Governer-raj-options-in-sindh

سندھ میں کورونا وائرس اور گورنر راج کے بڑھتے امکانات؟

سندھ میں ابھی کورونا وائرس کا بحران پوری طرح سے ختم بھی نہ ہوا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سامنے صوبہ میں گورنر راج کی صورت میں ایک بڑا ”سیاسی بحران“ جنم لینے کا سنجیدہ امکان پیدا ہوگیا ہے۔بظاہر اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں وفاقی حکومت کے لئے سندھ میں گورنر راج کا نفاذ آسان کام نہیں ہے لیکن اِس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنا ایک ایسا ناممکن کام ہے،جس پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔سچی بات تو یہ ہے کہ اگر وزیراعظم پاکستان عمران خان ایک بار سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی ٹھان لیں تو نہ صرف اگلے ہی دن سندھ میں گورنر راج اپنی پوری انتظامی طاقت سے ساتھ نافذ العمل ہوجائے گا بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس بھی اِس آئینی اقدام کو بلاچوں چراں کے قبول کرنے کے سوا کوئی اور آپشن باقی نہیں بچے گا۔ اِس لیئے یہ سوچنا کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس المعروف جی ڈی اے نے بلاوجہ ہی داغ دیا ہے۔بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی اِس خام خیالی کو ”سیاسی خود فریبی“ سے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ ہماری ناقص رائے میں تحریک انصاف سندھ اور جی ڈی اے کے اِس سیاسی مطالبہ کے پس پردہ وفاقی حکومت اور دیگر مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت اور اعانت بھی شامل ہے۔ یعنی اگر پاکستان پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت کے سیاسی خواہشات کے عین مطابق اپنا ”سیاسی قبلہ“درست کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی تو سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے میں کسی بھی طرح پس و پیش سے کام نہیں لیا جائے گا۔

وفاقی حکومت کا سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف بنائی گئی تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس کے ایک لاکھ ستاون ہزار رضاکاروں کے کام میں کسی بھی طرح کی انتظامی یا سیاسی رخنہ اندازی ڈالنے سے نہ صرف باز رہے بلکہ اگر ضرورت پڑے تو سندھ حکومت ٹائیگر فورس کوانتظامی امداد فراہم کرنے میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ بھی ضرور ڈالے۔ وفاقی حکومت کا یہ مطالبہ پورا کرنا سندھ حکومت کے لیئے اِس لیئے کچھ مشکل ہوگا کہ ٹائیگرفورس کے رضاکار اگر ایک بار سندھ بھر میں متحرک ہونے میں کامیاب ہوگئے تو پھر پاکستان پیپلزپارٹی کی برس ہا برس سے سندھ میں کی گئی ساری ”سیاسی محنت“ مکمل طور پر ضائع ہوجائے گی اور سندھ کے عوام کے اذہان میں اَب تک جو یہ خیال پیپلزپارٹی نے بٹھایا ہواہے کہ سندھ میں اُن کی سیاسی جماعت کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت صوبہ بھر میں متحرک ہونے کی سیاسی صلاحیت نہیں رکھتی،یہ دیومالائی تصور بھی بھاپ بن کر ہوا میں اُڑ جائے گا۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کی قیاد ت کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ ٹائیگر فور س مستقبل میں تحریک انصاف کو سندھ بھر میں سیاسی طور پر منظم کرنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ٹائیگر فور س کے یہ ہی وہ مضر سیاسی اثرات ہیں جن کے باعث پاکستان پیپلزپارٹی اِسے کسی بھی صورت سندھ میں برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی اور اِسی لیئے سندھ حکومت کی جانب سے ٹائیگر فور س کے رضاکاروں کو سندھ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاری ہے۔ گوکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اپنی قیادت میں بہت جلد ٹائیگر فور س کو متحرک کرنے کا اعلان کردیا ہے لیکن یاد رہے کہ جب بھی ٹائیگر فورس وفاقی اداروں کے تحت ذرا سی بھی ”سیاسی حرکت“کرنے کی کوشش کرے گی تو اُس کا سندھ حکومت کے ساتھ تصادم ناگزیر ہوجائے گااور اِس تصادم کا حتمی نتیجہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ تک بھی پہنچ سکتاہے۔ جس کا اشارہ تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے اراکین سندھ اسمبلی واشگاف لفظوں میں پہلے ہی دے چکے ہیں۔ یعنی یہ ایک اشارہ بھی اور ایک پیغام میں اور اگر کوئی سمجھنا چاہے تو سیدھی سادی سیاسی دھمکی بھی۔



سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کا دوسرا بنیادی سبب این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کاوسیع البنیاد ”انتظامی فارمولا“بھی بن سکتا ہے۔ حالات و واقعات صاف صاف بتارہے ہیں کہ وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم میں کئی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے کا پوری طرح سے نہ صرف ارادہ کرچکی بلکہ جلد ازجلد اُن تبدیلیوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیئے پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ اپوزیشن کی دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ سلسلہ جنبانی بھی دراز کردیاگیا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی کئی جماعتوں کی جانب سے وفاقی حکومت کو گرین سگنل دے دیا گیا ہے اور غالب اِمکان یہ ہے کہ رواں برس ہی اپوزیشن کی چند ضروری سیاسی جماعتیں،عین آخری لمحہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کو داغِ مفارقت دے کر وفاقی حکومت کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہوکر این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے نمٹا دیں گی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی بس سیاسی شور شرابہ کرتی رہ جائے گی اور اگر اِس نے سنجیدہ سیاسی احتجاج کی طرف اپنے قدم بڑھانے کی کوشش بھی کی تو سندھ میں گورنر راج کو فی الفور نافذ کرکے پیپلزپارٹی کو اُلٹے قدموں واپس ہونے پر مجبور کردیا جائے گا۔

ویسے بھی کورونا وائرس کے انسداد کے لیئے وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے گزشتہ دو ماہ میں اتنے زیادہ غیر مقبول اور غیر پسندیدہ انتظامی فیصلے کرلیئے ہیں کہ صوبہ بھر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی حمایت میں زبردست گراوٹ آچکی ہے۔جبکہ وفاقی حکومت،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بھرپور انداز میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کورونا وائرس سے لڑتے لڑتے سندھ کی غریب عوام سے مکمل طور پر بے پرواہ اور لاتعلق ہوگئے ہیں۔حالانکہ کورونا وائرس کے خلاف جو اقدامات وزیراعلیٰ سندھ نے کیئے ہیں کم و بیش ویسے ہی اقدامات دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے بھی کیئے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی زبردست میڈیا منیجمنٹ نے لاک ڈاؤن کو مکمل طورپر وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی سیاسی خواہشات کے ساتھ نتھی کرنے میں فقید المثال کامیابی حاصل کرلی ہے اور دلچسپ با ت یہ ہے کہ پاکستان بھر کی طرح سندھ کی اکثر عوام نے بھی اِس تاثر کو قبول کرنا شروع کردیا ہے۔لہذا اگر سندھ حکومت دو،چار مزید سخت قسم کے لاک ڈاؤن کرکے سندھ سے کورونا وائرس کا کسی نہ کسی حد تک خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے تواِس سے سیاسی طور پر سندھ حکومت کوکسی بھی قسم کا فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔کیونکہ کورونا وائرس کے انسداد کے لیئے کئے گئے وزیراعلیٰ سندھ کے غیر مقبول فیصلے صوبے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی مقبولیت کے لیئے زہرِ ہلاہل ثابت ہورہے ہیں اور اگر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی نے اِس جانب فی الفور توجہ نہیں دی تو وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہر طرح کی صورت حال کا تمام تر ذمہ دار وزیراعلیٰ سندھ کو ٹہراتے ہوئے کسی بھی وقت سندھ حکومت کے سامنے گورنر راج کا فل اسٹاپ لگایا جا سکتاہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 28 مئی 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

2 تبصرے “سندھ میں کورونا وائرس اور گورنر راج کے بڑھتے امکانات؟

اپنا تبصرہ بھیجیں