Hesco

ذکر ہے سائیں کی اندھیر نگری کا

سائیں!! گزشتہ چند ماہ میں جس تواتر کے ساتھ ملک بھر میں میں طوفانی بارشیں برسیں ہیں، اِسے اگر سخت الفاظ میں قدرتی آفت نہ بھی کہا جائے تب بھی اِن بارشوں کو ہلکے سے ہلکے الفاظ میں ”قدرتی تنبیہ“ تو یقینا کہا ہی جاسکتاہے۔بس! آپ یوں سمجھ لیجئے کہ ملک بھر میں بالعموم اور صوبہ سندھ،بلوچستان میں بالخصوص برسنے والی یہ غیر معمولی طوفانی بارشیں صرف وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے لیئے ہی نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیے بھی ایک ”قدرتی تنبیہ“ کی مانند ہیں کہ”اگر اب بھی ہم لوگ قدرتی ماحول کو تباہ و برباد کرنے سے باز نہ آئے تو پھر عن قریب موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کی بدولت ہمارا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے صفحہ ہستی سے کسی حرفِ غلط کی طرح مٹ بھی سکتاہے“۔

اگرچہ اکثر افراد ابھی بھی اِس خام خیالی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ طوفانی و سیلابی بارشوں کے نتیجہ میں بپا ہونے والی حالیہ قیامتِ صغری کی تمام تر ذمہ دار تنہا حکومت ِ وقت ہی ہے اور وہ اِس سے کلیتاً بری الذمہ ہیں۔ کیونکہ محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں شدید طوفانی بارش اور سیلاب کی پیش گوئی بہت پہلے ہی کردی تھی۔لہٰذا، وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کو ہر طرح کی سنگین صورت حال کا سامنا کرنے کے لیئے کمر کس لینی چاہیئے تھی۔

جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق محکمہ موسمیات کے جاری کردہ الرٹس کی روشنی میں تمام حکومتوں نے اپنے اپنے محدود، دستیاب وسائل کے مطابق مون سون سیزن سے نمٹنے کے لیے بھرپور انداز میں تیاری کی تھی۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ حالیہ سیلابی و طوفانی بارشیں اس قدر مسلسل،شدید اور خوف ناک تھیں، کہ اِن سے پیشگی نمٹنا کسی بھی حکومت کے لیئے سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔ یقین مانیئے! جتنی شدید طوفانی بارشیں،رواں ہفتہ صوبہ سندھ میں ہوئی ہیں،اگردنیا کے کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک یا خطے میں بھی برسیں ہوتیں،تو جانی و مالی نقصانات کا تخمینہ کم و بیش اُتنا ہی ہوتاکہ جتنا اِس وقت صوبہ سندھ میں لگایا جارہاہے۔

بعض افراد کا یہ کہناکہ صوبہ سندھ کو سیلابی صورت حال کا سامنا،سندھ حکومت کی انتظامی نااہلیت کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔ایک بالکل لغو، اور بے ہودہ سیاسی الزام ہے،جس میں قطعاً کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کسی صوبے میں سیلاب کاکم یا زیادہ آنا ہی صوبائی حکومت کی اہلیت و نااہلیت کو جانچنے کا واحدپیمانہ ہے تو پھر خیبر پختون خواہ کی حکومت سب سے زیادہ نااہل اور ناکارہ ہے۔کیونکہ وہاں کم بارشیں ہونے کے باجود بھی صوبہ سندھ سے بھی زیادہ ہول ناک اور شدید سیلاب آیا ہوا ہے۔

دراصل،صوبہ سندھ بھی پاکستان کا ہی ایک حصہ ہے اور پورا ملک قدرتی آفات سے پیشگی نمٹنے کے لئے جس انتظامی کسرنفسی کا برسوں سے شکار چلا آرہا ہے،بے شک!،اتنا ہی قدیم”انتظامی گناہ گار“ سندھ حکومت کو بھی قرار دیا جاسکتاہے۔بدقسمتی سے ہمارا قومی مزاج ہی کچھ ایسا بن چکا ہے، جب تک خطرہ ہمارے دروازے پر دستک نہ دے دے، تب تک ہم خطرہ کو بھی ہنسی مذاق ہی سمجھتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ جب ہم خطرات کے چنگل میں بُری طرح سے پھنس جاتے ہیں تو پھر اُس خطرے سے نکلنے کا فوری سدباب یا تدبیر کرنے کے بجائے، اُلٹا ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹہرانا شروع کردیتے ہیں۔ اَب بھی ہم یہ ہی کچھ تو کررہے ہیں۔

کسی کا کہنا ہے کہ اگر ڈیم بنا لیتے تو سیلاب نہ آتا،کوئی کہہ رہا ہے کہ سڑکیں اورپُل مضبوط بنالیتے تو سیلاب زدہ گاؤں اور دیہات کا دیگر علاقوں سے ساتھ رابطہ نہ ٹوٹ پاتا۔نیز کسی نے آواز لگائی ہے کہ بھارت سے دوستی کرلیتے تو وہ اپنے دریاؤں کا پانی نہ چھوڑتا۔جبکہ کوئی کہہ رہا ہے کہ نہروں اور سیم نالوں کے پشتے بروقت مرمت کردیئے جاتے تو سیلاب نہ آتا۔غرض ہر شخص اِس بات پرحکومت سے باز پرس کررہا ہے کہ حکم رانوں نے گزشتہ 75 برس میں سیلاب کا راستہ روکنے کا دیرپا انتظامی بندوبست کیوں نہ کیا۔

یقینا حکومت سے درج بالا سوالات بھی ضرور کرنے چاہئے۔ لیکن صرف اُس وقت جب ہم طرف سے قدرتی آفت اور سیلاب میں نہ گھرے ہوں، سرِ دست ہمیں حکومت سے فقط اِس بات کا واضح اور صاف صاف جواب مانگنا چاہیئے کہ وہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیئے کیا ٹھوس اقدامات کررہی ہے اور سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے علاقوں کو پھر سے آباد کرنے کے لیئے کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اگر کوئی حکومت قدرتی آفت کا شکار افراد کی بحالی میں تساہل یا انتظامی کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے تو پھر اُسے عوام کے کٹہرے میں ایک مجرم کی طرح ضرور کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ بارش یا سیلاب پرروک لگانا بھلے ہی کسی حکومت کے بس میں نہ ہو،مگر متاثرین سیلاب کی جلدازجلد بحالی کے انتظامات کرنا تو ہر حکومت کا دائرہ اختیار میں آتا ہی ہے۔لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جہاں حالیہ بارشوں میں سندھ حکومت نے سیلاب زدگان کی بروقت انتظامی امدد کی کئی اعلیٰ مثالیں قائم ہیں،وہیں سنگین ترین انتظامی کوتاہیوں کا بھی ارتکاب کیا ہے۔

مثال کے طور پر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان سائیں آصف علی زرداری کے آبائی شہر نواب شاہ کے کم و بیش 70 فیصد گنجان آباد شہری علاقہ کی بجلی گزشتہ 7 روز سے مکمل طور پر بند ہے۔ کیونکہ نواب شاہ شہر کے سب سے بڑے گرڈ اسٹیشن میں بارش کا سیلابی پانی داخل ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے حیسکو حکام کو شہر کے بیشتر علاقوں کی بجلی فوری طور پر بند کرنا پڑی تھی۔ یقینا سیلابی پانی کے گرڈ اسٹیشن میں داخلے پر تو سندھ حکومت کو کسی بھی صورت موردِ الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا۔کیونکہ غیر متوقع حالات میں اچانک غیر معمولی حادثات کا ہونا معمول کی ایک بات ہے۔لیکن بارشیں بند ہونے کے بعد بھی گرڈ اسٹیشن سے 7 دن تک سیلابی پانی نہ نکالا جاناسندھ حکومت کی واقعی اتنی بڑی انتظامی نااہلی و کوتاہی ہے کہ جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی نواب شاہ شہر ہے جس نے ڈیڑھ ماہ پہلے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شہر کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اپنی تمام شہری نشستوں پر ایم کیو ایم کے بجائے پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ اُمیدواروں کو منتخب کروایا ہے۔

یاد رہے کہ پیپلزپارٹی نے جس طرح چند ماہ پہلے بلدیاتی انتخابات میں نواب شاہ کی شہری سیاست کو فقید المثال انداز میں فتح کیا تھا،اُس کے بعد کسی بھی شہری کو یہ اُمید ہرگز نہیں تھی کہ پیپلزپارٹی کی سند ھ حکومت کی موجودگی میں نواب شاہ شہر کے 70 فیصد علاقے غیر معینہ مدت تک بجلی کی فراہمی سے محروم رہیں گے۔ اگست کی سخت گرمی اور حبس زدہ موسم میں گنجان آباد شہری علاقوں میں مسلسل ہفتہ یا دو ہفتہ تک کے لیئے بجلی کا نہ ہونابہت بڑا عذاب ہے۔ جس پر شہری تکلیف اور اذیت سے بلبلا اُٹھے ہیں۔ کیا سائیں آصف علی زرداری کو اپنی نگری کے اندھیرے کی کچھ خبر ہے؟ اور اگر اُن کو سب معلوم ہے تو پھر وہ اپنی اندھیر نگری کو پھر سے روشن کرنے کے فوری احکامات وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو جاری فرمائیں۔تاکہ اُن کے شہر نواب شاہ کے شہری، جو اَب اُن کے ووٹر ز بھی ہیں رَت جگے کے اذیت ناک عذاب سے جلد ازجلد نجات حاصل کرسکیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 29 اگست 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں