General-Muzaffar-Usmani-Death

ہر وار میں مضمر تری حکمت ہے سپاہی

پاک فوج میں کیسے کیسے گوہر نایاب اور نازک آبگینے موجود ہیں،اکثر کو تو ہم جان ہی نہیں پاتے کیونکہ افواج پاکستان کے ہاں تربیت کا پہلاقرینہ ہی یہ طے کیا گہاہے کہ”صلے اور ستائش کی تمنادل میں پالے بغیرپوری لگن اور اخلاص کے ساتھ وطن عزیز کی خدمت کیئے جاؤ،یہاں تک کہ تم شہید ہوجاؤ یا پھر غازی بن جاؤ“۔تربیت کے اسی سنہری اُصول کو حرز جاں بنا کر پاک فوج کے نہ جانے کتنے درخشندہ ستارے ملک و ملت کی قسمت کو جگمگا کر خاموشی کے ساتھ تہہ ا فلاک گم ہوگئے اور ہمیں خبر ہی نہ ہو سکی۔ہماری افواج کے لشکر جرار سے تعلق رکھنے والا ایسا ہی ایک تابندہ غازی اور پراسرار سا بندہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی بھی تھا۔ اگر جنرل کے طاقت ور ترین عہدے سے سبکدوش ہونے والا کوئی شخص 30 سال پرانی گاڑی چلاتے ہوئے اپنی جان،ایک روز چپ چاپ جانِ آفرین کے سپرد کردے۔ سادگی کے ایسے مادھو کو ہم ولی اور صوفی نہ قرار دیں تو پھر اور کیا کہیں۔خوش قسمتی سے یہ وہ ہی جنرل عثمانی ہیں جنہوں نے اکتوبر 1998 میں کور کمانڈر کراچی کی حیثیت سے اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے افواجِ پاکستان کی سالمیت پر مارے جانے والے شب خون کو ناکام بنانے میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ واضح رہے کہ جب نواز شریف نے پرویز مشرف کا طیارہ پاکستان میں اُترنے سے روکنے کا سرکاری حکم نامہ جاری کردیا تھا تو جنرل مظفر عثمانی نے فقط چند لمحوں میں کراچی ائیرپورٹ کو اپنے زیر انتظام لے کر نہ صرف پرویز مشرف کے طیارہ کی ائیرپورٹ پر بحفاظت لینڈنگ یقینی بنائی،بلکہ پاکستانی افواج کے خلاف ہونے والی ممکنہ بغاوت کے سانپ کا سر اس سفاکی سے کچلا کہ ریاست پاکستان کے دشمنوں نے واپس اپنے کونے،کھدروں میں چھپ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔

یہ بھی پڑھیے: پاک فوج اور طلباوطالبات کا باہمی تعلق

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی نے ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے تک ترقی پائی اور ہلالِ امتیاز سے بھر سرفراز ہوئے۔جنرل مظفر عثمانی حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت سپاہی تھے۔یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے اقتدار پر متمکن ہونے کے باوجود بھی، اُن سے کبھی کسی اضافی مراعات یا سہولت کا تقاضا نہیں کیا۔کیونکہ جنرل مظفر عثمانی کے نزدیک پاک فوج میں ملازمت ہی وہ عظیم ترین سعادت تھی جس کے بعد کسی اور اعزاز کی حاجت باقی ہی نہ رہتی تھی۔ بعض عاقبت نا اندیش تجزیہ کار اُن کی اس قناعت پسندی کو پرویز مشرف کے ساتھ ناراضگی سے تعبیر کرتے ہوئے کہیں بہت دور سے یہ ”سازشی کوڑی“ تلاش کر کے لے آتے ہیں کہ جنرل مظفر عثمانی کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ سنگین ترین اختلاف ہو گیا تھا۔لہٰذجنرل (ر)ا پرویز مشرف کی جانب سے انہیں ہلال امتیاز دے کر ریٹائر کردیا گیا۔ حالانکہ اس سازشی نظریے میں کچھ سچائی اس لیئے بھی نہیں ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد معمول کے مطابق ہی ریٹائر ہوئے تھے اور کوئی ایسے شواہد موجود نہیں ہیں کہ ان پر ریٹائر ہونے کے لیئے دباؤ ڈالا گیا ہو۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انہوں نے سابق صدر مملکت جنرل (ر)پرویز مشرف سے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کسی پرکشش عہدہ یا دیگر مراعات کا تقاضا کیوں نہیں کیا؟۔اس متعلق اَب آپ خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ کیا جنرل مظفر عثمانی کی جانب سے ریٹائر ہوجانے کے بعد خاموشی سے گھر بیٹھ جانے کو اُن کی فطری سادگی اور خوبی پر محمول کر کے اُن کی تحسین و توصیف کرنا زیادہ بہتر ہوگا؟ یا اس رائی کے دانے کا پہاڑ بناکر ایک پاک طینت شخص کی کردار کشی کرنا زیادہ مناسب طرز عمل ہوگا؟۔

اصل بات یہ ہے کہ بعض لوگ پاک فوج کی نفرت میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنے سامنے پڑی ہوئی اظہر من الشمس ”سچائی“ بھی دکھائی نہیں دیتی یا پھر یہ لوگ چند مفادات کے حصول کے لالچ میں جان بوجھ کر ہر سچائی کو اَن دیکھا کردیتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیئے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی کی موت تکلیف اور پریشانی کا باعث اس لیئے بھی تھی کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر جب جنرل مظفرعثمانی کی سادگی سے بھرپور زندگی اور سکون بھری موت کا تذکرہ ہوا تویہ خبر اُس”مذموم بیانیے“ سے یکسر مختلف تھی،جس طرح کا ”سیاسی بیانیہ“آج کل یہ بدطینت لوگ پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف پھیلانے کی کوشش کررہے تھے۔اس لیئے غالب گمان یہ ہی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی کی موت کی خبر سے یقینا ان کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے ہوں گے۔ کیونکہ پاکستانی عوام بخوبی جانتی ہے کہ پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے والوں کے تو فرنٹ مین بھی اربوں کے اثاثے اور کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں میں فراٹے مارتے گھومتے ہیں۔لیکن دوسری جانب پاک فوج کا ایک جنرل 30 سال پرانی گاڑی چلانے میں بھی کوئی عار اور شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ کردار اور گفتار کا یہ وہ واضح فرق ہے،جسے اگر ہمارے جمہوری حکمران سمجھ لیں تو وہ پھر کبھی یہ شکوہ اور شکایت نہ کریں کہ ”پاکستانی عوام ہر بحرانی صورت حال میں مدد و اعانت کے لیئے پاک فوج کی جانب کیوں دیکھتی ہے؟“۔

ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ مال و متاع کے لالچ اور اقتدار کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے نام نہاد سیاسی و انقلابی رہنما لاکھ اپنے سیاسی پنجوں پر کھڑا ہوکر خود کو بلند کرنے کی کوشش کرلیں لیکن یہ سب پاکستانی عوام کی نظروں میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی جیسے سپاہیوں کے سامنے پہلے بھی بوزنے تھے اور آئندہ بھی بوزنے ہی رہیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی کی سعید روح کو ریاستِ پاکستان کے تحفظ کے لیئے کی جانے والی مخلصانہ کاوش کے عوض اپنی رحمت کے جلو میں مقامِ خاص عطافرمائے اور پاک فوج کے ہر سپاہی کو جنرل مظفر عثمانی کا پرتو بنا دے۔ اس مناسبت سے معروف شاعر ضیافاروقی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہر وار میں مضمر تری حکمت ہے سپاہی
ہر جیت کا مژدہ، تری تلوار سے نکلا

حوالہ: یہ کالم سب سےپہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 08 اکتوبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں