tayyab-erdogan-imran-khan

زبانِ پاکستان من ترکی۔۔۔۔!

ازرہِ مذاق ہی سہی بہرکیف،جب کبھی کوئی ہمیں یہ کہتا ہے کہ پاکستانیوں کے منہ میں ترکی زبان ہے تو یہ جملہ عین قرین قیاس سا لگتا ہے اور ہم مسکرا کر اِس جملہ کی معنی خیز حقیقت کی تصدیق کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے کیونکہ ہماری قومی زبان اُردو ہے اور بلاشبہ سب ہی جانتے ہیں کہ اُردو ترکی زبان کا ہی لفظ ہے۔ لیکن ترکی کے صدر طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان میں ایک نئی بات یہ منکشف ہوئی ہے کہ اگر ہم پاکستانیوں کے منہ میں ترکی زبان ہے تو ہزارشکر کہ ترکیوں کا لہجہ بھی پاکستانی ہے۔ اگر کسی کو ہماری اِس بات میں ذرہ برابر بھی شک محسوس ہو تو وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی اُس تقریر کو ایک بار پھر سے سُن لے جو انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے۔ یقینا ترکی کے صدر طیب اردوان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریر تو دنیا کی سرکاری زبان انگریزی میں کر رہے تھے لیکن اُن کا لہجہ بالکل پاکستانی تھا۔ بقول شاعر
میں زمانے کو بناتا تو زمانے بھر کو
تیری آنکھیں،تراچہرہ،ترا لہجہ دیتا
ایک لمحہ کو تو ایسا لگا تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں طیب اردوان نہیں بول رہے بلکہ پاکستانیوں کا کوئی مسیحا گفتگو فرما رہاہے۔ اِس تقریر میں مسئلہ کشمیر بھی تھا، مظلوم کشمیریوں کا نوحہ بھی،عالمِ اسلام کی حالتِ زار بھی اور اِس حالت کو مستقبل میں گل وگلزار بنانے کا ایک مکمل راستہ بھی۔جبکہ بین ال تقریر پاکستانیوں سے متعلق پایا جانے والا والہانہ جذبہ محبت کا اظہار بھی تھا اور عالمِ اسلام کو اتحاد کے لیئے صلائے عام بھی تھی نکتہ دانوں کے لیئے۔اس کے علاوہ طیب اردوان کے زورِ خطابت میں دشمنان اسلام اور پاکستان کو ایک کھلا چیلنج بھی تھا اور کوئی سمجھ سکا ہو تو ایک للکار بھی تھی۔ یقینا طیب اردوان کی یہ گفتگو ہمارے دشمنوں نے بھی خوب کان لگا کر سُنی ہو گی اور کچھ بعید نہیں اُنہیں طیب اردوان اور عمران خان کی تقریر یں سُن کر یہ خوف بھی لاحق ہوا ہو کہ کہیں اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا سویا ہوا شیر انگڑائی لے کر جاگ جانے کی تیاری تو نہیں کررہا۔

سچی با ت تو یہ ہے کہ آج کی اسلامی دنیا میں فقط تین ہی ایسے رہنما ہیں جن کے کہے گئے ایک ایک لفظ کو پوری توجہ،انہماک اور سنجیدگی سے سُنا جاتا ہے۔یعنی عالمِ اسلام میں مقبولیت کے لحاظ سے محمد طیب اردوان پہلے، ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد دوسرے اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان تیسرے نمبر پر شمار کیئے جاسکتے ہیں۔ جہاں تک رہی بات اسلامی دنیا کے باقی رہنما ؤں کی نام نہاد ساکھ اور مقبولیت کی تو بدقسمتی سے مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے دیگر باقی تمام رہنما الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو اپنا بھرپور اثرونفوذ رکھتے ہیں لیکن کسی مسلمان نوجوان کے قلب میں اُن کے متعلق کوئی خاص اچھے تاثرات نہیں پائے جاتے۔ گیلپ انٹرنیشنل سروے کے مطابق بھی اگر اسلامی سربراہانِ مملکت میں ترکی کے صدر طیب اردوان عالمِ اسلام میں بلحاظِ مقبولیت سرِ فہرست ہیں تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ طیب اردوان بہرحال اپنے قول اور فعل سے ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا رہنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی دو ایسے مسلمان رہنما ضرور ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ میں عالمی سیاست کے نقارخانے میں مظلوموں کے لیئے ایک توانا آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔



ترکی کے صدر طیب اردوان کا حالیہ دورہ پاکستان اِس لحاظ سے بھی کافی اہمیت کا حامل رہا ہے کہ یہ دورہ اُن مشکل ترین سفارتی حالات میں وقوع پذیر ہو ا، جب کہ ہمارے وزیراعظم پاکستان عمران خان ملائشیا میں ہونے والی کوالالمپور کانفرنس میں چند برادر اسلامی ممالک کی سیاسی دلجوئی کے لیئے شرکت کرنے سے قاصر رہے تھے۔ طیب اردوان کے حالیہ دورے سے اِس منفی تاثر کی بھی بھرپور انداز میں نفی ہوتی ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی عدم شرکت کے باعث پاکستان ترکی اور ملائشیا کے خارجہ تعلقات میں کوئی فاصلاتی لکیر پیدا ہوئی تھی۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں اسلامی سربراہی کانفرنس المعروف او آئی سی کے مکمل طورپر غیر فعال ہونے کے بعد ترکی،پاکستان اور ملائیشیا کی قیادت باہم مل مسلم ممالک پر مشتمل ایک ایسا نیا کثیر المقاصد اتحاد بنانے کے لیئے پھر سے کوشاں ہوگئی ہے کہ جس کے پلیٹ فارم سے کشمیر،روہنگیا، عراق،شام اور فلسطین کے مظلوم عوام پر عالمی استعماری طاقتوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف نہ صرف بھرپور آواز بلند کی جائے بلکہ دامے،ورمے سخنے اِن علاقوں میں رہائش پذیر مسلم آبادی کو قرار واقعی مدد و استعانت فراہم کرنے کا بندوبست بھی کیا جاسکے۔

دوسری جانب رجب طیب اردوان کے حالیہ دورہ میں پاکستان اور ترکی کے درمیان کئی مفید تجارتی معاہدوں اورمفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔جن کے تحت عسکری تربیت، ریلوے کی ترقی، سیاحت کے فروغ،خوراک میں خود کفالت،پوسٹل سروس میں بہتری سمیت دیگر بارہ اہم ترین شعبوں میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کرکام کرنے پر کامل اتفاق ہواہے۔جبکہ ترکی اور پاکستان کے درمیان جاری تجارتی حجم کو بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک کرنے جیسا اہم ترین فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔جبکہ خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ اسلام آباد اور انقرہ کی حکومتیں اپنے شہریوں کے لیے دہری شہریت فراہم کرنے کے ایک معاہدے پر بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں،یعنی دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں پاکستان اور ترکی کے شہریوں کے لیئے ایک دوسرے ملک کی شہریت لینا آسان ہوجائے گا۔شنید یہ ہی ہے کہ یہ تمام اقدامات اور فیصلے مستقبل میں ترکی اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات، معاشی،سماجی،سیاسی او ر علاقاجاتی ترقی میں اہم ترین سنگِ میل ثابت ہوں گے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 27 فروری 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

زبانِ پاکستان من ترکی۔۔۔۔!” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں