Trade Mark

ٹریڈ مارک کا حصول

ٹریڈ مارک انگریزی زبان کا لفظ ہے،جس کا ترجمہ اُردو زبان میں ”تجارتی علامت“ کے طورپر بھی کیا جاسکتاہے۔عام طور پر ایک ٹریڈ مارک کسی مخصوص لفظ،جملہ،علامت،شبیہ اور آواز پر مشتمل ہوسکتاہے۔ آج کی جدید دنیا میں تجارتی ادارے اور کمپنیاں ٹریڈ مارک کو اپنی بنائی گئی کسی مصنوعہ کی تجارتی انفرادیت کے جملہ حقوقِ ملکیت کو قانونی طور پر محفوظ بنانے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ٹریڈ مارک کی منظوری کے لیئے بین الاقوامی ٹریڈ مارک ایسوی ایشن نے کچھ رہنما قوائد و ضوابط ترتیب دیئے ہوئے ہیں، جن کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ملک میں قائم ایک مجاز ادارہ، تجارتی کمپنیوں کی جانب سے درخواست کیئے گئے ٹریڈ مارک اُن کے نام پر جاری کرنے یا نہ کرنے کاحتمی فیصلہ کرتاہے۔

یہ بھی پڑھیئے: فنگر پرنٹس سے بچیئے

تاریخ میں ٹریڈ مارک کے نفاذ سے متعلق اولین قانون سازی کا عمل ہنری سوئم کے دورِ حکومت میں 1266 میں منظور کیئے جانے کے شواہد ملتے ہیں۔ جس کے تحت ملک میں کام کرنے والے تمام بیکرز کو اپنی روٹی کی فروخت کے لیئے مخصوص ٹریڈ مارک حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔جبکہ دنیا کا پہلاجدیدٹریڈ مارک سسٹم کا قانون فرانسیسی حکومت نے 1857 میں منظور کیا تھا۔ بعدازاں 1938 میں اسی ٹریڈ مارک سسٹم کو کچھ تبدیلی اور تدوین کے مراحل سے گزارنے کے بعد برطانیہ میں ٹریڈ مارکس ایکٹ کے طورپر نافذ کردیا گیا اور تجارتی افراد اور اداروں کو ٹریڈ مارک کی رجسٹریشن کروانے کی سرکاری سطح پر عام اجازت دے دی گئی تاکہ اُن کے تجارتی سامان اور ادارے کی ساکھ کو تحفظ حاصل ہوسکے۔ابتداء میں ٹریڈ مارک رجسٹرڈ کروانے کا قانون تو موجود تھا لیکن کسی پرانے اور ناقابل استعمال ٹریڈ مارک کی رجسٹریشن منسوخی کا قانونی راستہ موجود نہیں تھا۔جس کی وجہ سے ہزاروں ایسے ٹریڈمارکس بھی جمع ہوگئے تھے،جنہیں متروک ہونے کے باوجود بھی کوئی دوسرا تجارتی ادارہ استعمال کے لیئے حاصل نہیں کرسکتاتھا۔ اس مسئلہ کے حل کے لیئے 1996 میں ٹریڈمارک قانون میں ترمیم کرکے 1997 میں پرانے ٹریڈ مارکس کی رجسٹریشن منسوخی کا ایک نیاطریقہ کاریا سہولت متعارف کروائی گئی۔تاکہ اگر تجارتی ادارے ضرورت محسوس کریں تو ماضی کے متروک اور ناقابلِ استعمال ٹریڈ مارک بھی باآسانی حاصل کرسکیں۔

عام طور پر سمجھا جاتاہے کہ ایک ٹریڈ مارک زبردست انفرادیت کا حامل ہونا چاہئے۔لہٰذا تجارتی اداروں کی جانب سے اپنی مصنوعات کے ٹریڈ مارک کو صارفین کے لیئے زیادہ سے زیادہ منفرد،انوکھا اور پرکشش بنانے کے لیئے مسابقتی کوششیں مسلسل جاری رہتی ہیں۔ کبھی کبھار یہ جدوجہد کاروباری افراد اور اداروں کو ایسے انوکھے ٹریڈ مارک کے حصول کی درخواست دائر کرنے پر مجبور کردیتی ہے کہ بعض اوقات تو ٹریڈ مارک کی منظوری دینے والے ذمہ داران بھی چکرا کر رہ جاتے ہیں کہ کیا ٹریڈ مارک اتنا عجیب و غریب بھی ہوسکتاہے؟۔ زیر نظر مضمون میں دنیا بھر کے تجارتی اداروں کی جانب سے چند ایسے ہی منفرد،انوکھے اور عجیب و غریب ٹریڈ مارک حاصل کرنے کے لیئے کی جانے والی دلچسپ کوششوں کا احوال پیش خدمت ہے۔

موٹرسائیکل انجن آواز
ہم جانتے ہیں کہ یہ سننے میں بہت عجیب لگتا ہے، لیکن بہرحال بین الاقوامی ٹریڈ ایسوی ایشن کے مطابق کسی مخصوص آواز کو ٹریڈ مارک کرنا بالکل ممکن ہے۔ مثال کے طورپر مشہور زمانہ ٹام اینڈجیری کارٹون پروگرام شروع ہونے سے پہلے ایم جی ایم شیر کی سنائی دینے والی دھاڑ ایک منظور شدہ رجسٹر ڈ ٹریڈ مارک ہے۔جسے ایم جی ایم کمپنی کے سوا کوئی دوسر ا تجارتی ادارہ استعمال نہیں کرسکتا۔لیکن ایک اور مشہور شور کی آواز جسے کئی برس تک مسلسل جانچ پڑتال کے بعد ٹریڈ مارک کے لیئے مسترد کردیا گیا تھا۔وہ موٹر سائیکل میں استعمال ہونے والی وی ٹوئن انجن کی آواز تھی۔ قصہ مختصر کچھ یوں ہے کہ موٹر سائیکل بنانے والی امریکی کمپنی ہارلے ڈیوڈسن انکارپوریٹڈ کے مالک ہارلے ڈیوڈسن نے سوچا کہ اگر وہ اپنی تیارکردہ موٹر سائیکل میں نصب وی ٹوئن انجن کی آواز کا ٹریڈ مارک حاصل کرلیں تو اس طرح سے نہ صرف اُن کی تیارہ کردہ موٹر سائیکل کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوگا بلکہ یہ ٹریڈ مارک اُن کی کمپنی کی انفرادیت کو بھی چار چاند لگادے گا۔ یہ سوچ کر ہارلے ڈیوڈسن نے امریکی پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک آفس میں وی ٹوئن انجن کی آواز کا ٹریڈ مارک رجسٹر ڈ کروانے کی درخواست دائر کردی۔ جس کے جواب میں امریکی پیٹنٹ آفس کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اُنہیں وی ٹوئن انجن کی آواز آلات موسیقی کی مدد سے سنائی جائے تاکہ وہ انجن کے شور کو دوسری موٹرسائیکل کے انجن کے شور کے مقابلہ میں جانچ سکیں۔ ہارلے ڈیوڈسن نے وی ٹوئن انجن کی آواز کو مختلف سازندوں کی مدد سے امریکی پیٹنٹ آفس کے سامنے واضح کرنے کی بے حد کوشش کی اوراس لاحاصل جدوجہد میں اُس کے کئی قیمتی برس اور لاکھوں ڈالر بھی خرچ ہوگئے۔لیکن ہارلے ڈیوڈسن امریکی پیٹنٹ آفس کے جملہ ذمہ داران کے سامنے انجن کے شور کے فرق کو کسی طور واضح نہ کرسکا۔ تاہم جب اُسے اس بات کا کامل یقین ہوگیا کہ اُس کا درخواست کردہ ٹریڈ مارک رجسٹرڈ نہیں ہوسکتا تو اُس نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جون 2000 میں وی ٹوئن انجن کی آواز کا ٹریڈ مارک حاصل کرنے کی اپنی درخواست خود ہی واپس لے لی۔ اس حوالے سے امریکی پیٹنٹ آفس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ”ہارلے ڈیوڈسن کی جانب سے ٹریڈ مارک حاصل کرنے کے لیئے لاکھوں ڈالر اور اپنا بہت سا قیمتی وقت صرف کرنا قابلِ ستائش سہی لیکن اُس کا ٹریڈ مارک لازمی مسترد ہی ہونا تھا کیونکہ ہم اپنی بھرپور کوشش کے باوجود اس کے ٹریڈ مارک کو سمجھ ہی نہ سکے تھے“۔

خوشبو بکھیرتا ٹریڈمارک
ایڈن سرل،گھریلو مصنوعات تیار کرنے والی فرانس کی ایک بڑی کمپنی ہے۔جو اپنے صارفین کے لیئے صابن، کریم، واشنگ پاؤڈر سمیت کم و بیش دو درجن سے زائد دیگر اشیاء تیار کرتی ہے۔ 2005 میں ایڈن سرل نے اسٹرابیری کی خوشبو والا ایک نیا بیوٹی صابن متعارف کروانے کا پروگرام بنایا۔ ایڈن سرل نے مذکورہ صابن میں استعمال ہونے والی اسٹرابیری کی خوشبو کا ٹریڈ مارک کے حصول کے لیئے یورپی یونین ٹریڈ مارک ایجنسی کو درخواست دے دی۔ جسے ابتدائی مرحلہ پر ہی مسترد کردیا گیا۔جس کی جواب میں ایڈن سر ل کمپنی نے اسٹرابیری کا ٹریڈمارک حاصل کرنے کے لیئے یورپین یونین کی عدالت میں یورپی یونین ٹریڈمارک ایجنسی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ تمام اقسام کی اسٹرابیری کی خوشبو ایک جیسی ہوتی ہے۔لہٰذا اسٹرابیری کی خوشبو کا قانونی ٹریڈ مارک ان کی تیار کی گئی مصنوعہ یعنی صابن کے نام پر رجسٹرڈ کیا جاسکتاہے۔یورپین یونین کی عدالت نے ایڈن سرل کمپنی کی جانب سے اختیار کئے گئے قانونی موقف پر رہنمائی کے لیئے فرانس کے ماہرین زراعت کو طلب کرلیا اور اُن سے اسٹرابیری کی خوشبو پر اپنا تحقیقی موقف عدالت کے روبرو پیش کرنے کو کہا۔ ماہرین زراعت نے اسٹرابیری کی خوشبو سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی،جس میں نہایت صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ ”اسٹرابیری میں پانچ مختلف اقسام کی خوشبوئیں پائی جاتی ہے“۔اس رپورٹ میں بیان کئے گئے حقائق کی بنیاد پر یورپین یونین کی عدالت نے ایڈن سرل کی دائر کردہ درخواست خارج کردی اور یورپین یونین ٹریڈ مارک ایجنسی کے اسٹرابیری کی خوشبوکا ٹریڈ مارک مسترد کرنے کے فیصلہ کی قانونی توثیق کردی۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ فرانس میں یہ پہلا موقع نہیں تھاکہ جب کسی تجارتی ادارے نے خوشبو کے ٹریڈ مارک کے حصول کے لیئے درخواست دائر کی ہو۔اس سے قبل رسبری،لیموں اور ونیلاکی خوشبو کے ٹریڈ مارک کے لئے درخواستیں دی جاچکی ہیں،جو سب کی سب مسترد کردی گئیں تھیں۔ تاہم،یورپین یونین ٹریڈ مارک ایجنسی نے ایک ڈچ پرفیوم بنانے والی کمپنی کو تازہ کٹے گھاس کی خوشبو کا ٹریڈ مارک جاری کردیا تھا۔

تمہیں نکال رہے ہیں (You’re Fired)
نجی اداروں میں ملازمین کو اکثر وبیشتر You’re Fired یعنی”تمہیں نکال رہے ہیں“ کا جملہ سننے کو ملتا ہی رہتاہے۔ بظاہر اس جملہ کا تجارتی ادارے اور کاروباری سرگرمی سے کسی بھی قسم کا کوئی براہ راست تعلق سمجھ میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود 2004 میں حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے You’re Fired کے فقرے کو بطور ٹریڈ مارک اپنے نام رجسٹر ڈ کروانے کے لیئے امریکی پیٹنٹ اینڈ ٹریڈمارک آفس میں باقاعدہ ایک درخواست جمع کروائی تھی۔ جس میں جناب ٹرمپ کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ”اگرچہ یہ جملہ انہوں نے ایجاد نہیں کیا ہے،لیکن چونکہ وہ اپنے مشہور و معروف ٹی وی شو ”دی اپرینٹائس“ کی میزبانی کرتے ہوئے اپنے مہمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے بار بار You’re Fired کا جملہ استعمال کرتے ہیں۔جو کہ اَب ان کی اور ان کے شو کی امریکا بھر میں ایک پہچان بن چکا ہے۔لہٰذا You’re Fired کا ٹریڈ مارک اُنہیں رجسٹرڈ کردیا جائے“۔واضح رہے کہ این بی سی چینل پر ہرہفتے براہ راست نشر ہونے والا ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ تفریحی پروگرام 20 ملین سے زائد افراد ملاحظہ کرتے تھے اور اس پروگرام میں شامل حاضرین کو ٹرمپ بطور میزبان مختلف طرح کے کھیل کھیلنے کی ترغیب دیتے تھے۔ نیز کھیل جیتنے والوں کو قیمتی تحائف بھی بطور انعام دیتے تھے جبکہ ہارنے والوں کو You’re Fired کہہ کر اپنا پروگرام سے نکل جانے کا کہہ دیتے تھے۔

حسن اتفاق ملاحظہ ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک ہی وقت میں تین دیگر افراد نے بھی اس فقرہ کو بطور ٹریڈ مارک حاصل کرنے کی درخواست کی تھی لیکن امریکی پیٹنٹ اینڈ ٹریڈمارک آفس نے کسی بھی درخواست دہندہ کو یہ فقرہ بطورٹریڈ مارک جاری کرنے سے صاف انکار کردیا کیونکہ یہ جملہ You’re hired سے بہت ملتاجلتالگتا ہے۔جسے فرینکلن لرننگ نے پہلے ہی سے اپنے تعلیمی بورڈ گیم کے لیئے ٹریڈ مارک کے طور پر رجسٹر ڈ کروایا ہوا تھا۔ جبکہ You’re Fired کے مسترد ہونے سے سوسن برینر نامی ایک چھوٹے سے مقامی تاجر کو بھی کاروباری طور پر بہت فائدہ ہوا جو کہ You’re Fired کے کاروباری نام کے تحت مٹی کے برتن بنانے کا کاروبار کررہا تھا۔

ارغوانی (Pruple) ٹریڈمارک
رنگوں کے خاندان میں ارغوانی یعنی Purple رنگ کے 50 سے زائد مختلف اقسام یا شیڈز پائے جاتے ہیں۔جن میں سے ہر شیڈ کے لیئے ماہرین نے مخصوص کوڈ اور نام بھی رکھا ہوا ہے۔نیز ارغوانی رنگ کو شاہی رنگ بھی مانا جاتا ہے کیونکہ پرانے وقتوں میں جب لوگ مختلف چیزوں کو رنگنے کیلئے قدرتی رنگ استعمال کیا کرتے تھے تو ارغوانی رنگ صرف سمندری گھونگوں سے حاصل کیا جاتا تھا اور اسے نکالنا بہت مشکل تھا۔جبکہ اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہوتی تھی۔اس لئے صرف شاہی لوگ ہی اسے خریدنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔نیز ارغوانی رنگ کوانتہائی پرکشش بھی خیال کیا جاتاہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ارغوانی رنگ برسوں سے مختلف تجارتی مصنوعات کی منفرد شناخت قائم رکھنے کے لیئے بھی استعمال ہوتا آرہاہے۔ چاکلیٹ تیار کرنے والی دنیا کی معروف کمپنی کیڈبری بیسوسی صدی کے آغاز سے ہی اپنی چاکلیٹ ڈیری ملک کے لیئے ارغوانی (Pruple) رنگ کے ریپر استعمال کرتی آرہی ہے اور کیڈ بری کمپنی کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ وہ ارغوانی (Pruple) رنگ کا ٹریڈ مارک اپنے نام رجسٹرڈ کروالے،تاکہ اس کا کوئی اور کاروباری حریف اس رنگ کو مستقبل میں استعمال نہ کرسکے۔

اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے کیڈبری کمپنی نے 2008 میں ارغوانی (Pruple) رنگ کو بطور ٹریڈ مارک حاصل کرنے کے لیئے ایک درخواست بھی دائر کردی تھی۔اس درخواست کے مندرجات کے مطابق کیڈبری ارغوانی (Pruple) رنگ کے تمام شیڈز بطور ٹریڈ مارک حاصل کرنا نہیں چاہتی تھی، بلکہ وہ صرف، پینٹون 2865c ارغوانی (Pruple) رنگ کے شیڈ کے حصول میں دلچسپی رکھتی تھی کیونکہ یہ ہی وہ مخصوص شیڈ ہے،جسے کیڈبری،اپنی مصنوعہ ڈیری ملک میں بطور ریپر استعمال کرتی ہے۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ کیڈبری کو ارغوانی (Pruple) کا ٹریڈ مارک استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی لیکن اس فیصلہ کے چند روز بعد ہی غذائی مصنوعات تیار کرنے والے ایک اور معروف کمپنی نیسلے نے کیڈبری کی اس درخواست کے خلاف عدالت سے رجوع کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ارغوانی (Pruple) رنگ اس لیئے کسی ایک تجارتی ادارہ کے نام پر رجسٹر ڈ نہیں کیا جاسکتا کہ اس رنگ کو دنیا کے بے شمار تجارتی ادارے پہلے ہی سے استعمال کررہے ہیں۔ عدالت نے نیسلے کی جانب سے پیش کیئے جانے والے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے کیڈبری سے ارغوانی (Pruple) رنگ بطور ٹریڈ مارک استعمال کرنے سے روکتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ”کیڈ بری ارغوانی (Pruple) رنگ بطور ٹریڈ مارک حاصل کرنے کے بنیادی قوائد و ضوابط پر پورا نہیں اُترتا لہٰذااس ٹریڈ مارک کا اجراء منسوخ کیا جاتاہے۔ یوں ارغوانی (Pruple) رنگ ٹریڈ مارک بنتے بنتے بال بال بچ گیا۔

ٹریڈ مارک کے لٹیرے
ٹریڈ مارک کی تجارتی اہمیت کو سمجھنے والے بعض بد طینت افراد اس سہولت کو انتہائی مہارت اور چالاکی سے کاروباری اداروں سے دھوکہ دہی اورمال ہتھیانے کے لیئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو ”ٹریڈ مارک ٹرول“ یعنی ٹریڈ مارک کے لٹیرے بھی کہا جاتاہے۔ ان دھوکہ باز افراد کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ یہ افراد بے شمار کاغذی یا جعلی کاروباری ادارے قائم کرکے اُن کے نام پر معروف قسم کے ٹریڈ مارک رجسٹرڈ کروالیتے ہیں اور پھر جو معروف تجارتی ادارے کسی نہ کسی سطح پر ان ٹریڈمارک کو پہلے سے استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ یہ افراد انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے کر بلیک میل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بدقسمتی سے زیادہ تر تجارتی ادارے قانونی مقدمہ بازی سے بچنے اور اپنی مصنوعات کو تنازعہ سے محفوظ بنانے کے لیے ان سے بلیک میل ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ان سے ٹریڈ مارک منہ مانگی قیمت کے عوض خرید لیتے ہیں۔ایسا ہی ایک بدنام زمانہ ٹریڈ مارک لٹیرا ”لیو اسٹولر“ بھی ہے۔ جو اَب تک ٹریڈ مارک کے نام پر معروف ترین کاروباری اداروں سے کروڑوں ڈالر اینٹھ چکا ہے۔ حیران کن طور پر لیو اسٹولر دنیا کی سب سے بڑی ٹیک کمپنی گوگل کو بھی لفظ گوگل کے ٹریڈ مارک کے نام سے بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کرچکا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں اسٹولر نے 2005 میں ”اسٹیلتھ“ Stealthکا ٹریڈ مارک حاصل کرکے جنگی جہاز اور دیگر عسکری سازو سامان تیار کرنے والی دنیا کی دو معروف ترین ایرواسپیس اور ڈیفنس کارپوریشن،نارتر وپ گرومین اور پیور فشینگ کو بھی ”اسٹیلتھ“ کا لفظ استعمال کرنے پر اُن پر مقدمہ چلانے کی دھمکی دیتے ہوئے،اُن سے لاکھوں ڈالر ز کا تقاضا کیا تھا۔ نیز دنیا کی بڑی فلم ساز کمپنی کولمبیا پکچرز سے بھی اسٹیلتھ کے نام سے ایک فلم بنانے پر لاکھوں ڈالر ز ادائیگی کا مطالبہ کیا۔

کولمبیا پکچرز تو لیواسٹولر کے ساتھ اس معاملہ پر عدالت سے باہر بات چیت کرنے اور اُسے منہ مانگی ادائیگی کرنے پر رضا مند ہوگئی تھی لیکن دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی کمپنی پیور فشنگ اسٹولر کو کو عدالت لے گئی اور عدالت سے مطالبہ کیا کہ اُنہیں لیو اسٹولر کی کاروباری بلیک میلنگ سے تحفظ فراہم کیا جائے۔عدالت نے اسٹولر سے اسٹیلتھ ٹریڈ مارک حاصل کرنے کی تفصیلات طلب کیں تو اُس نے دعوی کیا وہ اپنے کاروبار میں 1981 سے اسٹیلتھ کا ٹریڈ مارک استعمال کررہاہے۔ حالانکہ امریکی ٹریڈ مارک اینڈ پیٹنٹ آفس کے ریکارڈ میں اسٹیلتھ ٹریڈ مارک کا ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ یہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد اسٹولر کو احساس ہوا کہ وہ یہ مقدمہ ہار جائے گا تو اُس نے بڑے جرمانے سے بچنے کے لیئے اپنے دیوالیہ پن کا اعلان کردیا۔ لیکن جج نے جب اس کے دیوالیہ پن کی تفصیلات کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ یہ سب دستاویزات جعلی اورسراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔جس کے بعد عدالت نے اسٹولر کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے اُس کے تمام کاروبار اور اثاثے ضبط کرنے اور اس کے آئندہ ٹریڈ مارک کے لیئے درخواست عائد کرنے پر پابندی عائدکردی۔

لیکن لیو اسٹولر ہار ماننے والا کہاں تھا،اُس نے 2010 میں اپنے رشتہ دار کے نام پر ایک بوگس کاروبار، کرسٹوفر اسٹولر پنشن اور منافع شیئرنگ پلان کے نام کا استعمال کرتے ہوئے ”اسٹیلتھ” ٹریڈ مارک دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔مگر اس درخواست میں وہ اپنا ذاتی ای میل درج کرنے کی غلطی کر بیٹھا لہٰذا فوراً ہی پکڑا گیا اور اس کی درخواست مسترد کرکے اس پر بھاری جرمانہ عائد کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: 272 جی بی آن لائن یو ایس بی ڈرائیوحاصل کریں۔۔۔ بالکل مفت

ایس ای اوSEO
کوئی بھی ایسا شخص جو بلاگ یا ویب سائٹ کا مالک ہے۔وہ سرچ انجن آپٹیمائزیشن (SEO) سے ضرور واقف ہوگا۔دراصل ایس ای او انٹرنیٹ پر موجود ایسی خود کار سہولت کانام ہے،جس کی مدد سے آپ سے اپنی ویب سائٹ یا بلاگ کو بالکل مفت میں مقبولیت کے آسمان پر پہنچاسکتے ہیں۔ اگر آج ایس ای او کی سہولت بالکل مفت میں دستیاب ہے تو اس کے لیئے آپ کو سارہ برڈ کا شکر گزار ہونا چاہئے،جن کی وجہ سے ہمیں ایس ای او کے نام کو استعمال کرتے ہوئے کسی چالاک انٹرنیٹ مارکیٹر کو بھاری رقم کی ادائیگی نہیں کرنا پڑتی۔ یہ اپریل 2008 کی بات ہے کہ سارہ برڈ اپنی کمپنی کے ایک لوگو کا ٹریڈ مارک حاصل کرنے کے لیئے انٹرنیٹ پر ضروری معلومات تلاش کررہی تھی کہ اچانک اس کے علم میں آیا کہ ایک انٹرنیٹ مارکیٹر جیسن گامبرٹ ایس ای او کا ٹریڈ مارک اپنے نام پر رجسٹر ڈ کروانے کی لیئے درخواست دائر کرچکا ہے۔
یادرہے کہ جیسن گامبرٹ نے مئی 2007 میں ایس ای او کے ٹریڈ مارک کے لیئے درخواست دی تھی اور اُس کی درخواست تما م ضروری مراحل طے کرنے کے بعد منظور ی کے آخری مرحلہ میں تھی۔ اس مرحلہ پر کوئی بھی شخص یا ادارہ ٹریڈ مارک کے اجراء پر اپنا اعتراض دائر کرسکتا تھا،اعتراض کی مدت کے فقط دو دن ہی باقی بچے تھے۔جس کے گزرنے کے بعد قانونی طور پر ازخود ہی ایس ای او کا ٹریڈ مارک گامبرٹ کے نام پر رجسٹر ہوجاتا۔سارہ برڈ نے ایس ای او کے ٹریڈ مارک کا اجراء روکنے کے لیئے بلاتاخیر اپنا اعتراض دائر کردیا۔سارہ برڈ نے موقف اختیار کیا کہ ایس ای او کے ٹریڈ مارک کسی ایک شخص کو جاری ہو جانے سے بلاگرز اور ویب سائٹ مالکان کو اپنی ویب سائٹ کا وجود انٹرنیٹ پر قائم رکھنے کے لیئے کثیر سرمایہ خرچ کرنا لازم ہوجائے گا۔ جس کی وجہ سے مختلف سماجی،علمی اور تحقیقی مواد پر بلاگ اور ویب سائٹ بنانے والوں کو سخت دشواری کا سامنا ہوسکتاہے۔ لہٰذا مفاد عامہ کے پیش نظر ایس ای او کا ٹریڈ مارک جاری کرنے پر ہمیشہ کے لیئے پابندی عائد کردی جائے۔ مارچ 2010 میں سارہ برڈ کی درخواست منظور کرلی گئی اور جیسن گامبرٹ کو ایس ای او کا ٹریڈ مارک جاری کرنے سے انکار کردیا گیا۔جبکہ مستقبل میں بھی لفظ ایس ای او کے لیئے ٹریڈ مارک کے حصول کی درخواست دائر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ سارہ برڈ کی بروقت دانش مندی سے آج دنیائے انٹرنیٹ پر لاکھوں افراد ایس ای او کی مفت سہولت سے مستفید ہورہے ہیں۔

کھانا پکانے کی تراکیب
جزیدہ پورٹو ریکو سے تعلق رکھنے والے نوربرٹو کرنل عرصہ دراز سے ایک ریسٹورنٹ ”چرچ چکن“ میں بطور شیف ملازمت کرتا تھا۔ 1987 میں نوربرٹو کرنل نے ریسٹورنٹ میں آنے والے گاہکوں کے لیئے اپنی ایجاد کردہ ایک خاص ترکیب سے تیارہ کردہ ایک خوش ذائقہ چکن سینڈوچ کو متعارف کروایا،جس کا نام اس نے ”پیچو سینڈوچ“ رکھا، مقامی زبان میں جس کا مطلب ”مرغ کے سینے سے تیارہ کردہ سینڈوچ“ ہے۔ نور برٹو کرنل کا تیارہ کردہ پیچوسینڈوچ اپنے منفرد ذائقہ کے باعث چرچ چکن کی پہچان بن گیا اور 1991 میں چرچ چکن نے اپنے ریسٹورنٹ کو فقط پیچو سینڈوچ کی فروخت تک ہی محدود کرلیا۔ پیچو سینڈوچ کی غیر معمولی فروخت اور شہر ت کو دیکھتے ہوئے نور برٹو نے2012 میں چرچ چکن ریسٹورنٹ کے مالک کے خلاف 10 ملین ڈالر کے ہرجانہ کا مقدمہ دائر کردیا۔ جس میں اُس نے دعوی کیا کہ وہ پیچو سینڈوچ نسخہ کے ٹریڈ مارک کا اصل مالک ہے اور چرچ چکن نے اسے کبھی کوئی رائلٹی ادا نہیں کی۔یہ قانونی جنگ کئی برس جاری رہی اور بالآخر عدالت نے یہ کیس 2015 میں خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ”کسی کھانا پکانے کی ترکیب کو ٹریڈ مارک کرنا کم وبیش ناممکن ہے۔لہٰذا نوبرٹو کرنل پیچو سینڈوچ کا ٹریڈ مارک رکھنے کا دعوی نہیں کرسکتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ٹریڈ مارک ایسوسی ایشن کے قوانین کے مطابق کھانا پکانے کی ترکیب کا ٹریڈ مارک حاصل کیا جاسکتاہے لیکن کھانا پکانے کی ترکیب کا ٹریڈ مارک کامیابی کے ساتھ اپنے نام پر رجسٹرڈ کروانے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ کھاناپکانے کی وہ ترکیب منفرد ہونی چاہئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی ایسے کھانے کی ترکیب نہیں ہونی چاہئے جس سے سے عوام پہلے سے واقف ہوں۔عام طور پر کسی بھی ادارہ یا فرد کے لیئے اس شرط پر پورا اُتر پاناتقریباً ناممکن ہی ہے۔شاید ہی وجہ ہے کہ بڑے ادارے اپنی منفرد تراکیب کا ٹریڈ مارک حاصل کرنے کے بجائے اُسے اپنے کاروباری حریفوں سے رازداری میں رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ کسی ترکیب کو طویل عرصہ تک رازداری میں رکھ پانا سہل نہیں ہے مگر اس کے باوجود دنیا کے نامور کاروباری ادارے اپنی تراکیب خفیہ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔جیسے کوکا کولااور کے ایف سی جن کی تراکیب سے برسہا برس گزرنے کے بعد بھی آج تک کوئی واقف نہیں ہوسکا ہے۔

یہ بھی ضرور پڑھیں: اِک گرم چائے کی پیالی ہو۔۔۔

ٹریڈ مارک اور ٹوئٹ
لفظ ٹویٹ (Tweet) سنتے اور پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں بھی یقینا سب سے پہلے سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ ٹوئٹر کا ہی خیال آتا ہوگا۔ کیونکہ لفظ ٹویٹ،ٹوئٹر کی پہچان ہے جبکہ ٹوئٹر ویب سائٹ کی شناخت ٹوئٹ سے باآسانی کی جاسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اربوں ڈالر کے اثاثے رکھنے والی ٹیک کمپنی ٹوئٹر لفظ ”ٹویٹ“ پر حقِ ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتی اور ایسا صرف اس لیئے ہے کہ ٹوئٹر نے لفظ ”ٹوئٹ“ کو بطور ٹریڈ مارک حاصل کرنے میں غیر ضروری تساہل اور تاخیر سے کام لیا۔ یاد رہے کہ ٹوئٹر 2006 میں قائم ہوئی تھی لیکن ٹوئٹر نے 2016 میں لفظ ”ٹوئٹ“ کا ٹریڈ مارک حاصل کرنے کے لیئے درخواست دائر کی۔ ٹریڈ مارک آفس نے ٹوئٹر درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ”ٹوئٹر کمپنی کی درخواست موصول ہونے سے بہت پہلے2008 میں Twittad نامی ایک کمپنی اس لفظ کا ٹریڈ مارک“Let Your Ad Meet Tweets” کے فقرہ کی صورت میں اپنے نام پر رجسٹر کرواچکی ہے“۔ لطیفہ ملاحظہ ہو کہ Twittad ایک اشتہاری کمپنی ہے۔جس کا وجود بھی ٹوئٹر کا ہی مرہون منت ہے کیونکہ یہ کمپنی اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی ٹوئٹر کی اشتہاری مہم چلانے کے لیئے اپنی خدمات فراہم کررہی ہے۔ٹوئٹر نے اپنی درخواست مسترد ہونے کے بعد Twittad کی انتظامیہ سے رابطہ کیا کہ وہ اسے لفظ ٹوئٹ کا ٹریڈ مارک،منہ مانگی قیمت پر فروخت کردے لیکن Twittad کمپنی کے منتظمین نے ٹوئٹر کی پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرادی کہ ”ہم کسی بھی صورت نہ تو اپنا ٹریڈمارک فروخت کریں گے اور نہ اس سے دستبردار ہوں“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 08 نومبر 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں