horse-trding-and-donkey-traders-in-politics

بکنے والے گھوڑے ۔ ۔ ۔ خریدنے والے گدھے

مارچ کی 3 تاریخ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں عوام کی دلچسپی کے لیئے فقط تین ہی باتیں ہیں۔اوّ ل یہ کہ سینیٹ کے انتخابات کھلے عام ہوتے یا پھر نقد دام کے کاروباری اُصول کے تحت؟۔ دوم،سینیٹ انتخابات کے نتائج کے بعد کسے پرائز ملتاہے اور کون ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سرپرائز ہوتاہے؟اور سوم یہ کہ ہارس ٹریڈنگ میں ٹاپ ٹرینڈ پر کون کون سے ”سیاسی گھوڑے“ رہتے ہیں؟۔گویا سینیٹ انتخابات نہ ہوئے ایک”سیاسی تماشا“ ہوا،اور تماشا بھی ایسا،جسے سیاست کے رہنما قواعد و ضوابط کے بجائے کاروباری انداز میں کھیلنے کی کوشش کی جائے گی۔شاید اسی لیئے ہمارے سینیٹ انتخابات کے دوران جس لفظ کا تذکرہ باربار سننے میں آتا ہے،وہ لفظ ”ہارس ٹریڈنگ“ ہے۔ ویسے تو انگریزی زبان میں اس لفظ کے معنی ”گھوڑوں کی خرید و فروخت“ کے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال ماضی میں واقعی گھوڑوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ہی ہوتا تھا۔تاریخی دستاویز کے مطابق 1820 کے آس پاس تاجر حضرات اچھی نسل کے گھوڑے خریدنے کے لئے ”کاروباری چالاکی“ کا استعمال کرتے تھے۔ تجارت کا یہ طریقہ کچھ اس طرح کا تھا جس میں چالاکی،سازش، پیسے اور آپسی تعلقات کے بل بوتے پر عمدہ اور اچھی نسل کے گھوڑوں کو سستے نرخوں پر خریدنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی تھی۔

مگر پھر رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ گھوڑوں کی افادیت،اہمیت اور ضرورت ختم ہوئی تو اُن کی تجارت یعنی ہارس ٹریڈنگ بھی ختم ہوگئی۔یعنی گھوڑے پس منظر میں چلے گئے اور اُن کی جگہ لینے کے لیئے ”سیاسی گھوڑے“ پیش منظر پر آگئے اور ماضی میں گھوڑوں کی تجارت کے لیے خاص سمجھی جانے والی معروف اصطلاح سیاست میں ”ہارس ٹریڈنگ“ کے نام سے مقبول عام حاصل کرگئی۔سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا لفظ اُس وقت بولا جاتاہے،جب کوئی سیاسی جماعت اپنی مخالف سیاسی جماعت کے ارکان کو لالچ، عہدے، پیسے، شہرت یا کسی دیگر قسم کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے تو ارکان اسمبلی یا ارکان پارلیمنٹ کی اس قسم کی خرید و فروخت کو”ہارس ٹریڈنگ“قرار دے دیا جاتاہے۔ یاد رہے کہ ”ہارس ٹریڈنگ“ اس خاص سیاسی صورت حال میں کی جاتی ہے جب کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو حکومت سازی کے لئے اکثریت ملنے کی اُمید بالکل بھی نہ ہو اور اسے اپنی اقلیت کو اکثریت بدلنے کے لئے باہر سے سیاسی حمایت کی ضرورت درپیش ہو۔پھر وہ سیاسی جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح سے مخالف، آزاد یا دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ارکان انہیں حمایت دے دیں اور ان کی حکومت بن جائے۔ اس کے لئے ہر طرح کے حربے کا آزادانہ اور بے باکانہ استعمال کیا جاتا ہے اور سیاست میں چالاکی، پیسہ، عہدہ کا استعمال ہی”ہارس ٹریڈنگ“ یعنی ”سیاسی گھوڑوں“کی خریداری کہلاتی ہے۔

سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے ہاں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ”سیاسی گھوڑوں“ کی منڈی سجتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے عید قرباں پر ملک بھر میں شہر شہر،قریہ قریہ بکرا منڈیاں سجائی جاتی ہے۔بس اِ ن دونوں منڈیوں میں فرق اور تفاوت صرف اتنا سا ہے کہ بکرا منڈی میں جانور فروخت کے لیئے دور دراز علاقوں سے ہانک کر لائے جاتے ہیں جبکہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر ہونے والی ”ہارس ٹریڈنگ“ کے لیئے ”سیاسی گھوڑے“ اپنی مرضی سے بکنے کے لیے سیاسی منڈی میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔پاکستان میں سینیٹ انتخابات کی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے یہ سیاسی گھوڑے انتہائی زیرک اور چالاک واقع ہوئے ہیں۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کس طرح اپنے دام بڑھانے ہیں؟اور کس طرح خریدار کو اس حد تک بلیک میل کرنا ہے کہ اُس کے پاس زیادہ سے زیادہ بولی لگانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے۔ اس لحاظ سے ہم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں اگر بکنے والے ”سیاسی گھوڑے“ہیں تو پھر یقینا خریدنے والوں کو”سیاسی گدھے“ہی کہا جاسکتاہے۔

اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈ نگ کے جو فائدے ”سیاسی گھوڑوں“ کے حصے میں آتے ہیں،اُس کے عشر عشیر فوائد بھی کبھی ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ”سیاسی گدھے“حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ مثال کے طور پر سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں بھی ہارس ٹریڈنگ کے نام پر ”سیاسی گھوڑوں“ کی زبردست خرید و فروخت ہوئی تھی۔ لیکن ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں نے سینیٹ کے اسپیکر جناب صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم پیش کی تو ”سیاسی گھوڑوں“ نے اپنے مالکان کے ہی خلاف ووٹ دے کر ثابت کردیا تھا کہ وہ واقعی زیرک،چالاک اورموقع پرست ”سیاسی گھوڑے“ ہیں جبکہ اُنہیں خریدنے والے ”سیاسی گدھے“۔مگر سب سے زیادہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے دوران فروخت ہونے والے ”سیاسی گھوڑے“ اپنے دغا بازی اور بے اعتباری کے لیئے غیرمعمولی شہرت رکھتے ہیں لیکن اُس کے باوجود بھی ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں ”ہارس ٹریڈنگ“ سے باز نہیں آتیں۔

اس لیئے ہمارا تو ماننا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان حالیہ سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ ڈالنے کے حق میں کوئی فیصلہ جاری کردیتی ہے تو اس عدالتی فیصلہ کا سب سے زیادہ نقصان ”سیاسی گھوڑوں“ کو ہوگا اور پھر پاکستانی سیاست میں ان کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے تاریک ہوجائے گا۔نیز ایوان ِ بالا میں اُن کی سیاسی ناقدری بھی دیکھنے والی ہوگی۔لیکن اگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کرنے کا پرانا طریق کار برقرار رکھنے کا فیصلہ سامنے آتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ”سیاسی گدھوں“ کو پہنچے گا۔مگر مصیبت تو یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کرنے والے،ہارس ٹریڈنگ کے مضر اثرات کا نشانہ بننے والے اور ہارس ٹریڈنگ کو صبح و شام بُرا بھلاکہنے، اور صلواتیں سنانے والے بھی دل سے یہ ہی چاہتے ہیں کسی طرح ملکی سیاست سے ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ نہ ہو۔اس سیاسی رویے کی وجہ فقط ایک ہے کہ گھوڑے آخر گھوڑے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ ”سیاسی گھوڑے“ ہی کیوں نہ ہوں۔بقول سہیل ثانی
صد ا کافی نہیں ہے کوچواں کی
یہ گھوڑے، تازیانہ چاہتے ہیں

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 18 فروری 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں