halal-education-in-minhaj-university-for-good-career-in-halal-industry

حلال ایجوکیشن

”جارج۔۔۔ آج کل تم کیا کررہے ہو؟“
”میں نے حلال سرٹیفکیشن کے شعبہ میں دوسالہ ڈگری پروگرام میں داخلہ لیاہے“۔جارج نے مختصر سا جواب دیا
”جارج، تم تو مسلمان بھی نہیں ہو، اورنہ ہی مسلم ملک میں رہتے ہو،پھر بھی حلال سرٹیفکیشن کے شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے کا خیال تمہارے ذہن میں کیسے آ گیا؟“ میں نے دوسرا سوال کیا۔
”دراصل، میرے کیرئیر پلانر نے مشورہ دیا ہے کہ مستقبل قریب میں حلال انڈسٹر ی کے مختلف شعبہ جات میں انتہائی پرکشش مشاہرے پر اعلیٰ ملازمتوں کے زبردست مواقع دستیاب ہوں گے۔ لہٰذا میں نے اس شعبہ میں اعلیٰ تخصیصی تعلیم حاصل کرنے کا ذہن بنالیا ہے“۔جارج نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
”کیا،حلال سرٹیفکیشن کے شعبے میں تمہارے لیئے تخصیصی تعلیم کا حصول کچھ مشکل اور عجیب نہیں ہوگا“۔میں نے حیرانگی سے دریافت کیا۔
”بالکل بھی نہیں،کیونکہ ہم ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے افراد اعلیٰ تعلیم کی منصوبہ بندی،آنے والے مستقبل کے رجحانات اور مواقعوں کو پیش نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے،تیل کی دولت تو مسلم ممالک کے پاس پائی جاتی ہے مگر تیل کی صنعت میں ہونے والی تحقیق و تجارت میں شامل بڑی بڑی کمپنیوں کی تمام پرکشش ملازمتیں فقط اس لیئے ہم انگریزوں کے پاس ہیں۔ کیونکہ ہمارے بڑوں نے تیل کی دریافت کے فوراً بعد ہی اپنے بچوں کو اس شعبے میں تخصیصی تعلیم کے حصول پر لگادیا تھا۔ کچھ سمجھے۔۔۔!، اسے کیرئیر پلاننگ کہتے ہیں“۔جارج کے طنز سے بھرپور تفصیلی جواب نے نہ صرف کیرئیر پلاننگ کے حوالے سے ذہن میں پائے جانے والے تمام مغالطے رفع کردیئے بلکہ میرے چودہ طبق بھی روشن کردیئے تھے۔

واضح رہے کہ دنیائے انٹرنیٹ کے میرے عزیز ترین دوست جارج میکسویل کی کیرئیر پلاننگ کی حوالے سے تمام باتیں اور دلیلیں عین مبنی بر حقیقت ہیں۔واقعی آج سے پچاس برس قبل تک جو ملازمتیں کیرئیر کے لیئے انتہائی پرکشش سمجھی جاتی تھیں،آج کل وہ ملازمتیں مکمل طور پر ناپید ہوچکی ہیں۔جبکہ صرف دس برس پہلے جن ملازمتوں کے لیئے موزوں اُمیدوار دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔اَب ایسی تمام ملازمتوں کے لیئے طلب کیئے گئے انٹریوز اور امتحانات میں، ملازمت کے خواہش مند اُمیدوار اتنی کثیر تعداد میں سامنے آجاتے ہیں کہ ”ایک انار اور سو بیمار“ والے کہاوت بھی کمتر محسوس ہونے لگتی ہے۔ دراصل کیرئیر پلاننگ پر بھی طلب اور رسد کا مشہور زمانہ تجارتی اُصول پوری طرح سے لاگو ہوتا ہے۔ یعنی کسی طالب علم کے لیئے اعلیٰ تعلیم، پرکشش ملازمت کے حصول میں، فقط اُس وقت ہی مددگار اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے،جب مقررہ شعبہ میں ملازمتیں زیادہ اور اُمیدوار کم ہوں۔اگر طلبا ء و طالبات درج ذیل اُصول کے مطابق اپنے تدریسی شعبہ جات کا انتخاب نہیں کریں گے تو پھر وہ ہی مناظر دیکھنے میں آئیں گے جو آج کل ملک بھر میں ہر سرکاری اور نجی ادارے کی جانب سے ملازمت مشتہر کیے جانے کے بعد ہمیں نظر آرہے ہوتے ہیں۔یعنی ایک ڈاکٹر اور انجینئر کی ملازمت کے لیئے دو سے تین ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان قطار اندر قطار بھرتی دفتر کے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ایک قاصد اور مالی کی ملازمت کے لیئے بھی بی اے،ایم اے اور ایم بی بی ایس پاس نوجوان درخواست اپنے ہاتھ میں لے کر ایم این اے اور ایم پی کے حضور میں التجائیں کررہے ہوتے ہیں۔

یوں سمجھ لیجئے کہ ہم نے کیرئیر پلاننگ کا درست معنی و مفہوم سرے سے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔شایدیہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی تدریسی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیرئیر پلاننگ کرنے کی مہم کا آغاز کرتے ہیں۔حالانکہ کیرئیر پلاننگ تدریسی تعلیم مکمل کرنے سے بہت پہلے کرنے کی شئے ہے ناکہ بعد میں۔واضح رہے کہ کیریئر پلاننگ کی درست تفہیم یہ ہے کہ دورانِ تدریس ایسے شعبہ جات کا انتخاب کیا جائے،جن شعبوں میں مستقبل میں وافر ملازمتیں دستیاب ہونے کے روشن امکانات پائے جاتے ہوں۔تاہم اس کے لیئے ضروری ہے کہ عالمی معاشی ضروریات،صنعتی شعبہ میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں اور معاشرتی رجحانات کے اُتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والے تجربہ کار اور زمانہ ساز افراد سے رہنمائی حاصل کر لی جائے۔تاکہ مستقبل میں پرکشش مواقع رکھنے والے شعبوں میں تخصیصی تعلیم حاصل کر کے اپنے کیرئیر کو چار چاند لگائے جاسکیں۔ زیرنظر مضمون میں تیزی سے فروغ پاتے ایسے ہی ایک نئے اُبھرتے ہوئے تعلیمی شعبے کا اجمالی سا جائزہ لینے کی جسارت کی جارہی ہے۔یاد رہے کہ ہیومن ریسورس کے اکثر ماہرین کا عام خیال ہے کہ”حلال ایجوکیشن“ کے شعبہ میں حاصل کی گئی تعلیم عنقریب دنیا بھر میں پیدا ہونے والی ہزاروں نئی ملازمتوں میں سے کسی تک پہنچنے میں طلبا و طالبات کے لیئے انتہائی معاون اور مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

حلال ایجوکیشن کی ضرورت،اہمیت اور امکانات
گزشتہ چند برسوں حلال انڈسٹر ی نے عالمی معیشت میں نئے اقتصادی رجحانات اور غیر معمولی امکانات پیدا کیئے ہیں اور حلال سرٹیفکیشن کا کاروبار عالمی سطح پر بام عروج تک جاپہنچا ہے۔چنانچہ اس وقت دنیا بھر میں سینکڑوں ادارے اس نئے معاشی میدان میں مختلف شعبہ جات میں کام کررہے ہیں۔ بالخصوص ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ساؤتھ افریقا اور خلیج ِعرب کے ممالک میں وسیع پیمانے پر حلا ل انڈسٹری میں پیش رفت جاری ہے۔حیران کن طور پر مسلم ممالک کے علاوہ غیرمسلم ممالک بھی اپنے فوڈ سیفٹی (Food Safety) کی سرٹیفکیشن کو بڑی تیزی کے ساتھ حلال سرٹیفکیشن کے ساتھ بدلتے جا رہے ہیں۔ دراصل دنیا کی بڑی کمپنیاں اس لیئے حلال سرٹیفکیشن کے جانب راغب ہورہی ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ مستقبل قریب میں حلال سرٹیفکیشن کے ایک منافع بخش صنعت میں بدل جانے کے کافی روشن امکانات پائے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ حلال سرٹیفکیشن کی عالمی تنظیمIHI Alliance (International Halal Integrity Alliance)کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں حلال سرٹیفکیشن کا کام کرنے والے ادارے 300 سے زائد ہیں۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حلال کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کی تعداد،اُن ممالک میں زیادہ ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت صرف امریکا میں ہی حلال سرٹیفیکیشن کے اداروں کی تعداد 14 ہے۔ علاوہ ازیں برطانیہ اور آسٹریلیا میں 7،7 کینیڈا میں 4، ساؤتھ افریقا میں 6، ویتنام میں 3،نیدر لینڈ، جرمنی اوربرازیل میں 2، 2 ادارے حلال فوڈ کے میدان میں کام کررہے ہیں۔یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ تھائی لینڈ جیسی لادین ریاست میں بھی حلال انڈسٹری کا باقاعدہ قیام عمل میں آچکا ہے،نیز آسٹریلیا،برازیل اور بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ حلال سرٹیفائیڈ گوشت ایکسپورٹ کرنے والے ممالک بن چکے ہیں۔علاوہ ازیں سعودی عرب ویژن 2030 اور انڈونیشیااکانومکس ماسٹر پلان 2024 اگلے پانچ برس تک کم ازکم 270 ملین افراد کے لیئے حلال سرٹیفکیشن لازم کرنے کا ارادہ رکھتاہے۔

اس لیئے اکثر عالمی معاشی ماہرین کا اصرار ہے کہ حلال انڈسٹری آنے والے چند برسوں میں دنیا کی چھ بڑی صنعتوں یعنی فوڈ،کاسمیٹکس،میڈیا،فارماسیوٹیکل،ٹورازم اور فنانس انڈسٹری کو مکمل طورپر اپنی گرفت میں کر لے گی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ حلال انڈسڑی کے تیزی سے فروغ پذیر ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں اس صنعت کے مختلف شعبہ جات میں بڑی تعداد میں ملازمتیں پیدا ہورہی ہیں۔ مگر چونکہ حلال ایجوکیشن کا نظام، دنیا بھر میں ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے،لہٰذا حلال انڈسٹری میں تخصیصی تعلیم اور سند یافتہ افرادی قوت کی شدید قلت ہے۔ جس کے باعث اس شعبہ میں آئے روز تخلیق ہونے والی بے شمار پرکشش ملازمتیں اہل اور قابل افراد کی بے تابی سے راہ تک رہی ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق عالمی سطح پر صرف فوڈ انڈسٹری اور حلال بینکنگ سیکٹر میں 20 ہزار سے زائد پرکشش ملازمتیں مطلوبہ اعلی تعلیم یافتہ افراد کے نہ ہونے کی وجہ سے ہنوز خالی ہیں۔اس کے علاوہ حلال کاسمیٹکس،حلال ٹورازم اور حلال میڈیا جیسی نسبتاً نئے شعبہ جات میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ حلال ایجوکیشن کی ذیل میں مختلف تخصیصی اسناد رکھنے والے افراد کی مانگ میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔

حلال کاسمیٹکس نئی صنعت،نئے امکانات
حلال کاسمیٹکس کی مارکیٹ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حلال میک اپ کی خرید و فروخت اس وقت پانچ سے چودہ ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ اور اس میں سالانہ بیس فیصد تک اضافہ ہورہا ہے۔ انڈونیشیا، پولینڈ اور برطانیہ کے بعد اب انڈیا میں بھی حلال کاسمیٹکس کی نت نئے مصنوعات متعارف کروائی جارہی ہیں۔ خوش آئند بات تو یہ ہے کہ فیشن اور خوشبوؤں کے عالمی شہر پیرس میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے ”بین الاقوامی کاسمیٹکس ایکسپو“ نمائش میں دنیا کی بڑی بیوٹی کمپنیوں کی جانب سے نسوانی چہرے کی دیکھ بھال کے لیئے حلال میک اَپ کی مصنوعات تواتر کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔

گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں حلال میک اپ کی مصنوعات میں شائقین نے جس غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا وہ ایکسپو نمائش کے منتظمین کے لیئے انتہائی حیران کن تھا۔اس نمائش میں سوئٹزر لینڈ میں کام کرنیوالی ”حلال سرٹیفکیشن سروسز“ (ایچ سی ایس) کے سربراہ شیخ علی اچکر بھی موجود تھے، جن کا ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھاکہ ”جس طرح سے حلال کاسمیٹکس کی مصنوعات کو نمائش میں پذیرائی حاصل ہورہی ہے،امکان ہے کہ اگلے چند برس کے بعد،اس عالمی نمائش میں حلال کاسمیٹکس کی مصنوعات کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جانوروں کے اجزاء یا الکوحل سے تیار کی جانے والی کاسمیٹکس کی مصنوعات انسانی چہرے اور جلد پر انتہائی مضر اثرات چھوڑ جاتی ہیں۔لہٰذا عالمی کاسمیکٹس مارکیٹ میں حلال سرٹیفکیشن کے تحت تیار ہونے والی بیوٹی مصنوعات کی طلب روز بروزبڑھ رہی ہے اور بہت سے صارفین تصدیق کیئے بغیر کہ ان مصنوعات میں میں جانوروں کے اجزا ہیں یا نہیں وہ صرف حلال پروڈکٹس دیکھ کر انہیں خرید لیتے ہیں“۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 2025 تک حلال کاسمیٹکس کی عالمی مارکیٹ کا حجم 61 ارب ڈالر سے 90 ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا۔اچھی بات یہ ہے کہ دنیا کی کئی نامور میک اَپ ساز کمپنیوں نے بھی حلال مصنوعات کی تیاری شروع کر دی ہے،مثلاًساؤتھ کوریا کی”ٹیلنٹ کاسمیٹکس“،انڈونیشیا کی”زاہارا“،آسٹریلیا کی ”انیکا کاسمیٹکس“،امریکا کی”اَماراہ حلال“ اور برطانیہ کی”سیمپور ے منرل“کی بنیادی شناخت ہی اَب حلال بیوٹی مصنوعات بنتی جارہی ہیں۔نیزحلال کاسمیٹکس کے تمام برانڈز دنیا کے سب سے بڑے آن لائن اسٹور ایمزون پر بھی دستیاب ہیں۔ حلال کاسمیٹکس انڈسٹری کی بے پناہ وسعت کے باعث ایسے افراد کے لیئے ملازمتوں کے شاندار مواقع پیدا ہونے کا امکانات بڑھ رہے ہیں، جن کے پاس حلال ایجوکیشن فراہم کرنے والے تعلیمی درس گاہوں کو اسناد موجود ہیں۔ فی الحال حلال کاسمیٹکس کے شعبے میں درج ذیل ملازمتیں پیدا ہوچکی ہیں۔حلال ڈرماٹولوجسٹ،حلال کاسمیٹولو جسٹ،حلال آئی لیش ٹیکنیشن اور حلال پروڈکٹ ڈویلپروغیرہ۔

حلال سیاحت میں کیرئیر کی شاندار مواقع
حلال فوڈز،حلال بینکنگ اور اس طرح دیگر حلال تصورات کے بارے میں تو آپ نے اکثر نہ صرف سنا ہوگا بلکہ کبھی نہ کبھی ان سے استفادہ بھی کیا ہی ہوگا لیکن اب بین الاقوامی سیاحت میں ایک اور لفظ حلال ٹورازم (Halal Tourism) یعنی”حلال سیاحت“ کا بھی استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ”حلال سیاحت“ بنیادی طور پر ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کا مطلب مسلمان سیاحوں کو ا ُن کے سیاحتی سفر میں ایسی سہولیات مہیا کرنا ہوتا ہے، جن کی انہیں دوران سیاحت اکثر و بیشتر ضرورت پڑسکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی سیاح دین ِ اسلام کے حوالے سے مکمل طور پر باعمل مسلمان ہو، تو اس کو دوران سفر نماز پڑھنے کی جگہ اور حلال خوراک وغیرہ کی دستیابی کے سلسلے میں کسی ایسی ناگہانی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ جس کی بناء پر اس کی مذہبی ضروریات و ترجیحات اس کے سیاحت کے شوق کی راہ میں رکاوٹ بننے لگیں۔”حلال سیاحت“ میں مسلمان سیاحوں کو سیاحت کے لیئے وہ موزوں اور پسندیدہ ماحول کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان سیاح اپنے عقیدے کے عین مطابق حلال خوراک، شرعی پردہ، عبادت کی سہولیات کے ساتھ مکمل طور پر اپنی سیاحتی سرگرمیوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکے۔

دنیا کی معروف امریکی کریڈٹ کارڈ کمپنی ”ماسٹر کارڈ“ اور ”حلال ٹرپ“ نامی سیاحتی کمپنی کے مشترکہ طور کیئے جانے والے ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق”گزشتہ چند برسوں میں بین الاقوامی سطح پر”حلال سیاحت“کے رجحان میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہوائی اڈوں، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں ”حلال سیاحت“ کے لیئے ضروری خیال کی جانے والی سہولیات اور سروسز مہیا کرنے کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔مثلاً برطانیہ،جرمنی،فرانس،سوئزرلینڈ سمیت بہت سے ممالک میں اہم سفری یا سیاحتی مقامات پر مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کی سہولت،قرآن پاک کی فراہمی،خواتین و مردوں کے لیئے علحیدہ علحیدہ سوئمنگ پولزاور حلال اشیائے خوراک فروخت کرنے والے ریستورانوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اس جائزے کے مطابق 2016 میں عالمی سیاحت میں ”مسلم ٹریول مارکیٹ“کا کُل مالیاتی حجم 156 بلین ڈالر رہا تھا، جس میں نوجوان مسلم سیاحوں کا مالیاتی حصہ 55 بلین ڈالر بنتا تھا۔اس رجحان میں مستقبل میں مزید تیزی کی بھی پیشن گوئی کی گئی ہے اورتخمینہ لگایا ہے کہ 2026 تک مسلمان سیاحوں کی طرف سے سیاحت کے لیے خرچ کی جانے والی رقوم کی مجموعی مالیت 300 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد دنیا کے بڑے سیاحتی ممالک نے بھی ”حلال سیاحت“کو اختیار کرنے پر سنجیدگی سے غورو غوض شروع کردیاہے۔جس کی وجہ سے اس شعبہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے پناہ ملازمتیں تخلیق ہورہی ہیں۔مثلاً حلال ایجنسی منیجر، حلال ریجنل ٹورز منیجر، حلال انٹرنیشنل ٹریول کنسلٹنٹ، حلال ٹورازم کنسلٹنٹ،حلال گائیڈاور حلال کروز شپ اٹینڈنٹ ایسی قابل ذکر ملازمتیں ہیں،جنہیں حاصل کرنے کے لیئے مستقبل میں حلال ایجوکیشن کی اسناد ناگزیر ہوں گی۔

حلال میڈیا اور حلال ایجوکیشن کا باہمی تعلق
لفظ ”حلال میڈیا“پہلی بار سننے میں توہمیں بھی کچھ عجیب سا ہی لگا تھا جیسا کہ ان سطور کو پڑھتے وقت آپ کو محسوس ہورہا ہوگا۔لیکن جب ”حلال میڈیا“ کی ہیتِ کذائیہ اور اس کے اغراض و مقاصد کا تفصیلی جائزہ لینے کا موقع میسر آیا تو منکشف ہوا کہ”حلال میڈیا“پر اگر شعبہ صحافت سے منسلک نامور افراد اور ادارے مبنی بر دلیل مکالمے اور علمی محاکمے کا آغاز کریں تو عین ممکن ہے کہ ”حلال میڈیا“ مستقبل قریب میں بین الاقومی میڈیا کے ہر عیب،نقص اور مرض کا شافی علاج ثابت ہوجائے۔ذہن نشین رہے کہ ”حلال میڈیا“ کی اصطلاح پر 2019 میں معروف بین الاقوامی خبر رساں ادارہ ”رائٹرز“ کی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ بھی پیش کی گئی تھی۔ جس میں بتا یا گیا تھا کہ کئی مسلم ممالک میں سرکاری سطح پر ”حلال میڈیا“ متعارف کروانے کے لیئے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ بہر کیف”حلال میڈیا“ کا ذکر خیر سنتے ہی ذہن میں فطری طور پر کئی طرح کے خدشات،اشکالات اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔جن کے تسلی بخش جوابات حاصل کیئے بغیر شاید ہی اہلِ صحافت کے لیئے ”حلال میڈیا“ کی اصطلاح کو قبول کرنا آسان ہوگا۔مثلاً ”حلال میڈیا“کی ہیتِ کذائیہ کیا ہوگی؟ کیا یہ ایک ادارہ جاتی محکمہ ہوگا یا پھرملکی و غیرملکی جامعات میں پڑھایا جانے والا چند قوائد و ضوبط پر مشتمل فقط ایک تدریسی کورس؟۔ ہمارے خیال میں سائبر میڈیا کی آمد کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ جتنا زیادہ طاقت ور ہوچکا،اُس کے بعد یہ سوچنا کہ اسے کسی سرکاری یا نجی ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے پابند قواعد و ضوابط کیا جاسکتاہے۔ایں خیال است و محال است و جنوں اَست۔

لہٰذا میڈیا کے رجحانات پر اثر انداز ہونے کی بس اَب ایک ہی صورت باقی بچی ہے کہ اس میدان سے وابستہ ہونے والے افراد کی تعلیم و تربیت کے لیئے کوئی صراطِ مستقیم تعمیر کردی جائے اور اس ضمن میں ”حلال میڈیا“ کے عنوان سے ملک بھر کی سرکاری و نجی جامعات میں مختصر اور طویل المدتی سرٹیفکیٹ و ڈگری کورسز متعارف کروانے کا طریقہ کار زبردست معاونت فراہم کرسکتاہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیائی صحافت جیسے یوٹیوب،فیس بک اور ویب بلاگز کے ذریعے آئے روز متعارف ہونے والے نت نئے ”ڈیجیٹل صحافیوں“ کے لیئے ”حلال میڈیا“ کے کورسز انتہائی سود مند اور نفع بخش ثابت ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک مدت سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی بے شمار بین الاقوامی این جی اوز،مختلف طرح کے تربیتی کورسز کے نام پر صحافت سے منسلک افراد کو لبرل ازم کی باقاعدہ تربیت اسی طریق پر فراہم کرتی آئی ہیں۔اَب دائیں بازو سے منسلک اصلاح پسند عناصر کے پاس بھی حلال ایجوکیشن کی شکل میں ایک اچھا موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ بھی ”حلال میڈیا“ کے عنوان سے اہلِ صحافت کے لیئے تربیتی کورسز متعارف کرواسکتے ہیں۔ حلال ایجوکیشن کی مشکل اصطلاح کو آسان لفظوں میں کچھ یوں سمجھا جاسکتاہے کہ مستقبل میں ”حلال میڈیا“کی تعلیمی سند حاصل کرنے والے وہ افراد ہوں گے۔ جنہیں میڈیا کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کے لیئے خصوصی تعلیم و تربیت فراہم کی گئی ہوگی۔ اس لیئے غالب امکان یہ ہی ہے کہ حلال ایجوکیشن کی تحصیل آنے والے دور میں میڈیا بالخصوص ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا سے منسلک ہونے کا ارادہ رکھنے والے طلباو طالبات کی انتہائی سُود مند ثابت ہوگی۔

پاکستان میں حلال ایجوکیشن فراہم کرنے والی درس گاہیں
ویسے تو پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کافی عرصے پہلے سے ہی حلال سٹینڈرڈز پی ایس3733، پی ایس 5442، پی ایس 4992،پی ایس 5319 کے تحت حلال فوڈ، حلال فارما انڈسٹری اور حلال کاسمیٹک انڈسٹری کے لیئے اپنے مسلمہ معیارات تشکیل دے چکی تھی۔ لیکن پاکستان میں حلال ایکٹ 2016 میں پاس ہواتھا،جبکہ حلا ل اتھارٹی کا قیام گزشتہ برس 2020 میں عمل میں آیاہے۔ نیز پاکستان میں کئی نجی و سرکاری درس گاہوں میں حلال ایجوکیشن پروگرام کے تحت باقاعدہ تعلیم و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے اور رواں برس منہاج یونیورسٹی لاہور نے یونیورسٹی کی سطح پر حلال ایجوکیشن پروگرام کے تحت ”حلال آگاہی“،”حلال اسٹینڈرڈز“، حلال اکانومی“،حلال ایکریڈیشن“،گلوبل حلال سٹینڈرز“،حلال ٹورازم“حلال فیشن“ اور ”حلال آڈٹس“ کے عنوانات سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور شارٹ کورسز کا آغاز کرکے ملک میں حلال ایجوکیشن نے بلندی کی سمت ایک نئی جست بھری ہے۔ یاد رہے کہ منہاج یونیورسٹی لاہور میں سب سے نمایاں پروگرام پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ہے۔حلال سٹینڈرڈ اور منیجمنٹ سسٹم پر کروایا جانے والا یہ پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ شریعہ اوربین الاقوامی فوڈز سائنس کے بنیادی قوانین پر مشتمل ہے۔ جبکہ اس ڈپلومہ میں نان فوڈسیکٹر کے مضامین جیسے حلال ٹورازم، حلال میڈیا اور حلال فیشن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

سب سے اچھی با ت یہ ہے کہ ایسے طلباء وطالبات جو بیرون لاہور یا بیرونِ ملک سے اس ڈپلومہ میں داخلہ لینے چاہیں،اُن کے لیئے خصوصی طور پر ریکارڈ شدہ لیکچرز اور آن لائن کاسز کی سہولت مہیا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ تاہم اس پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کا دورانیہ ایک سال یعنی دو سمسٹر پر مشتمل ہے اور اس میں داخلہ کی بنیادی شرط 16 سالہ تعلیم ہے۔جبکہ ایسے طلبا وطالبات جو اس معیار سے کم تعلیم رکھتے ہیں،اُن کے لیئے منہاج یونیورسٹی نے دیگر شارٹ ڈپلومہ،ایڈوانس ڈپلومہ اور شارٹ کورسز داخلے کے لیئے دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں حلال ایجوکیشن کی ضمن میں مختصر مدت کے سرٹیفکیٹ کورسز کروانے والا ایک دوسرا بااعتماد ادارہ حلال فاؤنڈیشن بھی ہے، جس کا صدر دفتر کراچی میں اور اس کے ذ یلی دفاتر ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی واقع ہیں۔ حلال فاؤنڈیشن بھی حلال معیارات بنانے والے سرکاری ادارے ((P.S.Q.C.A یعنی پاکستان سٹینڈرڈ اینڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے باضابطہ طورپر کئی برسوں سے منسلک ہے۔حلال فاؤنڈیشن بھی حلال ایجوکیشن پروگرام کے تحت اہم موضوعات پر خصوصی کورسز کا وقتاً فوقتا انعقاد کرواتی رہتی ہے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں