Shireen Abu Akleh

صحافی شیریں ابو عاقلہ کا اسرائیل میں بہیمانہ قتل

رواں برس ماہ مئی میں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابوعاقلہ کو سفاک اسرائیلی فوج نے کیوں اور کس لیئے قتل کیا تھا، یہ بحث قطعی بے معنی اور فضول ہے۔ کیونکہ ساری دنیا واقف ہے کہ ارضِ فلسطین پر قابض نام نہاد یہودی ریاست کے ظالم حکمران، فلسطینی عوام کے اذہان کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

لہٰذا، اسرائیلی ظلم و بربریت کے تاریخی تناظر میں محض اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ جو اسرائیلی افواج لاکھوں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے سے نہیں ذرا نہیں گھبراتی،بھلا،اس کے نزدیک ایک نہتی اور معصوم صحافی، شیریں ابوعاقلہ کی جان لینا کیا مشکل کام تھا۔یہاں سب سے زیادہ حیرت تو واحد عالمی طاقت امریکا کے رویے پر ہوتی ہے۔یاد رہے کہ ڈیموکریٹک امریکی صدر،جوبائیڈن جو ایک طرف تو دنیا بھر میں اپنے آپ کو انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے چمپئن کے طور پیش کرتے نہیں تھکتے،لیکن، دوسری طرف، ایک خاتون صحافی کے بہیمانہ قتل پر اسرائیلی حکومت سے باز پرس کرنے کی زحمت بھی گوار ا نہیں کرسکتے۔

رواں ہفتہ،عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے باضابطہ طور پر اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ ماہ مئی میں فلسطینی نژاد امریکی صحافی،شیریں ابو عاقلہ کو قتل کرنے والا شخص،کوئی عسکریت پسند فلسطینی نہیں بلکہ ایک اسرائیلی فوجی تھا۔نیز، اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ ”قوی امکان ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے مشتبہ فلسطینی مسلح شخص کی جانب گولی چلائی گئی ہو اور وہ حادثاتی طور پر شیریں ابو عاقلہ کو جا لگی ہو۔

جبکہ اس بات کا واضح طورپر تعین نہیں کیا جا سکتا کہ صحافی، شیریں ابوعاقلہ کس اسرائیلی فوجی کی گولی سے مریں تھیں،لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ صحافی کو اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے فوجی نے غلطی سے ہلاک کردیا ہو،جو خاتون کی شناخت بطور صحافی نہیں کرپایا تھا۔ کیونکہ اسرائیلی فوجی جہاں موجود تھے وہاں شدید فائرنگ ہورہی تھی اور انہوں نے صحافی شیریں ابو عاقلہ کو ایک فلسطینی جنگجو خاتون سمجھ کر اُس پر گولیاں چلا دی تھی۔یعنی جب اسرائیلی فوجیوں نے،شیریں ابوعاقلہ پر گولی چلائی تو، وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک صحافی ہے، اسرائیلی فوجی اپنی دانست میں اپنے اوپر فائرنگ کرنے والے دہشت گردوں پر جوابی فائر کررہے ہیں“۔

سادہ الفاظ میں اسرائیلی تحقیقاتی رپورٹ کا لب لباب بس یہ بنتاہے کہ ”اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی نژاد امریکی صحافی،شیریں ابو عاقلہ کو قتل کرنے کا اقدام جان بوجھ کر نہیں کیا،اس لیئے اس پر صرف افسوس کے علاوہ، کوئی دوسری کاروائی نہیں بنتی“۔واضح رہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب جاری ہونے والی مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے۔کیونکہ خاتون صحافی، شیریں ابو عاقلہ کی ہلاکت کے وقت سامنے آنے والے ویڈیو شواہد اس دعوے کی توثیق نہیں کرتے کہ اس جگہ پر فلسطینی حریت پسندوں کی جانب سے فائرنگ کی جا رہی تھی جہاں عام شہری اور صحافی جمع ہوئے تھے۔اسرائیلی فوجی اس جگہ سے تقریباً 200 میٹر دور تھے اور اس دوران فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی منٹ تک اس علاقے پر مسلسل فائرنگ کی گئی جہاں صحافی چل رہے تھے۔

علاوہ ازیں،رواں سال جون میں مکمل ہونے والی اقوامِ متحدہ کی تحقیقات میں واضح طور قراد دیا گیا تھا کہ”جب صحافی، شیریں ابو عاقلہ کو گولی ماری گئی اس وقت وہاں کسی مسلح فلسطینی کی موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے“۔ نیز11 مئی کو جب صحافی شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج کی جانب سے گولی مار کر قتل کیا تھا تو اُس وقت انہوں نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور ایک بُلٹ پروف جیکٹ بھی پہن رکھی تھی جس پر واضع طور پر”پریس“لکھا ہوا تھا۔ یعنی اسرائیل حکام کی جاری کردہ رپورٹ میں درج اِس بات کی بھی سختی کے ساتھ نفی ہوجاتی ہے کہ اسرائیلی افواج کے سفاک سپاہی نہیں جانتے تھے کہ وہ جس پر خاتون پر اندھا دھند فائرنگ کررہے ہیں، وہ ایک صحافی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شیریں ابو عاقلہ کے بھائی ٹونی نے عالمی ذرائع ابلاغ کو ماہ جولائی میں ہی واضح طو پر یہ کہہ چکے تھے کہ ”ان کی بہن کا قتل دراصل ماورائے عدالت قتل ہے اور ہم خاندان والے چاہتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری راہ راست اسرائیلی فوجیوں پر عائد کی جائے۔جبکہ ہم اپنی بہن کی ہلاکت کے چند گھنٹوں کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے اُڑائی گئی اِس افواہ کو بھی مسترد کرتے ہیں جس کے تحت ہماری بہن کے قتل کا الزام،ایک فلسطینی اسلحہ بردار شخص پر عائد کیا گیا تھا“۔بہرکیف بعدازاں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے پوسٹ مارٹم اور گولی کا جائزہ لینے کے بعد کی گئی انکوائری میں بھی یہ ہی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ شیریں ابو عاقلہ کے سر میں لگنے والی گولی اسرائیلی ساختہ ہے اور اسرائیلی قابض فورسز کے زیر استعمال تھی۔

واضح رہے کہ فلسطینی نژاد امریکی صحافی، شیریں ابو عاقلہ رواں برس 11 مئی کو جنین پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج کے چھاپے کی کوریج کے لیے آئی تھیں۔ اسی دوران مبینہ طور پر اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔انھوں نے اس دوران ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور ایک نیلی فلیک جیکٹ بھی جس پر واضح طور پر ”پریس“درج تھا۔جبکہ تمام عینی شاہدین اور فلسطینی حکام نے بھی یہ ہی موقف اختیار کیا تھا کہ خاتون صحافی کو جان بوجھ کر اسرائیلی فوجیوں نے ہلاک کیا ہے اور اس دعوے کی تصدیق اقوامِ متحدہ اور متعدد میڈیا ادارے بھی اپنی اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں پہلے ہی کرچکے ہیں۔ مگر یہاں اسرائیلی حکام کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہوکہ انہوں نے یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ساری دنیا کے سامنے اظہر من الشمس ہے اسرائیلی فوجیوں بھی سے کسی فوجی نے صحافی شیریں ابوعاقلہ کو جان بوجھ کر گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے اپنی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں خاتون صحافی کے قتل کو ایک حادثاتی موت قرار دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔

دوسری جانب فلسطینی نژاد صحافی،شیریں ابو عاقلہ کے خاندان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ”انھیں بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی کہ اسرائیلی افواج نے اپنی نام نہاد تحقیقاتی رپورٹ میں سچ چھپانے اور شیریں ابوعاقلہ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔لیکن ہم اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے،عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں شیریں ابو عاقلہ کے قاتل اسرائیلی فوجیوں کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزادلوائے۔

کیونکہ اسرائیلی رپورٹ کے ملاحظہ کے بعد پوری دنیا پر اچھی طرح سے واضح ہوجانا چاہیئے کہ اسرائیل ایک عادی جنگی مجرم ہے اور اسرائیلی حکام، خود اپنے جرائم کی تحقیقات نہیں کر سکتے۔ اگر عالمی برادری دباؤ کے تحت وہ تحقیقات کرنے پر مجبور بھی ہوجائیں تو بھی وہ اپنے فوجیوں کو سزا سے مکمل استثنا دے دیتے ہیں“۔اُصولی طور پر تو آزادی اظہار رائے کی علم بردار عالمی برادری کو،شیریں ابوعاقلہ کے خاندان والوں کے مطالبہ کو سنجیدگی کے ساتھ لے کر قاتل اسرائیلی فوجیوں کو انصاف کے لیئے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیئے۔ لیکن ہمارا گمان یہ ہی ہے کہ عالمی برادری کے لیئے اسرائیل کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا کسی بھی طور ممکن نہ ہوگا،کیونکہ اسرائیل امریکا کا بگڑا ہوا وہ لاڈلا بدمعاش ہے،جو دنیا بھر میں کسی کو اپنے ناجائز اور ظالمانہ کاروائیوں پر جواب دہ نہیں ہے۔

المیہ ملاحظہ ہو کہ ساری دنیا مانتی ہے کہ شیریں ابوعاقلہ کے سر میں اسرائیلی فوجی نے جان بوجھ کر گولی ماری ہے۔حد تو یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے جاری کی گئی جائزہ رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ”اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے ہی یہ جان لیوا گولی چلائی گئی تھی“۔ لیکن اِس کے باجود اسرائیلی حکام کو ایک خاتون صحافی کے قتل پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہورہی ہے۔دراصل اسرائیلی حکام نے تو اِس قتل کو دبانے یا اُلٹا اُسے فلسطینی عوام کے سر تھوپنے کی اپنی دانست میں بھرپور کوشش کی تھی۔

مگر جب دنیا بھر کی صحافتی تنظیموں نے صحافی شیریں ابوعاقلہ کے قتل کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا، تو دباؤ میں آکر اسرائیلی حکام کو خاتون صحافی کے قتل کی تحقیقات کروانے کا اعلان کرنا پڑا۔خاص طو پر درجنوں کانگریس اراکین کی جانب سے ایف بی آئی دفترِ خارجہ کو ایک دستخط شدہ خط بھیجا گیا اور ان سے امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اس واقعے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔جس کے بعد ہی امریکی دفترِ خارجہ نے فلسطینی پر دباؤ ڈالا کہ وہ یہ گولی ثبوت کے طور پر ریلیز کریں۔ گولی کے فرانزک معائنہ کے بعد امریکی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ”جب امریکی سکیورٹی کوارڈینیٹر نے اسرائیلی اور فلسطینی تحقیقات کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اسرائیلی فوجیوں کی پوزیشنز کی جانب سے جو گولیاں چلیں وہ ہی شیریں ابو عاقلہ کی موت کا سبب بنیں“۔

اگرچہ خاتون صحافی شیریں ابوعاقلہ کا قاتل پوری دنیا کے سامنے ہے مگر اِس کے باوجود امریکی اور اس کے اتحادی ممالک اپنے لاڈلے بدمعاش اسرائیل کی جان خلاصی کے لیئے خاتون صحافی کے قتل کو ایک حادثاتی موت قرار دینے پر بضد ہیں۔ بظاہر بین الاقوامی صحافتی تنظیمات نے یکسوئی کے ساتھ جہاں اسرائیل کے نام نہاد تحقیقاتی رپورٹ کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے،وہیں وہ خاتون صحافی کے قتل میں ملوث اسرائیلی فوجیوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کررہی ہیں۔ لیکن دکھائی یہ ہی دے رہا ہے کہ بالآخر عالمی صحافتی تنظیمیں احتجاج کر کر کے تھک جائیں گی،لیکن امریکا بہر صورت اسرائیل اور اس کے فوجیوں باعزت بری قرار دے کر ہی دم لے گا۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 08 ستمبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں