Thar

تھر میں موت کا رقص اور سندھ حکومت کی بے حسی

”یہاں جشنِ تھر منا یا جارہا ہے وہاں لوگوں کے پاس کفن کے لیئے بھی پیسے نہیں ہوتے۔سرکاری افسران کا ضمیر مر چکا ہے انہیں صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات کی فکر ہے، یہ لوگ وہاں بھوک سے مرتے ہوئے معصوم بچوں کی میتیں دیکھنے اور ان کے والدین کے دُکھ میں شریک ہونے کے لیئے بھی نہیں جاتے۔ یہ افسران توصرف پکنک کے لیئے تھر جاتے ہیں،سوچتے ہوں گے چلو ماروی کا کنواں دیکھ لیں“۔آپ حیران نہ ہوں یہ دل کو کبیدہ خاطر کرنے والے الفاظ کسی ٹی وی اینکر کے پروگرام کا ابتدائیہ نہیں اور نہ کسی کالم نگار کے ذہنی تخیل کا شاخسانہ ہیں اور نہ ہی یہ ؎خیالات سندھ حکومت کے کسی کٹر مخالف ذہن کی پیداوار ہیں، جنہیں مخالفانہ چپقلس قرار دے کر نظر انداز کیا جاسکے بلکہ یہ تو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محترم جناب احمد علی شیخ کے وہ ریمارکس ہیں جو انہوں نے تھر پارکر میں صحت کی تباہ حال صورت کے کیس کی سماعت کے دوران،آج سے چند ہفتوں پہلے تھر میں غذا کی قلت،صحت کی سہولیات کے حوالے سے سندھ حکومت کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے دیئے تھے۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: تھر کی کسمپرسی، بھوک اور افلاس

درج بالا سطور سندھ حکومت کی ”گڈ گورنس“ کے خلاف کتنی بھیانک چارج شیٹ ہے اس کا اندازہ تو آپ کو یہ چند سطریں پڑھ کر ہی ہو گیا ہوگا۔جب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ،سندھ حکومت کے افسران پردرج بالا الفاظ کی صورت میں سرزنش کر رہے تھے تو کورٹ روم میں ہُو کا عالم تھا،وہاں موجود ہر دردِ دل رکھنے والا شخص آبدیدہ تھا، صرف اگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی تھی تو وہ سندھ حکومت کے افسران تھے جو اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے بجائے مختلف طرح کی تاویلیں،حیلے بہانوں سے اپنے آپ کو اور سندھ حکومت کو درست ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کر رہے تھے۔

اُس وقت سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ چشم کشا انکشاف بھی کیا گیا تھاکہ تھرپارکر میں ڈاکٹروں کی کمی بھی علاج کی سہولیات کی فراہمی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔سندھ پبلک سروس کمیشن کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے تھر پارکر میں کئی سالوں سے ڈاکٹر مقرر نہیں کیئے جاسکے ہیں جبکہ تھرپارکر میں رواں سال سے 15 اپریل تک 98 بچے جاں بحق ہوئے،اور 2014 ؁ء میں 398 بچے فوت ہوئے،جبکہ 2015 ؁ء میں 320 بچے اور 2016 ؁ء میں 98 معصوم بچے لقمہ اجل بنے اکثر بچوں کی موت پیدائش کے وقت کم وزن ہونے سے ہوئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فراہم کی گئی اس رپورٹ کو بھی سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے نامکمل قرار دے کر رد کردیا گیا تھا۔

لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ چند ہفتوں پہلے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے اتنی سخت سرزنش ہونے کے باوجود بھی سندھ حکومت کے رویے میں کوئی جنبش نہ آ سکی۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں اس سلسلے میں کچھ عملی و انتظامی اقدامات اٹھائے جاتے تاکہ ضلع تھر پارکر میں غذائی قلت اور صحت و صفائی کی ناقص سہولیات کی وجہ سے آئے دن ہونے والی اموات کے سانحات سے مستقل طور پر نجات پائی جا سکتی۔مگر سندھ حکومت کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کو ہوا میں اُڑا دینے کے نتائج یہ نکل رہے ہیں کہ حالیہ چند دنوں کے دوران غذائی قلت کی وجہ سے40 کے قریب معصوم بچوں کی ہلاکتیں چکی ہیں جس میں ہر آنے والے نئے دن کے ساتھ 2 سے 3 ہلاکتوں کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ضلع تھرپارکر پاکستان کے 156 اضلاع میں سب سے زیادہ غربت،افلاس،بدانتظامی،پسماندگی اور حکومتی عدم توجہی کا شکار علاقہ ہے۔ کہنے کو یہ علاقہ کوئلہ،گیس اور پیٹرول کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

لیکن سندھ حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع تھرپارکر میں کام کرنے والی 204 ڈسپنسریوں میں سے 183 ڈسپنسریوں کوگزشتہ تین سالوں سے بجٹ ہی فراہم نہیں کیا گیا۔اس کے علاوہ ضلع بھر میں 6 رورل ہیلتھ سینٹر اور2 میٹرنٹی سینٹر بھی پانچ برسوں سے بغیر کسی بجٹ کے کام کررہے ہیں۔تھر میں غربت کا یہ حال ہے کہ لوگوں کودو وقت کی روکھی سوکھی روٹی بھی بڑی تگ و دو کے بعد ہی میسر آتی ہے۔ تھر پارکر میں بچوں کی اموات کی اصل وجہ بھی ماؤ ں کا غذائی قلت کا شکار ہونا ہی ہے۔سرکاری اسپتالوں میں اکثر ایسے بچوں کو علاج معالجہ کی غرض سے لایا جاتا ہے جن کا وزن پیدائش کے وقت سے ہی کم ہوتا ہے۔بیشتر بچوں کا زچگی کے دوران کیا جانے والا وزن 700 گرام سے بھی کم ہوتا ہے۔جنہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔لیکن تھر پارکر کے بیشتر اسپتالوں میں یا تو انتہائی نگہداشت کے وارڈ سرے سے موجود ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو اُن میں سے اکثر میں تاحال فیمیل نرسز تعینات نہیں ہیں۔فی میل نرسز نہ ہونے کی وجہ سے یہاں خواتین آنے سے کتراتی ہیں جبکہ ضلع تھرپارکر کے انتہائی اہم شہر اسلام کوٹ کے تعلقہ اسپتال میں بچوں کاوارڈ بھی عملی طور پر کافی عرصہ سے غیر فعال ہے۔

یہاں یہ بات اچھی ذہن نشین رہے کہ وسائل کی کمی اندرونِ سندھ کی تعمیر و ترقی میں کبھی حائل نہیں ہوئی، اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ صرف سندھ حکومت کی رگوں میں سرایت، کرپشن کا وہ ناسور ہے جو اسے آگے نہیں بڑھنے دیتا،سندھ بھر میں ضرب المثل زبان زدِ عام ہے کہ سندھ میں ترقیاتی بجٹ کمیشن کے سائز کے حساب سے جاری کیا جاتا ہے،اگرکسی شعبہ میں کمیشن کا آسرا نہ ہو تو پھر ترقیاتی بجٹ بھی اُس شعبہ کو نہیں جاری کیا جاتا۔شعبہ صحت کو نظر انداز کرنے کی بھی یہ ہی بنیادی وجہ ہے۔کاش تھرپارکر میں کسمپرسی،نامسائد حالات اور بے سروسامانی کی زندگی گزارنے والی ہزاروں خواتین،معصوم بچوں اور بزرگوں کے دُکھ کا کوئی تو مداوا کرنے والا ہو کہ ان مجبور،لاچار اور بے اماں لوگوں کواس عذاب سے نجات مل سکے۔کیاسندھ حکومت میں کوئی ایساسنجیدہ،بُرد بار اور جہاں دیدہ شخص باقی بچا ہے جو تھرپارکر کے غریب لوگوں کی آہ و فغاں کو سُن سکے؟۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 02 نومبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں