Imran Khan with Hasan Rohani

ایران امریکہ کشیدگی میں پاکستان کا کردار۔۔۔؟

برسوں پرانی یہ ضرب المثل ایک بار پھرپوری طرح سے درست ثابت ہوئی کہ دو سانڈوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہی ہوتا ہے۔بس بدقسمتی سے اس بار گھاس بننے کی سعادت یوکرینی طیارے میں محوپرواز176 مسافروں کے حصہ میں آئی۔یوں مریکہ ا ور ایران کی عسکری دھینگا مستی میں یہ بے چارے معصوم مسافر بغیر کسی جرم و سزاکے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یوکرینی طیارے میں بیٹھ کر اپنی اپنی منزل مقصود پر جانے والے یہ بے گناہ لوگ نہ تو امریکہ کے آلہ کار تھے اور نہ ہی ایران کے جاسوس۔بلکہ شاید اِن کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ اگر آخر امریکہ اور ایران کے بیچ جاری برسوں پرانی ”فرینڈلی دشمنی“ کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ بے شک ایران اپنے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالنے میں بالکل حق بجانب تھا اور قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام بھی لینابلاکسی اختلاف کے اُس کی بنیادی ذمہ داری بنتی تھی۔ لیکن قاسم سلیمانی کے قصاص کے طور پر 176 معصوم مسافروں کو غلطی سے ہی سہی اپنے ہولناک میزائل کا نشانہ بنا نا کس قسم کا انتقام ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایرانی میزائلوں نے مسافر بردار یوکرینی طیارے کو تو غلطی سے اپنا نشانہ کامیابی سے بنا لیا لیکن یہ ہی اِیرانی میزائل غلطی سے بھی اتنی گستاخی کے مرتکب نہ ہوسکے کہ امریکی تنصیبات پر تباہ کن قسم کے نقصانات کا باعث بن جاتے۔

ایران نے تاخیر سے ہی سہی بہرحال یوکرینی طیارہ مارگرانے کی تمام تر ذمہ داری قبول کرلی ہے مگر ایران کی جانب سے طیارہ حادثہ سے متعلق جس قسم کی وضاحتیں ادل بدل کر بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پیش کی جارہی ہیں،اُنہیں عالمی برادری تو خیر سے کیا تسلیم کرے گی۔خود ایران کے اپنے لوگوں کے لیئے بھی یہ بے معنی اور بے وقعت قسم کی تاویلیں قابلِ قبول نہیں ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ اِس وقت ایران میں یوکرینی طیارہ حادثہ کے اصل ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیئے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ بدستور جارہی ہے۔ایران میں ہونے والے مظاہروں میں عام ایرانیوں کی کثیر تعداد میں شرکت دیکھ کر تو یہ ہی لگتا ہے کہ فی الحال ایرانی عوام اپنے حکمرانوں کی کی کسی طفل تسلی، بہلاوے یا کسی دعوی پر یقین کرنے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں بلکہ اُن کا پہلا مطالبہ ہی یہ ہے کہ ایرانی عوام کو دھوکے میں رکھنے والے حکمرانوں کو فوری طور پر معزول کیا جائے۔یوکرینی طیارہ حادثے نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور وہ ایرانی عوام جو ایک ہفتہ قبل تک اپنے حکمرانوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر امریکہ کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئے تھے آج یکدم اپنے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن سے گزشتہ اعمال کا حساب مانگ رہے ہیں۔



سوچنے کی بات یہ ہے کہ صرف ایک ہفتہ کی مختصر مدت میں ایران اِس مقامِ عبرت تک کیسے آ پہنچا؟ کیا وہ ایران جو برسوں سے امریکہ کو خاک چٹانے کے بلند بانگ دعوے کرتا آیا ہے۔کیااَب بھی اُس کے لایعنی قسم کے دعووں پر من و عن یقین کرلیا جائے گا؟۔ یقینا اگر ایرانی افواج کی جانب سے اِس طرح کی عسکری غلطیوں کا مظاہرہ مستقبل قریب میں بھی برقرار رکھا جائے گا تو پھر کون پاگل ہے جو یہ اُمید پالے گا کہ ایران کبھی امریکہ کو ناکوں چنے چبوا سکے گا۔فی الحال ایران کی حالت تو ایسی ہے کہ للکارتا غیر کو ہے اور مارتا اپنے پڑوسی کو ہے۔ ایرانی حکمرانوں کو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ یوکرینی طیارہ حادثہ کے فوراً بعد چین اور روس نے بروقت مداخلت کر کے امریکہ کو ایران پر چڑھائی کرنے سے روک دیا وگر نہ اِس طرح کے عسکری بلنڈر کے بعد توامریکہ کو خطے میں کھل کر اپنا مذموم کھیل کھیلنے کا موقع مل ہی گیا تھا۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ ایران نے کبھی بھی اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچایابلکہ جب بھی نقصان پہنچایا ہے امریکہ کے ازلی دشمنوں کو ہی نقصان پہنچایا ہے۔ اِس بار بھی اگر ایران کی غلطیوں کا خمیازہ کسی کو بھگتنا پڑے گا تو وہ چین اور روس ہی ہوں گے ناکہ امریکہ اور اسرائیل۔

شاید اسی لیئے حفظِ ماتقدم کے طور پر چین اور روس مل کر پاکستان کی معاونت سے امریکہ اور ایران کے مابین جاری کشیدگی ختم کروانے میں اپنی بھرپور سعی کررہے ہیں کیونکہ چین اور روس بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ امریکہ اور ایران کی کشیدگی اگر کسی حتمی جنگ کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتی ہے تو پھر سارا نقصان اِن دونوں ممالک کی جاری تیز رفتار عسکری و معاشی ترقی کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔بلاشبہ اِس تناظر میں پاکستان کا کردار کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اِس خطے میں واحد پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کو معمول پر لانے میں خاطر خواہ حد تک کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن امریکہ اور ایران کے پیچیدہ معاملات کی گتھی کو سلجھاتے ہوئے پاکستان کو اپنے داخلی و بیرونی مفادات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ خاص طور پر سعودی عرب جیسے برادر اسلامی ملک کو اعتماد میں لیئے بغیر ایران کی سمت کوئی بھی قدم بڑھانا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیئے خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔امریکہ اور ایران کی کشیدگی میں پاکستان کا مکمل طور غیر جانب دار رہنا ہی سب سے بہتر خارجہ پالیسی ہوگی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 23 جنوری 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں