Khajoor-sindh-gold

کھجور سندھ کا سونا

سندھ کا ایک جانا پہچانا شہر خیرپور۔۔ اور یہاں کی رس بھری منفرد ذائقے دار کھجوریں۔۔سب کہتے ہیں جو اِن کھجوروں کو ایک بار کھا لے۔۔ بار بار کھانے کی خواہش کرتا ہے۔کھجور کے درخت کو سندھی میں کھجی کہتے ہیں۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہی بر صغیر پاک و ہند میں کھجور کی کاشت شروع ہوئی۔پاکستان ایگریکلچرل اینڈ ریسرچ کونسل کے مطابق کھجوریں کاشت کرنے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پہلا نمبر ایران کا ہے، دنیا کی 60 فیصد کھجوریں یہیں کاشت کی جاتی ہیں، جبکہ دوسرا نمبر مصر کا ہے جہاں بارہ فیصد کھجوریں کاشت ہوتی ہیں۔ عراق میں گیارہ فیصد، سعودی عرب میں نو فیصدجبکہ دنیا کی مجموعی پیداوار کا سات فیصد حصہ پاکستان کا ہوتا ہے۔ پاکستان بھر میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین پر کھجور کی کاشت کی جاتی ہے جس میں سے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ کاشت صوبہ سندھ میں ہوتی ہے۔ صوبے کی 90 فیصد کھجور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے آبائی ضلع ’خیرپور‘ میں ہوتی ہے۔خیرپور کے چار تعلقوں خیرپور، کوٹ ڈیجی، کنگری اور گمبٹ میں کھجور کی 80 فیصد کاشت جبکہ ٹھری میرواہ، فیض گنج اور سوبھو دیرو تعلقہ میں صرف 20 فیصد کھجور کاشت ہوتی ہے۔دنیا بھر میں کھجور کی 5000 سے زائداقسام جبکہ صرف صوبہ سندھ میں کھجور کی 300 سے زائد اقسام کاشت ہوتی ہیں۔خیرپور کی کھجوروں کو لوگ تحفے کو طور پر بیرون ملک تک بھیجتے ہیں، جبکہ سیزن کے دوران ضلع خیرپور میں ’کھجور فیسٹیول‘ بھی لگتا ہے، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے اور کھجوریں خریدتے ہیں۔سعودی عرب کے بعد یہ دنیا کا سب سے بڑا ”کھجور فیسٹیول“ کہلاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 400سے زائد کھجوروں کی اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن کی بڑی تعداد ملک سے باہر ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔ پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار 0.54 ملین ٹن ہے جس میں سے 0.28 ملین ٹن صوبہ سندھ میں کاشت کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ضلع خیرپور میں ایک لاکھ ایکڑ پر کھجور کاشت کی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں تقریباً ڈھائی لاکھ ایکڑ پر کھجور کے باغات موجود ہیں۔ یہاں کھجوروں کی سینکڑوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں ٹوٹو، کڑ، بیگن، عیدن شاہ، مٹھی رکن، نوری اور دیگر اقسام شامل ہیں۔خیرپور میں کھجوروں کی اعلیٰ قسم کاشت کی جاتی ہے جسے ”اصیل“ کہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کھجوروں کو پکا کر”چھوہارے“ بنائے جاتے ہیں۔ خیرپور کی زیادہ تر کھجوریں سری لنکا، بنگلہ دیش اور انڈیا کو برآمد کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں کاشت کی جانے والی کھجوروں میں بطورِ خاص عجوہ، عابل، امیرچ، برنی، عنبر، شبلی، عابد، رحیم، بارکولی، اعلوہ، امرفی، وحشی، فاطمی، حلاوی، حلیم، حاپانی، نحل، ابلح، بسر، طلع، رطب، ثمر، حجار، صفا، صحافی، خفریہ، حبل، الدعون، طعون، زہری، خوردوی، شاعران، امیلی، ڈوکا، بیریر، ڈیری، ایمپریس، خستوی، مناکبر، مشرق، ساجائی، سیری، سیکری، سیلاج، نماج، تھوری، ام النغب، زاہد، ڈنگ،آفندی، جبیلی، مکتومی، سویدا، عجوہ، کعیکہ، منیفی، شھل، عنبرہ، خلاص، مسکانی، شلابی، بیض، خضری، مشوکہ، شقری، برنی، خصاب،ربیعہ، صفری،یرجی، لونہ، رشودیہ، سکری،غر،لیانہ، صفاوی، صقعی، حلوہ، مبروم، شبیشی، ونانہ، حلیہ، ساریہ، ذاوی شامل ہیں۔تازہ پکا ہوا پھل کھجور کہلاتا ہے اور خشک ہو جائے تو چھوہارا کہتے ہیں جو کہ مزاجاً گرم اور خشک ہوتا ہے۔ دونوں کی افادیت ایک جیسی ہے۔

نیشنل ہائی وے پر خیرپور سے سکھر جاتے ہوئے، ٹھیڑی کا چھوٹا سا شہر پاکستان میں کھجور کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ ملک بھر میں کھجور کے باغات سب سے زیادہ اسی علاقے میں ہیں۔ شاید بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ کھجی کے درختوں میں بھی انسانوں کی طرح نر اور مادہ ہوتے ہیں اور کھجور کے درخت کی مادہ آٹھ، دس سال کی عمر میں جوانی میں قدم رکھتی ہے اور سن بلوغت کو پہنچتی ہے اور اس کو پھل دینے کے لیئے نر کے ساتھ جنسی ملاپ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نر اور مادہ کے جنسی ملاپ کے بغیر کھجی پھل نھیں دیتی۔ یہ ہو بہو انسانی جنسی ملاپ اور اولاد پیدا ہونے کی طرح کا عمل ہے۔ اچھی تعداد میں کھجور کا پھل حاصل کرنے کے لیئے تقریبا ڈھائی ایکڑ زمین پر کھجور کے ایک سو ساٹھ درخت ہونے چاہیں جس میں سے دس فیصد درختوں کا نر ہونا لازمی ہے تاکہ جنسی عمل کے لیئے ان کا نطفہ استعمال ہو سکے۔ ورنہ بازار سے نر خریدنا پڑتا ہے۔جب کھجی کے نر اور مادہ کے ملاپ کے دن آتے ہیں تو ٹھیڑی شہر میں ہر طرف کھجی کے نر درخت کی پھلیاں بکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ایک مادہ کھجی کے لیئے ایک پَھلی کافی ہوتی ہے جو کھجور کے باغ کا ایک ماہر مزدور کھجی پر چڑھ کے اس کے اوپر والے حصے میں ایک مخصوص جگہ پر پیوند کرتا ہے۔ نر اور مادہ کے اس جنسی ملاپ کے بغیر کھجی پھل نھیں دیتی۔یہ قدرتی، حیاتیاتی عمل ہے۔ایک کھجی کی کم از کم عمر پچاس سال ہوتی ہے۔کھجور کو پھل لگنے اور پکنے تک 6 سے 7 ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ پھل کے پورا ہونے سے لے کر”ڈوکا“ حالت تک بارش نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس لیے مون سون کا موسم ہمیشہ ہی کھجور کی فصل کے لیے مسئلہ رہا ہے۔ کھجور کو خشک اور بنجر زمینوں پر کاشت کیا جاتا ہے، جہاں پر خشک گرمی اور بہت کم بارشیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان، عمان، افریقہ میں سہارا ریگستان، امریکا میں کیلی فورنیا اور ایری زونا میں بارشیں کھجور کے پھل کو خراب کردیتی ہیں۔

خیرپور میں اوٹاکن کھجور کے پھل پر چند گھنٹے کی بارش بھی ڈوکا (کچی حالت) کی سطح پر دراڑیں ڈال دیتی ہے، جب کہ دوسری اقسام زیادہ قوت مدافعت رکھتی ہیں۔ بارش کھجور کو اس وقت نقصان پہنچاتی ہے جب اپنے وقت سے پہلے ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی لمبے عرصے کے لیے بادلوں اور نمی کی موجودگی میں ہلکی بارش بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔بہ نسبت اس کے اگر مطلع بالکل صاف اور خشک ہواؤں کے ساتھ بہت زیادہ تیز بارش ہو رہی ہو۔ کھجوروں میں تخم ریزی کے فوراً بعد پھل بننے میں کمی یا پھر پکنے کے دوران کھجوروں کے اوپر والی سطح پر دراڑیں پڑ جاتی ہیں، جس سے فصل خراب ہوجاتی اور اس پر پھپھوندی لگ جاتی ہے۔ کھجوروں کو مون سون کے برے اثرات سے بچانے کے لیے کئی قسم کے تھیلے نائیلون، سوراخوں والے کاغذ، آسانی سے آگ پکڑنے والے کاغذ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بارش کی وجہ سے کھجوروں کا درجہ حرارت گرِجاتا ہے، جس سے پکنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔کھجور کے گُچھوں کو ڈھانپنے کے لیے روایتی طور پر بنی ہوئی ہوا دار ٹوکریاں، جنہیں یہاں کی علاقائی زبان میں ”سوندھ“ کہا جاتا ہے، پکی ہوئی کھجوروں کو پرندوں اور زمین پر گرنے سے بچانے کے ساتھ بارش اور جھلسنے سے بچانے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے بیرون ملک سے منگوائے گئے، خاص تھیلے (ٹائی وک) بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جنہیں کسی بھی پھل دار درخت پر چڑھایا جاسکتا ہے۔ ان تھیلوں کے بہت مثبت اثرات دیکھے گئے ہیں، لیکن ان تھیلوں کا غلط استعمال منفی اثرات بھی دکھاتا ہے، اگر انہیں مقررہ مدت کے بعد فوراً نہ اتارا جائے تو فصل خراب بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے ان تھیلوں کے استعمال میں احتیاط اور معینہ مدت کا خیال رکھنا چاہیے۔

اپنے دلکش سنہری رنگ کی وجہ سے ان کھجوروں کو”سندھ کا سونا“ بھی کہا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں گے کہ یہ سونا خوب خون اور پسینے کو بہانے کے بعد ہی کندن بنتا ہے۔کھجور کے پھل کی کٹائی میں سب سے اہم کردار درخت پر چڑھنے والے اس مزدور کا ہوتا ہے، جسے ”چاڑھو“کہا جاتا ہے۔ وہ درخت پر چڑھ کر کھجوروں کی تیار فصل کو کاٹنے کا کام کرتا ہے۔کھجوروں کی کٹائی ایک انتہائی محنت طلب کام ہے،کھجور کے اونچے اونچے درختوں پر چڑھ کر کلہاڑی کی مدد سے کھجوروں کے گچھے کاٹے جاتے ہیں جو بہت وزنی بھی ہوتے ہیں۔ انہیں درخت سے کاٹ کر نیچے گرایا جاتا ہے پھر ایک کے بعد دوسرے درخت پر چڑھ کر یہی کام کیا جاتا ہے۔ سخت گرمی میں جبکہ آسمان پر بادل نہ ہونے کے باعث زمین پر سائے کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ یہ کام بہت محنت طلب ہے اور ماہر سے ماہرشخص بھی ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 25 سے 30درختوں پر ہی چڑھ سکتا ہے۔ اس کام میں بہت خطرہ بھی ہے۔ درخت سے گرنے، کلہاڑی سے زخمی ہوجانے اور پیر چھل جانے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔بیشتر خواتین کے مرد حضرات کا ذریعہ معاش صرف فصل کی کٹائی سے ہی منسلک ہے اس کے علاوہ وہ سال کے دیگر مہینوں میں کوئی اورکام نہیں کرتے اور خواتین ہی اپنی جمع پونجی سے سال کے باقی ماندہ مہینوں میں اپنے گھر کا خرچہ چلاتی ہیں۔اسی لئے انہیں معاشرتی پابندیوں کے باوجود گھر میں بیٹھ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن انہیں ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا۔ جو بیوپاری ان خواتین سے یہ اشیاء خریدتے ہیں وہ ان خواتین کو کم معاوضہ دیتے ہیں جبکہ وہی اشیاء خود شہر میں دوگنی قیمت پر بیچتے ہیں۔مرد کھجوروں کو درختوں سے اتارتے ہیں جبکہ خواتین انہیں ڈالیوں سے جدا کرتی ہیں۔ مَردوں کے درمیان بھی مختلف کاموں کو بانٹا جاتا ہے اور ان کے کام اور محنت کو مدنظر رکھتے ہوئے اجرت دی جاتی ہے۔ ہر کام کی اجرت مختلف ہوتی ہے مثلاً جو لوگ اپنے کندھوں پر کھجوریں لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں انہیں 350 روپے روزانہ، اِسی طرح جو لوگ کھجوروں کو بڑے بڑے کڑاہوں میں پکاتے ہیں اور”چھوہارے“ بناتے ہیں انہیں روزانہ 500 اور درختوں پر چڑھ کر کھجوریں اتارنے والوں کو سب سے زیادہ اجرت یعنی 700 روپے روزانہ کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسا کام سر انجام دیتے ہیں جس میں گر کر چوٹ لگنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس صنعت میں سب سے زیادہ زیادتی صنفِ نازک کے ساتھ ہوتی ہے اور ان کوان کے کام اور محنت کے حساب سے سب سے کم اجرت دی جاتی ہے۔

طبی تحقیق کے مطابق بھی کھجور ایک ایسی منفرد اورمکمل غذا ہے جس میں ہمارے جسم کے لیے ضروری غذائی اجزاؤافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ“جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں وہ گھر ایسا ہے کہ جیسے اس میں کھانا نہ ہو“ اور جدید سائنس نے اب یہ بات ثابت کردی ہے کہ کھجور ایک ایسی منفرد اور مکمل خوراک ہے جس میں ہمارے جسم کے لیئے تمام ضروری غذائی اجزاؤافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔جدید تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کھجور گلوکوز اور فرکٹوز کی شکل میں قدرتی شکر پیدا کرتی ہے جو فورا جزوبدن بن جاتی ہے۔ کھجور کے 100گرام خوردنی حصے میں 15.3 فیصد پانی، پروٹین 2.5 فیصد چکنائی 0.4 فیصد معدنی اجزاء 2.1 فیصد ریشے، 3.9 فیصد اور کاربو ہائیڈریٹس 75.8 فیصد پائے جاتے ہیں۔ کھجور کے معدنی اور حیاتی اجزاء میں 120 ملی گرام کیلشیم 50 ملی گرام فاسفورس 7.3 ملی گرام فولاد، 3 ملی گرام وٹامن سی اور تھوڑی سی مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ کھجور کی 100 گرام مقدار میں 315 کیلوریز ہوتی ہیں جو صحت مند زندگی گزارنے کیلئے ایک انسان کیلئے روز مرہ کی معقول غذائی ضرورت ہے۔

کھجور کی صنعت سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے کھجور کی صنعت پر کبھی بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی،اس لیئے کھجور کی صنعت اور اس سے وابستہ افراد ہنوذ سندھ حکومت کی خصوصی توجہ کے منتظر ہیں۔حیرت کی بات تو یہ خیرپور سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے بزرگ سیاستدان تین بار وزیراعلیٰ سندھ کے اہم ترین منصب پر فائز رہے لیکن اس کے باوجود بھی حکومت ِ سندھ کی طرف سے کھجور کی صنعت کے لیئے آج تک کسی بھی قسم کی سرکاری پالیسی بنانے کا نہیں سوچا گیا۔ ا گر سندھ حکومت کی طرف کھجور کو محفوظ کرنے کے لیے سندھ بھر میں صرف اسٹور زہی قائم کردیئے جائیں تو کھجور کی صنعت میں حیرت انگیز حد تک بہتری آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 16 مئی 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں