Halal-Media-in-the-World

حلال میڈیا، ایک علمی محاکمہ۔ ۔ ۔ سمجھنے کا بھی اور سمجھانے کا بھی

میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے،یہ بات تو کم وبیش ہر شخص ہی جانتاہے لیکن میڈیا کی طاقت کے مثبت اور منفی اثرات سے صحیح معنوں میں آگاہی صرف اُن فراد کو ہی ہوسکتی ہے جو یا تو میڈیا سے منسلک ہوں یا پھر کبھی اچھے یا بُرے اندازمیں میڈیا کی طاقت کا براہ راست نشانہ بن چکے ہوں۔اگر کشور ناہید جیسی معروف دانشور ا دیبہ اور کالم نگار یہ لکھنے پر مجبور ہوجائے کہ ”ہمیں میڈیا سے بچاؤ“۔ یا انصار عباسی جیسا آزادی صحافت کی تحریک کا سرخیل اور معزز ترین صحافی میڈیا کے لیئے ایک ضابطہ اخلاق بنانے کی تجاویز تواتر سے دینا شروع کردے حتی کہ باکمال ڈرامہ نگار اور تجزیہ کار اوریا مقبول جان بھی میڈیا کو پابند اخلاق کرنے کی اہمیت پر اخبار کے ادارتی صفحات پر کالم لکھ لکھ کر ڈھیر لگانا شروع کردے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ میڈیا کے اَن گنت مثبت فوائد کے ساتھ ساتھ،اس کے بے شمار منفی اثرات ایسے بھی ہیں، جو ہمارے معاشرہ کی بنیادی اخلاقی ساخت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کچھ عرصہ سے آزادی صحافت کے حقیقی ”پہرے دار“ بھی میڈیا کے لیئے چند رہنما اُصول و ضوابط متعین کرنے کے لیئے ایک بااختیار ریگولیٹری اتھارٹی بنانے پر شدت سے اصرار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مگر یہاں مصیبت یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میڈیا کو محاورہ میں بلی قرار دینا بھی صحافت کی توہین ہی ہوگا کیونکہ میڈیا تو ایک بدمست ہاتھی کی مانند ہے اور میڈیا کے اس ہاتھی کے پاؤں میں بیٹریاں ڈالنے کے لیئے جس صحافتی حوصلہ اور اخلاقی جرات کی ضرورت ہے وہ فی الحال میڈیا کے کسی بھی ادارہ کے پاس موجود نہیں ہے۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: سوشل میڈیا کے چیمپیئن کہاں ہیں۔۔۔؟

پس! میڈیا کے ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق کئی نامور صحافتی رہنماؤں کی لاکھ مخلصانہ نصیحتوں اور کوششوں کے باوجود بھی میڈیا میں صحافتی اقدار کے نفاذ کا ادارہ سرے سے کبھی قائم ہی نہ کیا جاسکا۔ جبکہ اَب تومعاملہ خطرہ کی اُس آخری حد تک آپہنچا ہے کہ اگر کسی نہ کسی طرح میڈیا کے لیئے قوائد و ضوابط متعارف کروانے والی کسی چھوٹی،بڑی یا موثر،غیر موثر ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ممکن بھی ہوجائے تو اُس کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا کو تو کسی حد تک”پابنداخلاقیات“ بنایا جاسکے گا لیکن ہمیں یقین کامل ہے کہ ہر ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کی ایک نئی لیکن تیزی رفتاری سے فروغ پاتی ہوئی قسم یعنی ”سائبر میڈیا“ کے سامنے بدستور مکمل طور پر بے بس ہی رہے گی۔واضح رہے کہ سائبر میڈیا میں انٹرنیٹ پرچلنے والے نیوز چینلز اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس مثلاً یوٹیوب،فیس بک اور ٹوئٹروغیرہ کو شمارکیا جاتاہے۔ یہ میڈیا کی وہ جدیداور موثر ترین قسم ہے جسے ریگولیٹ کرپانا خود اُن کے لیئے بھی آسان نہیں ہے،جنہوں نے اِن ”ڈیجیٹل آلات“ کو ایجاد کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک پر فیس بک کے بانی مارک زکر برگ اور گوگل پر خود گوگل کمپنی کے خلاف اتنامتنازعہ اور اخلاق باختہ مواد موجود ہے کہ رہے نام اللہ کا۔ ایسے حالات میں میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیئے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کے بجائے کچھ نیا سوچنے کی اشد ضرورت تھی۔

یادش بخیر! کہ دیر آید درست کے مصداق ہر طرح کے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیئے”حلال میڈیا“ کے نام سے دنیا بھر میں ایک بالکل نئی صحافتی اصطلاح متعارف کروانے کے لیئے صرف نظری ہی نہیں بلکہ بڑی عملی کوشش کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ”حلال میڈیا“ کے زیر عنوان پہلے باضابطہ مکالمہ کا اہتمام منہاج یونیورسٹی لاہور میں منعقد ایک خصوصی ورکشاپ میں کیا گیا۔ جس میں پاکستان کے سب سے بڑے ڈیجیٹل میڈیا اُردو پوائنٹ کے ملٹی میڈیا ہیڈ شاہد نذیر چودھری اور ڈائریکٹر آپریشن منہاج حلال سرٹیفیکیشن راجہ طاہر لطیف کی جانب سے ”حلال میڈیا“ کی ضرورت، اہمیت اور اس نظریے کی عملی صورت گری کی وضاحت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔بظاہر ہم اس ورکشاپ میں شرکت سے محروم رہے لیکن جب میڈیا پر اس منفرد تقریب کی بابت دو کالمی خبر پڑھنے کا اتفاق ہوا تو ”حلال میڈیا“کی اصطلاح نے اس تقریب سے متعلق زیادہ سے زیادہ جان کاری جمع کرنے کے لیئے تحریک دی اور یوں سلسلہ جنبانی راجہ طاہر لطیف سے استوار ہوگیا۔جنہوں نے دریافت کرنے پر بتایا کہ”منہاج یونیورسٹی کی جانب سے ”حلال میڈیا“کے موضوع کو پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس میں شامل کرکے جامعاتی تدریس کا باقاعدہ حصہ بنادیا گیاہے۔تاکہ نوجوان جہاں جامعہ میں صحافتی اسرار و رموز کی تعلیم حاصل کرتے ہیں،وہیں اس کورس کے ذریعے مثبت میڈیا کے لیئے درکار ضروری اُصول و ضوابط سے بھی کماحقہ آگاہی حاصل کرسکیں“ ۔صرف یہ ہی نہیں اُنہوں نے یہ خوش کن خبر بھی سنائی کہ اگلے سال سے منہاج یونیورسٹی اس موضوع پر بی اے اور ایم اے کی طرز پر ڈگری کورس بھی متعارف کروانے جا رہی ہے۔

لفظ ”حلال میڈیا“پہلی بار سننے میں توہمیں بھی کچھ عجیب سا ہی لگا تھا جیسا کہ ان سطور کو پڑھتے وقت آپ کو محسوس ہورہا ہوگا۔لیکن جب ”حلال میڈیا“ کی ہیتِ کذائیہ اور اس کے اغراض و مقاصد کا تفصیلی جائزہ لینے کا موقع میسر آیا تو منکشف ہوا کہ”حلال میڈیا“پر اگر شعبہ صحافت سے منسلک نامور افراد اور ادارے مبنی بر دلیل مکالمے اور علمی محاکمے کا آغاز کریں تو عین ممکن ہے کہ ”حلال میڈیا“ مستقبل قریب میں بین الاقومی میڈیا کے ہر عیب،نقص اور مرض کا شافی علاج ثابت ہوجائے۔ذہن نشین رہے کہ ”حلال میڈیا“ کی اصطلاح پر 2019 میں معروف بین الاقوامی خبر رساں ادارہ ”رائٹرز“ کی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ بھی پیش کی گئی تھی۔ جس میں بتا یا گیا تھا کہ کئی مسلم ممالک میں سرکاری سطح پر ”حلال میڈیا“ متعارف کروانے کے لیئے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ بہر کیف”حلال میڈیا“ کا ذکر خیر سنتے ہی ذہن میں فطری طور پر کئی طرح کے خدشات،اشکالات اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔جن کے تسلی بخش جوابات حاصل کیئے بغیر شاید ہی اہلِ صحافت کے لیئے ”حلال میڈیا“ کی اصطلاح کو قبول کرنا آسان ہوگا۔مثلاً ”حلال میڈیا“کی ہیتِ کذائیہ کیا ہوگی؟ کیا یہ ایک ادارہ جاتی محکمہ ہوگا یا پھرملکی و غیرملکی جامعات میں پڑھایا جانے والا چند قوائد و ضوبط پر مشتمل فقط ایک تدریسی کورس؟۔ ہمارے خیال میں سائبر میڈیا کی آمد کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ جتنا زیادہ طاقت ور ہوچکا،اُس کے بعد یہ سوچنا کہ اسے کسی سرکاری یا نجی ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے پابند قواعد و ضوابط کیا جاسکتاہے۔ایں خیال است و محال است و جنوں اَست۔

لہٰذا میڈیا کے رجحانات پر اثر انداز ہونے کی بس اَب ایک ہی صورت باقی بچی ہے کہ اس میدان سے وابستہ ہونے والے افراد کی تعلیم و تربیت کے لیئے کوئی پکی صراطِ مستقیم تعمیر کردی جائے اور اس ضمن میں ”حلال میڈیا“ کے عنوان سے ملک بھر کی سرکاری و نجی جامعات میں مختصر اور طویل المدتی سرٹیفکیٹ و ڈگری کورسز متعارف کروانے کا طریقہ کار زبردست معاونت فراہم کرسکتاہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیائی صحافت جیسے یوٹیوب،فیس بک اور ویب بلاگز کے ذریعے آئے روز متعارف ہونے والے نت نئے ”ڈیجیٹل صحافیوں“ کو ”حلال میڈیا“کورسز کرنے کی خصوصی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ ایک مدت سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی بے شمار بین الاقوامی این جی اوز،مختلف طرح کے تربیتی کورسز کے نام پر صحافت سے منسلک افراد کو لبرل ازم کی باقاعدہ تربیت اسی طریق پر فراہم کرتی آئی ہیں۔اَب دائیں بازو سے منسلک اصلاح پسند عناصر کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ بھی ”حلال میڈیا“ کے عنوان سے اہلِ صحافت کے لیئے تربیتی کورسز متعارف کرواسکتے ہیں۔

لیکن دوسری جانب صحافتی حلقوں کے اصلاح پسند، دانش و بنیش افراد کے لیئے ”حلال میڈیا“ کو تربیتی تعلیم کا بنیادی عنوان قرار دینے سے قبل چند اشکالات یا ابہام کا تفصیلی جائزہ لینا بھی لازمی ہوگا کہ کہیں ”حلال میڈیا“آنے والے ایام میں ایک ایسا نظریہ یا فرقہ تو نہیں بن جائے گا کہ بعد ازاں ”حلال میڈیا“ کے عنوان کے بغیر صحافتی اُمور انجام دینے والوں کو کسی ایک فریق کی جانب سے”حرام میڈیا“ کے ہرکارے قرار دے کر تنقید اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا شروع کردیا جائے؟۔ اس خدشہ کے ازالے کے لیئے از حد ضروری ہے کہ ”حلال میڈیا“ کی اصطلاح کو صرف اور صرف تعلیم و تدریس تک ہی محدود رکھنے کاخاص التزام کیاجائے۔بالکل ویسے ہی جیسے دنیا بھر کی دُکانوں میں ایسی مصنوعات فروخت کے لیئے دستیاب ہوتی ہیں جن پر نمایاں طور پر حلال چھپا ہوتا ہے جبکہ ان کے ساتھ ہی دیگر مصنوعات بھی موجود ہوتی ہیں جن پر حلال کالیبل چسپاں نہیں ہوتااور گاہک از خود ہی سمجھ لیتا ہے کہ جس مصنوعہ پر حلال لکھا ہے، وہ یقینی طور پر ضرر رساں اجزء سے پاک ہی ہوگی مگر دوسری شئے بھی انسان کے استعمال کے لیئے ہی بنائی گئی ہے اس لیئے بھی وہ ٹھیک ہی ہے،بس موخرالذکر شئے کی تیاری میں استعمال کیئے گئے اجزاء کے بارے میں کمپنی کوئی خصوصی دعوی نہیں کررہی ہے۔ بعینہ ہی اسی طرح یہ سمجھا جاسکتاہے کہ ”حلال میڈیا“کی تعلیمی سند حاصل کرنے والے وہ افراد ہیں جنہیں میڈیا کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کے لیئے خصوصی تعلیم و تربیت فراہم کی گئی ہے۔ اس لیئے غالب امکان یہ ہی ہے کہ ”حلال میڈیا“ کے عنوان کے تحت روایتی یا ڈیجیٹل صحافتی اُمور انجام دیتے ہوئے مثبت اخلاقی اقدار کا خصوصی خیال رکھیں گے۔

مزید یہ پڑھیں: سیاہ میڈیا بمقابلہ سرخ میڈیا

اس کے علاوہ بھی”حلال میڈیا“ سے متعلق بہت سے ابہام اور سوالات موضوع بحث بنائے جاسکتے ہیں مگر تنگی کالم کے باعث اُنہیں کسی اور نشست کے لیئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ دراصل ”حلال میڈیا“ کو آپ صحافتی زبان میں ایک تازہ ترین”ڈویلپنگ اسٹوری“ کہہ سکتے ہیں۔ جسے درست نشوونما اور جلدپروان چڑھانے کے لیئے سنجیدہ حلقوں کی دلائل سے بھرپور علمی بحث و تمحیص پر مشتمل مناسب ماحول کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک بات تو طے کہ ”حلال میڈیا“کی اصطلاح اُس وقت تک مقبول عام حاصل نہیں کرسکتی جب تک کہ اِسے صحافت سے منسلک اصلاح پسند افراد اور ادارے شرفِ قبولیت نہ بخشیں اور ہمیں اُمید ہے کہ ہماری صحافت کے سمند رمیں اتنی وسعت اور گیرائی یقینا پائی جاتی ہے کہ اس میں فقط نفع بخش اور زندہ نظریات ہی پھل پھول سکتے ہیں جبکہ علمی طور پر کمزور،ضرر رساں یا مردہ نظریے ہماری صحافت سے از خود ہی باہر نکل جائیں گے۔ بہرکیف منہاج یونیورسٹی لاہور کی جانب سے ”حلال میڈیا“ کو اپنے تدریسی عمل کا باقاعدہ حصہ بنانا ایک مخلصانہ کوشش ہے،جس کی تحسین و ستائش نہ کرنا علمی بددیانتی اور بخیلی ہوگی۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 30 نومبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں