Maryam Nawaz with Hamza Sharif

لاہور کا حمزہ

کیا عجیب بات ہے کہ عربی حروفِ تہجی میں ہمزہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔چونکہ اُردو کے حروفِ تہجی کی اکثریت عربی سے مستعار لی گئی ہے اس لیئے ماہرین لسانیات کی اکثریت ”ہمزہ“ کو اُردو حروفِ تہجی کا حصہ بھی نہیں سمجھتی جبکہ چند ایک گنے چنے ماہرین لسانیات دبے دبے لفظوں میں ”ہمزہ“ کو حروفِ تہجی میں شامل کرنے اجازت تو دیتے ہیں لیکن یہ بھی ”ہمزہ“ کو بے قیمت ہی تصور کرتے ہیں۔حالانکہ حروفِ تہجی میں ہر حرف کی ایک قیمت ِ عدد ی ہوتی ہے مثلاً جیسے میم کی عددی قیمت 40 ہے،ن کی 50 ہے اور ش کی 300 ہے لیکن اس کے مقابلے میں ”ہمزہ“ کو ماہرین لسانیات کسی بھی قسم کی عددی قیمت دینے کو تیار نہیں۔اُن کا موقف ہے کہ ”ہمزہ“ ایک اضافی حرف ہے جس کی مدد سے بوقتِ ضرورت الفاظ بنانے کے لیئے مدد تو لی جاسکتی ہے لیکن اس کی جداگانہ حرفی حیثیت کو تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے۔کچھ اسی قسم کی ناقدری کا شکار عرصہ دراز سے ہمارے ”لاہور کا حمزہ“ بھی ہے۔جسے پنجاب کی تمام سیاسی حروفِ تہجی رکھنے والی جماعت ایک ”سیاسی لاحقہ“ کے طور پر ساتھ تو رکھتی ہے لیکن اس کے سیاسی وجود اور سیاسی اہمیت و حیثیت کوتسلیم کرنے سے قطعاً انکاری ہے اور اس داستانِ ناقدری کا آغاز آج کل میں نہیں ہوا، بلکہ ایک طویل عرصہ سے یہ سلسلہ بے قدری جاری ہے۔

یہ ناقدری دیکھ کر کبھی کبھی ”لاہور کے حمزہ“ کی قوتِ برداشت کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہے کہ اپنی اتنی سیاسی بے قدری ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنی جماعت کے کسی بھی رکنِ اعظم چاہے وہ نون ہو، میم ہو یا شین ہو، پر آج تک ”دو حرف“ بھی نہیں بھیجے۔سچی بات ہے ”لاہور کا حمزہ“ سیاست کے بے وفا میدان میں عزم و ہمت کا ایک ایسا عظیم پیکر ہے جس نے اپنے ”مزاج ِ احسانی“ سے ہمیشہ سب پر احسان ہی کیا ہے لیکن کسی سے کبھی احسان لیا نہیں ہے اور لیتا بھی کیسے، اس کے خاندان ِشاہی کا کوئی بھی دوسرا فرد اپنی احسان کی دولت اس کے حوالے کرنا ضروری جو نہیں سمجھتا۔دور کیوں جائیں صرف 1998 ء کے زمانہ کو ہی ذرا یاد کر لیں یہ وہ وقت تھا جب ”لاہور کے حمزہ“ کا پورا ”خاندان ِ شاہی“ اقتدار کی عظیم مسند پر فائز تھا،اُس زمانے میں وزیراعظم کا اعزاز کا تو ذکر ہی ایک حقیر سی بات تھی ”امیرالمومنین“ کا درجہ بھی اُنہیں ہیوی مینڈیٹ کی وجہ سے حاصل ہوچکا تھا۔ اقتدار و اختیار کی طاقت اتنی زیادہ ان کے”خاندانِ شاہی“میں دَر آئی تھی کہ اُسے محفوظ رکھنے کے لیئے اِن کے پاس جگہ ہی کم پڑ گئی تھی۔جس کی وجہ سے ”سیاسی امیرالمومنین“ سے ایک ایسی غلطی جانتے بوجھتے سرزد ہوگئی جس کی سزا پورے خاندان کی معزولی کے سوا کچھ اور نہ ہوسکتی تھی۔بس پھر کیا تھاسزادینے والے نے دنیائے سیاست میں لاڈلے اولادِ نرینہ کی طرح راج کرنے والے اس خاندان سے نہ صرف سب کچھ چھین لیا بلکہ انہیں مع اہل و عیال”ملکِ عدم“ کی سیرپربھیجنے کے لیئے فول پروف پروگرام بھی بنالیا تھا۔اس سے پہلے کہ اس”خاندان شاہی“ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ملک عدم کی سیر پر روانہ کیاجاتا عین وقت پر صحرائے عرب سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ان کے لیئے دس سالہ سیاست بدری کا”عہدنامہ جدید“ لے کر آگیا۔موت کا اس قدر خوف تھا کہ عہدنامہ جدید کی شرائط پڑھے بغیر ہی خاندان کے ہرفرد نے معاہدہ پر اپنے اپنے دستخط ثبت کردیئے اور جب یہ اپنا سامان چالیس دیو ہیکل بکسوں میں بھرنے لگے، تو سزادینے والوں اور پناہ دینے والوں نے ان سے کہا کہ ”پیارے بھائیو اور بہنو! سامان بھلے ہی آپ سارا لے جاؤ مگر اپنے خاندان میں سے کسی ایک فرد کو بطور ضمانت چھوڑ جاؤ“۔زرِ ضمانت کا سننا تھا کہ سب ایک دوسرے کی طرف ٹُکر ٹُکردیکھنے لگے کہ کونسا مردِ مجاہد اب آگے بڑھ کر پورے خاندان کے اعمال ناموں کی قیمت ادا کرنے کے لیئے ”زرِ ضمانت“ کا طوق غلامی اپنے گلے میں ڈال کر سب کی اجتماعی گلو خلاصی کا باعث بنتا ہے۔نون، میم،شین کیا، الف سے لے کر ی تک کسی نے اس طوق کو اپنے گلے میں ڈالنے کی حامی نہ بھری تو پھر بالآخر نظرِ التفات ”لاہور کے حمزہ“ کی طرف ہی گئی۔

بہ قول راوی پھر کچھ یوں ہوا کہ سب نے خاندان کی محبت اور مجبوری کا واسطہ دے کر ”لاہور کے حمزہ“ کوقائل کر لیا کہ چند دنوں کی ہی بات ہے۔دس سال یونہی ہنستے کھیلتے گزر جائیں گے اور اس دوران تم بھی بڑے ہوجاؤ گے۔پھر یہاں کی پوری سیاست جس کو ہم صرف اور صرف تمہارے لیئے ہی بچا کر صحرائے عرب کی دھول چھاننے جارہے ہیں،بلاشرکتِ غیر تمہاری ہو جائے گی۔”لاہور کے حمزہ“ نے سہانے خوابوں کا لالی پاپ ہاتھ میں پکڑا اور سب کو آزاد فضاؤں میں دس سال کے لیئے پرواز کرنے کی اجازت دے دی اور خود ایک بنگلہ نما پنجرہ کا ”سیاسی قیدی“ بن کر رہ گیا۔دن،ہفتہ،مہینہ اور سال پر لگاکر اُڑتے رہے ”لاہور کا حمزہ“ان دس سالوں میں بڑا ہوگیا اور سیاسی حالات کی جبری یاوری سے اس کا پورا ”خاندان شاہی“ صحرائے عرب سے اپنی”خود ساختہ جلاوطنی“ اُدھوری چھوڑ کر پرانی آن بان اور شان کے ساتھ نہ صرف واپس آگیا بلکہ دوبارہ سے مسندِ اقتدار پر بھی فائز ہوگیا۔

ن کے تیسری بار مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے موقع پر ”لاہور کے حمزہ“ کی خوشی دیدنی تھی کیونکہ اسے قوی اُمید تھی کہ اب تو سیاسی اقلیم میں سے اسے اپنا حصہ بطور انعام ضرور ملے گا۔پھر وہ دن بھی آگیا جب سیاسی اقلیم کے اگلے وارث کا فیصلہ ہونا تھا۔ نون،میم،شین کی تو بات ہی کیا ہے الف سے لے کر ی تک کسی ایک نے بھی ”لاہور کے حمزہ“ کو بطورِ وارث تسلیم کرنے کے حق میں رائے نہیں دی۔ سب کا کہنا تھا کہ ہم ہی سب کچھ ہیں لیکن ”لاہور کا حمزہ“ کچھ بھی نہیں۔جب گھر کے افراد ہی گھر کے چراغ کو جلنے نہ دیں تو بے چارہ ”لاہور کا حمزہ“سوائے صبر کرنے کے اور کر بھی کیا سکتا تھا۔مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھاجب ہی تو کاتبِ تقدیر نے اچانک ساتویں آسمان سے ”پانامہ کاپتھر“ زمین پر پھینک مارا جو ٹھیک اپنے نشانے پر لگا اور شاہی خاندان کے نون، میم اور صاد کو لے کر پاتال کی گہرائیوں میں اُتر گیا۔جس پر ایک بار پھر سے ”لاہور کے حمزہ“ کو اُمید ہو چلی کہ اب تو ضرور قسمت کی دیوی اُس پر یاوری کرے گی اور شاہی تاج اُس کے سر پر رکھ دے گی۔قسمت کی دیوی اقتدار کا تاج ”لاہور کے حمزہ“ کے سرپر سجانے ہی والی تھی کہ بیچ میں میم یعنی ”کیلیبری فونٹ کی دیوی“ کچھ وقت کے لیئے ضمانت پر باہر آگئی جس نے باہر آتے ہی ”لاہور کے حمزہ“ کے والد بزرگوار کو حوالہ زنداں ہونے پر مجبور کردیا۔والد بزرگوار کا جیل کی کال کوٹھڑی میں جانا گویا ”لاہور کے حمزہ“ کے لیئے شاہی خاندان کی میراثِ سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بیدخلی کا پروانہ تھا۔جسے اپنے ہاتھ میں لے کر ”لاہور کا حمزہ“ اپنے والد بزرگوار سے ملاقات کرنے کی غرض سے کسی نہ کسی طرح زنداں کی کال کوٹھڑی تک جا پہنچااور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوتے ہوئے، اپنے والد بزرگوار سے کہنے لگا کہ”ابا جان!آخر کب میری سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا جائے گا؟“ والد بزرگوار نے پیار سے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ ”بیٹا نون یا میم کی نااہلی سے زیادہ اُمیدیں مت لگاؤ اور میرے ”برادرانہ“حشر نشر سے کچھ سبق سیکھو،بس ایک بات اچھی طرح پلے باندھ لو کہ اگر ہمارے خاندان شریفیہ میں الف سے لے کر ی تک سب کے سب بھی نااہل ہوجائیں گے تب بھی تمہیں شاہی خاندان کی سیاسی وراثت کے لیئے حقیقی”اہل“ تسلیم نہیں کیا جائے گاکیونکہ”سیاسی ہاتھی“ کے دانت دکھانے کے اور ہوتے ہیں،کھانے کے اور“۔جب سے ”لاہور کے حمزہ“ نے اپنے والد بزرگوار سے یہ بات سنی ہے اُسے پختہ یقین ہو گیا ہے کہ وہ سارے جگ میں صرف منہ دکھائی کے لیئے توہے لیکن اُس کا منہ کسی صورت بھی”اقتدارِ عظمیٰ“ کی مٹھائی کا ذائقہ چکھنے کے لیئے نہیں ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 11 اکتوبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں