمرہ میں رکھ کر مارا گیا جبکہ اس دوران راؤ انوار نے جیل میں بی کلاس کی درخواست دائر کردی۔ ملزم کے وکیل نے کہا کہ راؤ انوار کو سینٹرل جیل میں سی کلاس میں رکھا گیا ہے اور اس سے عادی ملزمان جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، راؤ انوار کسی جرم میں ملوث نہیں اور باقاعدہ ٹیکس ادا کرتا ہے، لہذا اسے بی کلاس کی سہولت دی جائے۔دوسری جانب جرگہ عمائدین نے سندھ حکومت کی طرف سے راؤ انوار کو وی آئی پی پروٹوکول دینے پر شدید ترین اعتراض اٹھادیا ہے۔ جرگہ عمائدین نے اپنا مشترکہ مؤقف میں کہا کہ راؤ انوار ملزم ہے، جس طرح دیگر ملزمان کو کورٹ لایا جاتا ہے اسی طرح اسے بھی لایا جائے جبکہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو سب جیل منتقل کرنے کا فیصلہ بھی چیلنج کردیا گیا۔ نقیب کے لواحقین کے وکیل صلاح الدین نے کہا کہ ایک فون کال پر ملیر کینٹ کی بیرک کو سب جیل قرار دینا فراڈ لگتا ہے، سب جیل کا تحریری آرڈر ہوناچاہیئے تھا اور پہلے عدالت سے اجازت لینی چاہیئے تھی۔
عدالتی کارروائی اپنی جگہ پر مگر سندھ حکومت کی طرف سے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤانوار پر خصوصی نوازشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب ملیر کینٹ کے مخصوص حصے کو ہی سب جیل قرار دے دیا گیا ہے۔ ملزم راو انوار کو کراچی منتقلی کے بعد ملیر کینٹ میں سخت سیکیورٹی میں رکھا گیا تھا، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گزشتہ سماعت میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا تاہم انکشاف ہوا ہے کہ انہیں جیل بھیجنے کے بجائے ملیر کینٹ منتقل کیا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کے فوری بعد محکمہ داخلہ سندھ نے فون کے ذریعے آئی جی جیل خانہ جات کو احکامات جاری کیے کہ راؤ انوار کو سیکیورٹی خدشات ہیں اس لیے ملیر کینٹ کو سب جیل قرار دیاجائے۔محکمہ داخلہ سندھ کے ٹیلی فون پر ملیر کینٹ کو سب جیل قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔نقیب اللہ محسود قتل کیس کی نئی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں بھی گرفتار مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار پر رواں سال 13 جنوری کو جعلی پولیس مقابلے میں 4 افراد کے قتل کا الزام برقرار رکھا ہے۔ذرائع کے مطابق راؤ انوار سمیت 24 اہلکاروں پر دہشت گردی اور غیرقانونی اسلحے کے مقدمات میں تمام الزامات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے۔مقدمے کے تمام گواہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے نئے بیانات میں بھی پولیس پر قتل اور دہشت گردی کے الزامات برقرار رکھے ہیں۔ راؤ انوار کی پولیس ٹیم کے 3 گرفتار پولیس اہلکاروں نے بھی اپنے بیانات میں راو ئانوار پر الزامات کا اعادہ کیا ہے۔نئی جے آئی ٹی نے وقوعہ کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں پولیس پر عائد تمام الزامات کو مثبت قرار دیا تھا۔راؤ انوار اور ملزمان کے موبائل فونز کے کال ڈیٹا ریکارڈ کی چھان بین نے مزید شواہد فراہم کردیے تھے۔پولیس ذرائع کے مطابق سینٹرل جیل میں قید بعض ملزمان کے بیانات کی بھی دوبارہ تصدیق کی گئی ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ٹیم کے سامنے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی گفتگو، تحریری بیان اور سوالنامے کے جوابات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔جے آئی ٹی کے ذرائع کے مطابق کیس کے حوالے سے مختلف افواہیں پھیلائی جارہی ہیں،راؤ انوار کے خلاف نقیب قتل کیس کا مقدمہ انتہائی مضبوط ہے، اس بارے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔نقیب قتل کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 12 ملزمان گرفتار جبکہ 13 فرار ہیں۔نقیب قتل کیس کی شوٹر ٹیم کے رکن پولیس کانسٹیبل شکیل کو نئی جے آئی ٹی کی تحقیقات پر گرفتار کیا گیالیکن سندھ حکومت کے بااثر افراد کی مسلسل مداخلت اس پورے کیس کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہے،بظاہر لگ بھی ایسا رہا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں نقیب اللہ قتل کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے گا؟فی الحال اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 24 مئی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں