Global Development of Modest Fashion Industry

حلال فیشن

جیسے ہی موبائل کی گھنٹی بجی اور میں نے آنے والی فون کال کو سننے کے لیئے موبائل کان سے لگایا، دوسری جانب سے انتہائی منحنی سی آواز سنائی دی کہ ”جناب،میں فیصل بات کررہاہوں،ساہی وال سے،حلال ایجوکیشن پر آپ نے ایکسپریس سنڈے میگزین میں جو مضمون لکھا تھا،وہ بے حد معلوماتی ہی نہیں بلکہ ہم طلباء طالبات کے لیئے انتہائی کارآمد بھی تھا،لیکن مضمون پڑھنے کے بعد حلال ایجوکیشن سے متعلق میرے ذہن میں جو مزید نئے نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں، اُن کے جوابا ت درکار ہیں،کیا آپ رہنمائی فرمائیں گے؟“۔

”سب پہلے تو شکرگزار ہوں کہ آپ نے تحریر کو انہماک اور دلچسپی سے پڑھا اور اس پراپنی قیمتی رائے کا اظہار بھی کیا،رہی بات رہنمائی کی تو اپنے محدود علم کے مطابق جتنی معاونت کرنے کے قابل ہوا،ضرور فراہم کرنے کی مقدور بھر کاوش کروں گا“۔میرا جواب سُن کر گویا فیصل کو ”لائسنس ٹو کال“ مل گیا اور اُس نے حلال ایجوکیشن پر اُوپر تلے ایک ہی سانس میں پانچ،چھ سوالات کردیئے“۔فیصل کے تمام سوالات بارِ دگر سننے اور سمجھنے کے بعد،اُن کے ضروری اورتفصیلی جواب دینے کا دورانیہ کم ازکم نصف گھنٹہ پر محیط رہا اور جب وہ مطمئن ہوگیا تو بالآخر میری جانب سے کال منقطع کردی گئی۔

یاد رہے کہ میرے موبائل فون پر فیصل کی آنے والی کال نہ تو پہلی تھی اور نہ ہی آخری۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حلال ایجوکیشن کو ایکسپریس سنڈے میگزین میں اشاعت پذیر ہوئے کئی ماہ بیت چکے ہیں لیکن آج تک میرے موبائل پر اِس مضمون کے متعلق وقفے وقفے سے کالیں موصول ہونے کا سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔نیز ای میل اور واٹس ایپ پر درج بالا مضمون کے متعلق تسلسل کے ساتھ موصول ہونے والے تحریری وآڈیو پیغامات اس کے علاوہ ہیں۔ رابطہ کرنے والوں کی اکثریت اُن نوجوان طلباء و طالبا ت پر مشتمل ہے جو کافی مدت سے ایسے تخصیصی مضامین کے متلاشی تھے،جن میں وہ تعلیمی اسناد حاصل کر کے اپنے کیرئیر اور مستقبل کو زیادہ سے زیادہ شانداراور محفوظ بناسکیں۔

بلاشبہ حلال ایجوکیشن نسبتاً ایک نیا شعبہ ہے۔اس لیئے یہ عین فطری سی بات ہے کہ اس شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند نوجوان اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ جان کاری و آگاہی حاصل کر کے اپنی خوب تسلی کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ ”جو بولے،وہی کنڈی کھولے“ والے محاورہ کے مصداق چونکہ حلال ایجوکیشن کا موضوع سب سے پہلے میری ہی ایک تحریر میں زیربحث آیا تھا، لہٰذا اَب لازم ہے کہ گزشتہ مضمون میں تشنہ رہ جانے والے عنوانات پر علحیدہ علحیدہ تفصیل سے روشنی ڈال لی جائے۔تاکہ قارئین کو حلال ایجوکیشن کے تصورِ تعلیم کو ذرا وضاحت کے ساتھ سمجھنے اور اُسے بطور کیریئر اختیار کرنے میں مزید سہولت و آسانی میسر آسکے۔زیر نظر مضمون میں حلال ایجوکیشن کے ایک اہم ترین ذیلی شعبہ ”حلال فیشن“کی درست تعریف و تفہیم، اہمیت و افادیت اور امکانا ت کا مختصر سا جائزہ پیش خدمت ہے۔

”حلال فیشن“سے کیا مرادہے؟
انگریزی لفظ فیشن (Fashion) کے لیئے مترادف لفظ عربی لغت میں ”زینت“ موجود ہے۔ یاد رہے کہ دین اسلام ”زینت“ یعنی فیشن کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔ لیکن ہادی عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام معاملات میں خواہ،وہ مذہبی نوعیت کے ہوں یا رسم و رواج سے متعلق ہوں،اُن کے لیئے ایک حد بندی اور کچھ اُصول و ضوابط ضرور متعین کردیئے ہیں۔ اگر اسلام کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر کوئی بھی مسلمان مرد،یا عورت کی جانب سے فیشن کو اپنایا جاتا ہے تو اس میں کوئی عیب یا گناہ نہیں۔ بلکہ اسلام تو ایک ایسا الہامی مذہب ہے، جو اپنے متعلقین کو باطنی صفائی کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت و خوب صورتی برقرار رکھنے کے لیئے بھی خصوصی تعلیم دیتا ہے۔ مثلاً شریعت مطہرہ میں ناخن تراشنا، بال بنوانا اور اچھا لباس پہننے کے واضح احکامات متعدد احادیث میں پوری صراحت اور جزیات کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔دراصل اسلام صرف مذہبی عبادات اور فقہی قوانین کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے۔ اس لیئے اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک بے مثال معاشرہ اور ایک عمدہ تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ بے نظیر رسوم ورواج دیتے ہوئے پابند کرتاہے کہ وہ رہبانیت اختیار کرنے سے گریز اور پراگندہ بال،گرد آلودچہرہ اور حال سے بے حال ہونے سے حتی المقدور حد تک اجتناب برتیں۔ ایک حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ”اللہ سبحانہ و تعالیٰ خوب صورت ہے،خوب صورتی کو پسند فرماتاہے“۔اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوگاکہ اپنے لباس کو دین اسلام کی ہدایت کے عین مطابق آراستہ کرکے ستر پوشی کا موثر وسیلہ بنانا،یا ناخن تراشنے،زلفیں سنوارنے،دانتوں کو چمکانے،چہرے کو تروتازہ و شگفتہ رکھنے اور اپنے جسمانی وجود کی صفائی ستھرائی یقینی بنانے کے لیئے مضر صحت اشیاء سے گریز کرتے ہوئے اسلامی احکامات کو پیش نظر رکھنا ہی تو ”حلال فیشن“ ہے۔

”حلال فیشن“امکانات کا جہانِ نو
کچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے، پروگرام کے میزبان کی جانب سے کیئے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ”معاشرے میں بے راہ روی کے پنپنے کی بے شمار وجوہات میں سے ایک بڑا سبب لباس کا غلط انتخاب بھی ہے“۔وزیراعظم پاکستان کے اس بیان پر جہاں پاکستانیوں کی بڑی اکثریت نے اظہار مسرت کرتے ہوئے اسے مسلم تہذیب و ثقافت کی دیارِ غیر میں وکالت قرار دیا، وہیں دوسری جانب ملک اور بیرون ایک اقلیتی طبقہ ایسا بھی تھا،جس کے نزدیک عمران خان کی گفتگو کا یہ حصہ خواتین کی شخصی آزادی پر شب خون مارنے کے مترادف تھا۔ ابھی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مناسب اور غیر مناسب لباس پر ہونے والی بحث کی گرد پوری طرح سے بیٹھی بھی نہیں تھی کہ”مرے کو مارے شاہ مدار“کے عین مصداق پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں امریکی افواج کے عبرت ناک فوجی انخلاء کے درمیان میں ہی طالبان کو اقتدار حاصل ہوگیا اور حیران کن طور پر اگلے ہی لمحہ افغانستان بھر میں مغربی لباس کی جگہ افغانیوں کا روایتی پہناوا پوری طرح سے رواج پاچکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکارف، چادر، برقع، ٹوپی اور پگڑی پہننے سے کسی فرد کی شخصی آزادی متاثر ہوتی ہے یا نہیں یہ بحث و مباحثہ عالمی ذرائع اور سوشل میڈیا پر سردست ابھی بھی ٹا پ ٹرینڈ پر ہے۔ مغربی طرزِ بود و باش اور مسلم ثقافتی لباس کی اہمیت و افادیت کا یہ ابلاغی تنازعہ مستقبل قریب میں کیا رخ اختیار کرتا ہے،فی الحال نہ تو یہ ہمارا موضوع تحریر ہے اور نہ ہی اس بابت، کوئی یقینی پیش گوئی کی جاسکتی۔لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر افغانستان میں مغربی تہذیب و ثقافت کے سرخیل امریکا کو عسکری و سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے،تو یقینا اس واقعہ سے دنیا بھر میں مسلم ثقافت کی قدرو قیمت میں بھی ضرور اٖضافہ ہوا ہوگا۔ چونکہ”حلال فیشن“کی اصطلاح دنیا بھر میں متعارف ہی مغربی فیشن کے متبادل کے طور پر کی گئی ہے۔اس لیے تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں آنے والے ایام میں ”حلال فیشن“کی صنعت میں زبردست بڑھوتری اور فروغ کی یقینی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

جیسا کہ رواں برس جاری ہونے والی ’’اسلامی معیشت کی عالمی صورت حال کی رپورٹ“ (State of the Global Islamic Economy Report 2020-21) میں حلال تجارت کے روشن مستقبل کے لیئے جن شعبہ جات کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔اُن میں ”حلال فیشن“ کی صنعت کو سرفہرست رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ”گزشتہ کئی برسوں سے ”حلال فیشن“ کی صنعت کے پھلنے پھولنے کے امکانات میں اضافہ، صرف مسلم ممالک تک ہی محدوو نہیں رہا ہے، بلکہ ”حلال فیشن“ کی صنعت بڑی تیز رفتاری کے ساتھ بھارت سمیت امریکہ، برازیل، فرانس، روس، چین، ارجنٹائن، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا،اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور تھائی لینڈ کی معیشت میں بھی مرکزی حیثیت حاصل کرتی جارہی ہے۔ سب سے خوش گوار با ت یہ ہے کہ اِن ممالک میں رہنے والے غیرمسلم صارفین کی ایک بڑی اکثریت بھی بڑی تیزی کے ساتھ ”حلال فیشن“ کی جملہ مصنوعات کی جانب راغب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
دراصل مغربی فیشن کی معروف مصنوعات خاص طور پر آرائش و زیبائش کے سامان کی تیاری میں بعض جانور وں کا خون،فضلہ اور دیگر ناجائز وحرام اجزا کا استعمال عام کیا جاتاہے۔اس لیئے جہاں مسلمان افرادکے نزدیک ایسی اشیاء سے پرہیز کرنا ضروری ہے،وہیں اَب غیر مسلم افراد کی خاصی بڑی تعداد بھی کاسمیٹکس مصنوعات میں مضر صحت اجزا شامل ہونے کی بناء پر ”حلال فیشن“ کے ذیل میں دستیاب آرائشی سامان خریدنے کو ترجیح دے رہی ہے۔جس کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں حلال کاسمیٹکس، اسکارف، عبایا،برقعے اور یگر آرائشی زیب وزینت کی سامان کی کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ شاید اسی لیئے مذکورہ، رپورٹ میں آئندہ پانچ برسوں میں ”حلال فیشن“ کی صنعت میں ترقی (Growth) میں 3.9 فیصد سے لے کر 7.3 فیصد کی رفتار سے شرح نمو میں اضافہ کا قوی امکان ظاہر کیا گیاہے۔

دوسری جانب عالمی معیشت میں ”حلال فیشن“ کی تیز رفتار شرح نمو نے فیشن مصنوعات بنانے والی بڑی کمپنیوں اور بڑے برانڈز کو بھی اپنی سمت متوجہ کیا ہے اور اَب فیشن انڈسٹری کے شعبے میں سکندر وانگ(Alexander Wang) کیلون کلین(Calvin Klein)، ورسیسے(Versace)، لنون(Lanyon)، ڈائر(Dior)، چینل(Chanel)، بلینسیگا(Balenciaga)، اور مارک جیکبز (Marc Jacob)جیسے بڑے بڑانڈز بھی ”حلال فیشن“ کے شعبہ میں وسیع سرمایہ کاری کررہے ہیں۔مثال کے طور پر گزشتہ برس AW18 فیشن شو میں بھی پہلی بار مسلم خواتین کے لیے ملبوسات کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔جس میں مسلم خواتین کے ملبوسات کی بڑے پیمانے پر نمائش کی گئی۔’’حلال ایکسپو“ کے موقع پر سجائے گئے اس فیشن شو کو ”مسلم فیشن شو“ کا نام دیا گیاتھا اور اس منفرد فیشن شو میں ماڈلز دیدہ زیب ملبوسات اور اسکارف پہن کر ریمپ پر جلوہ گر ہوئیں تھیں۔حاضرین نے بھی خوبصورت حجاب،عبایا اور اسکارف کے حیادار متزاج کو بہت پسند کیا اور اسے بنانے اور پیش کرنے والے ڈیزائنرز، اور ماڈلز کو خوب داد دی۔

یاد رہے کہ 2016 میں، ڈولس اینڈ گبانا (Dolce & Gabbana)نے حجاب اور عبایا سے مزین ملبوسات کا ایک خصوصی برانڈ فروخت کے لیئے پیش کیا تھا۔ جبکہ اینیسیہ ہسیبوان (Anniesa Hasibuan) انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی وہ پہلی فیشن ڈیزائنر تھیں جنہوں نے این وائی ایف ڈبلیو کے اسٹور میں حجاب کی ایک پوری رینج پیش کی تھی۔جسے مغربی ممالک میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور کمپنی کو دنیا بھر سے اس کے ریکارڈ آن لائن آرڈرز موصول ہوئے تھے۔”حلال فیشن“ کے مستقبل کے متعلق ”حلال فوٹو گرافی“ کی بانی اور معروف فیشن فوٹو گرافر حلیمہ بیگم کا کہنا ہے کہ ”جب سے انہوں نے WWAGS اسٹوڈیو، میں حجاب،اسکارف اور عبایا سے آراستہ خواتین کی اسٹائلش فوٹوگرافی کا آغاز کیا ہے، اُن کی آمدنی میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنے والا کل صرف ”حلال فیشن انڈسٹری“کے فروغ کا ہے“۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اسی برس نومبر میں مشہور و معروف اولمپک ویٹ لفٹر آمنہ الحداد کی تجویزکی بنیاد پر،دنیا کی مقبول ترین کھیلوں کا سامان بنانے والی کمپنی نائکی (Nike)نے پرو حجاب(Pro Hijab) تیار کیا تھا، جسے بعد ازاں ایک بین الاقوامی فیشن مقابلہ میں بیجلے فیشن ڈیزائن آف دی ایئر کے اعزازسے بھی نوازا گیاتھا۔ نائیکی پروحجاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کمپنی کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ”پرو حجاب خصوصی طور پر حجاب اوڑھنے والی مسلم خواتین ایتھلیٹس کے لیے متعارف کروایا گیا ہے تاکہ انہیں کھیل کے دوران یا کھیلوں میں حصہ لینے پربھی کوئی دقت محسوس نہ ہو۔ نیز پرو حجاب کو متعارف کروانے کی وجہ اسپورٹس میں خواتین کھلاڑیوں کا حجاب پہننے کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے“۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم کھلاڑیوں کی دیکھا دیکھی کئی غیر مسلم خواتین کھلاڑیوں نے بھی پرو حجاب کو دوران کھیل استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔پروحجاب کی مقبولیت ظاہر کرتی ہے کہ ”حلال فیشن“ کی صنعت میں ترقی کے زبردست مواقع موجود ہیں۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اگر مسلم ممالک دلچسپی لیں تو”حلال فیشن“ انڈسٹری کی ذیل میں وہ 230 بلین ڈالر کا حصہ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔

حلال فیشن میں اعلی تعلیم کی ضرورت،اہمیت اور افادیت؟
ویسے توآج کل ہرصنعتی شعبے میں ہی واجبی تعلیم کے حامل افراد کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء و طالبات کے لیئے ترقی و کامیابی کے زائد مواقع دستیاب ہیں۔لیکن چونکہ فیشن انڈسٹری تو نام ہی جدت اور اختراع کا ہے۔اس لیئے فیشن انڈسٹری کو بطور کیرئیر اختیار کرنے والے افراد کے لیئے تو لازم و ملزوم ہے کہ وہ اس صنعت میں آگے بڑھنے کے لیئے درکار تمام جدید تقاضوں سے کماحقہ آگاہ ہوں۔ ”حلال فیشن“ میں تخصیصی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ آپ اس واقعہ سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ کچھ ماہ قبل پاکستان کی سب سے معروف میٹرس یعنی گدے بنانے والی کمپنی نے ”حلال میٹرس“ کے نام سے اپنی مصنوعہ فروخت کے لیئے پیش کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ابھی مذکورہ کمپنی نے ”حلال میٹرس“ فوم کا تعارفی اشتہار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ہی پوسٹ کیا تھا کہ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ”حلال میٹرس“ اور اسے متعارف کروانے والی کمپنی کی میمزاور کڑوے کسیلے جملوں سے اتنی بھد اُڑائی گئی کہ بالآخر چند گھنٹوں کے اندر،اندر کمپنی کو نہ صرف اپنی ویب سائٹ سے ”حلا ل میٹرس“فوم کا اشتہار ہٹانا پڑا،بلکہ کمپنی کی جانب اس منفرد مصنوعہ کی فروخت کا تمام منصوبہ بھی ملتوی کردیا گیا۔

واضح رہے کہ بطور ایک مصنوعہ ”حلا ل میٹرس“ میں قطعاً کوئی خامی نہیں تھی مگر چونکہ مذکورہ کمپنی کو ”حلال فیشن“ کی تخصیصی تعلیم کے حامل افراد کی خدمات حاصل نہیں تھی۔ اس لیئے ایک منفرد اور کارمد مصنوعہ کی پیشکش کچھ اس قدر بھونڈے اندا زمیں کی گئی کہ ”حلا ل میٹرس“ کی لانچنگ کا منصوبہ ایک تجارتی سنگ میل بننے کے بجائے لوگوں کے لیئے مذاق بن کر رہ گیا۔ دراصل بعض اداروں کے متظمین کا یہ سمجھنا کہ فقط کسی شئے کے ساتھ لفظ ”حلا ل“ کا لاحقہ لگادینے سے اُس چیز کا شمار ”حلال مصنوعات“ کی ذیل میں کرلیا جائے۔یہ ایک ایسی خام خیالی اور کوتاہ علمی ہے، جس کا علاج حلال ایجوکیشن کی تحصیل سے سوا کچھ بھی نہیں۔

یا در رہے کہ جس طرح فیشن انڈسٹری سمیت ہر صنعتی شعبے کی تیکنیکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں مختلف عنوانات کی ذیل میں درس و تدریس کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ بالکل اُسی اُصول پر اَب دنیا کے کئی بڑے اداروں میں ”حلال فیشن“کی تدریس کا عمل بھی باقاعدہ طور پر شروع ہوچکا ہے۔مثلاً بھارت، امریکہ، برازیل، فرانس، روس، چین، ارجنٹائن، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا،اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور تھائی لینڈ میں کئی تعلیمی اداروں میں ”حلال فیشن“ کے موضوع پر سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورسز کروائے جارہے ہیں۔جبکہ ملائشیا، انڈونیشیا وغیرہ ایسے ممالک کی صف میں شامل ہیں جہاں ”حلال فیشن“ پر کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر گریجویٹ،ماسٹرز اور پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرنے کی سہولت موجود ہے۔

”حلا ل فیشن“ کی تعلیم کس کی ضرورت ہے؟
سب سے پہلے تو یہ نقطہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ ”حلال فیشن“ کی تعلیم کیرئیر کی منزل مقصود تک لے جانے والی کوئی شاہراہ عام یا پکی سٹرک نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا کچا پکا سا راستہ ہے،جو ابھی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ اس لیئے ”حلال فیشن“ میں تخصیصی تعلیم فقط اُن طلباو طالبات یا ایسے چنیدہ افراد کو ہی حاصل کرنے کی خواہش رکھنی چاہئے۔جن کے کیرئیر کا براہ راست تعلق فیشن انڈسٹر ی کے کسی بھی شعبے سے بنتا ہویا مستقبل قریب میں بننے کا امکان پایا جاتاہو۔ مثلاً کاسمیٹکس، بیوٹیشن،ہیر سیلون، بوتیک، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ،فیشن شوز، فوٹوگرافی، انٹرئیر ڈیزائننگ یا آرائش و زیبائش و ملبوسات کی صنعت و تجارت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طو رپر منسلک افراد یا ایسے طلباو طالبات، جو اِن میں کسی شعبے بھی کو بطور کیرئیر اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں،اُن سب کے لیے بلاشبہ ”حلال فیشن“ کی تخصیصی تعلیم مستقبل میں بے حد کارآمد اور مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں سیلز مین، مرچنٹ ڈائزر، اسٹائلسٹ، پبلک ریلیشن آفیسر، انونٹری پلانر،فیشن ڈیزائنر، گرافک ڈیزائنر،کریٹیو ڈائریکٹر، پروڈکٹ ڈویلپر، ٹیکنیکل ڈیزائنر،کوالٹی ایشورینس منیجر اور پروڈکشن منیجر وغیرہ جیسے شعبہ میں ملازمت کرنے والے افراد کے لیئے بھی ”حلال فیشن“ کے شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے سے مزید آگے بڑھنے کے کئی نئے اور نفع بخش مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔

”حلال فیشن“کی تعلیم کہاں سے حاصل کریں؟
جیسا کہ ہم نے مضمون کی ابتداء میں بتایا تھا کہ دنیا کی کئی نامور تعلیمی درس گاہوں میں ”حلال فیشن“ یا موڈیسٹ فیشن (Modest Fashion) کے موضوعات پر مختلف عنوانا ت کے تحت سرٹیفکیٹ کورسز، ڈپلومہ اور ڈگری کورسز کروائے جارہے ہیں۔ جبکہ بعض بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی جانب سے آن لائن کورسز کرنے کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں اس شعبہ باقاعدہ تعلیم فراہم کرنے والے تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو یہاں ابھی تک صرف منہاج یونیورسٹی لاہور میں ”حلال فیشن“ کے موضوع پر باقاعدہ درس و تدریس کا آغاز ہوا ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ منہاج یونیورسٹی لاہور ”حلال فیشن“ میں سرٹیفکیٹ کورسز کے علاوہ ڈپلومہ اور ڈگری کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کی سہولت بھی فراہم کررہی ہے۔

علاوہ ازیں یہ یونیورسٹی مختلف مواقع پر ”حلال فیشن“ کی تعلیم کے حصول کی جانب طلباء و طالبات کو زیادہ سے زیادہ راغب کرنے کے لیئے وقتا فوقتا سیمینار ز اور ورکشاپس کا انعقاد بھی کرتی رہتی ہے۔ جس میں ”حلال فیشن“ کی مختلف جزیات پر تفصیلی روشنی ڈال کر سامعین و ناظرین کو بتایا جاتاہے کہ مستقبل قریب میں ”حلال فیشن“ کی صنعت،عالمی معیشت بالخصوص پاکستانی معیشت میں کس قدربہتری اور ترقی کا باعث ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ منہاج یونیورسٹی کی جانب سے منعقد ہونے والی ”حلال فیشن“ آگہی ورکشاپس میں شرکاء کا داخلہ بالکل مفت ہوتاہے۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ جو قارئین ”حلال فیشن“ کے متعلق مزید معلومات، رہنمائی یا اس شعبہ کو بطور کیرئیر اختیار کرنے کے حوالے سے کسی بھی مفید مشورہ کے خواہش مند ہوں۔ وہ بلا کسی تاخیر منہاج حلال کے آفیشل فیس بک کے مندرجہ ذیل لنک https://bit.ly/2YWklPb کو وزٹ کرکے بذریعہ انباکس اپنے مختصر پیغامات منہاج حلال کے منتظمین کو بھیج کر آئندہ منعقد ہونے والے سیمینارز یا ورکشاپ کے لیئے مفت آن لائن رجسٹریشن کروالیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں 24 اکتوبر 2021 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں