future-of-oppositin-alliance-pdm-in-pakistan-politics

پی ڈی ایم کا ماضی حال اور مستقبل

پاکستان پیپلزپارٹی نے اگر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاست میں ایک نئی روح پھونک ہی دی ہے تو آخر اس میں اتنی حیرت کیا؟۔جبکہ سیاست تو نام ہی دستیاب مواقع سے زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد برآمد کرنے کا ہے۔ویسے تو سندھ حکومت کی انتظامی شکل و صورت میں پارلیمانی نظام میں پہلے ہی سے پاکستان پیپلزپارٹی کے مفادات حصہ بقدرِ جثہ کے مصداق وابستہ تھے،لیکن اَب ایوانِ بالا میں سید یوسف رضا گیلانی کے اپوزیشن لیڈرمنتخب ہونے کے بعد تو پارلیمانی نظام کی حیثیت و اہمیت پیپلزپارٹی کے نزدیک مزید کئی گناہ بڑھ گئی ہے۔

یقینا ایک ڈانواں ڈول پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے بطور ایک اپوزیشن جماعت جس قدر سیاسی فوائد سمیٹے جانے کی توقع کی جاسکتی تھی، وہ تمام کے تمام سیاسی فوائد پاکستان پیپلزپارٹی،کمال سیاست سے حاصل کر چکی ہے۔ اَب آصف علی زرداری کی بَلا سے پی ڈی ایم اتحاد باقی رہے یا نہ رہے،اُس سے کوئی خاص فرق کم ازکم پیپلزپارٹی کی سیاسی صحت پرتو پڑتا نظر نہیں آتا۔ ہاں! جس انداز میں پاکستان پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا ہے،اُس منفرد ’’سیاسی واردات“سے بلاشبہ مسلم لیگ ن کو ایک بڑی کاری”سیاسی زک“ ضرورپہنچی ہے۔ جس کی شدت کا اندازہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے جاری ہونے والے بیانات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتاہے۔

دلچسپ با ت یہ ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیئے مسلم لیگ (ن) کے نامزد اُمیدوار، اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے 21 سینیٹرز کے دستخط کے ساتھ درخواست جمع کرائی گئی تھی جبکہ یوسف رضا گیلانی کی درخواست پر 31 سینیٹرز کے دستخط تھے۔ یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں پیپلزپارٹی کے 21، اے این پی کے 2، جماعت اسلامی کے ایک، سابق فاٹا کے 2 اور دلاور گروپ کے 5 سینیٹرز نے ووٹ دیا، ن لیگ کے 17، پختونخوا میپ کے 2 اور نیشنل پارٹی کے 2 سینیٹرز نے اعظم نذیر تارڑ کا ساتھ دیا،جے یو آئی (ف) کے 5 ارکان غیر جانبدار رہے۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے درخواستوں پر ایک ایک سینیٹر سے ان کے دستخط کی تصدیق کی جس کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ نے یوسف رضاگیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری کے عمل میں جان بوجھ کر حصہ نہیں لیا اور اسکے سینیٹر زنے کسی کو بھی ووٹ نہیں دیے۔جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کے پانچ ووٹ کم ہوئے۔اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن کے ووٹ کم ہوئے نہیں بلکہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت کم کرنے کا التزام کیا گیا تھا۔یعنی بظاہر مولانا فضل الرحمن بیانیے کی حدتک ضرور میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، لیکن اُن کی تمام تر سیاسی ہمدردی اور حمایت کے جملہ حقوق صرف اور صرف بنام،آصف علی زرداری محفوظ ہیں۔ اس لیئے فقط یہ کہنا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی بے وفائی کی ہے سراسر،اُدھورا سچ ہے۔جبکہ پورا سچ تو یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو ایوانِ بالا میں اپوزیشن لیڈر بنوانے کے جرم میں مولانا فضل الرحمن بھی برابر کے سہولت کار ہیں۔ مگر مسلم لیگ ن کی جانب سے طعن و تشنیع کا نشانہ فقط پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو ہی بنایا جارہاہے۔

واضح رہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے سَر پر سے معطلی کی لٹکی ہوئی تلوار نہ صرف ہٹ گئی ہے بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے غیر اعلانیہ طور پر صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین سینیٹ قبول کرکے پارلیمانی نظام کو من و عن تسلیم کرنے کا کڑوا گھونٹ بھی بھرلیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اِس غیر متوقع ”سیاسی اقدام“سے فوری طور پر پی ڈی ایم کو عضو معطل بناکر مقدر حلقوں کو اس بات کا واضح اشارہ دے دیا ہے کہ مستقبل قریب میں بلاول بھٹو زرداری تن تنہا ہی اپوزیشن رہنما کے طور پر وفاقی حکومت سے مختلف اُمور پر معاونت کے لیئے پوری طرح سے دستیاب ہیں اورغالب امکان یہ ہی ہے کہ حکومت بھی بلاول بھٹو زرداری کے اِس گرین سگنل کی سیاسی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے، بخوشی پیپلزپارٹی کے ساتھ ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں افہام و تفہیم کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر آمادہ ہوجائے گی۔مگر اِ س”حادثہ وقت“ سے یہ مراد ہر گزنہ لی جائے کہ پی ڈی ایم اتحاد کا خاتمہ بالخیر ہوگیا ہے۔پی ڈی ایم اتحاد،بدستور برقرار ہے اور مولانا فضل الرحمن اپنے اِس اتحاد کے گھن چکر میں اُس وقت تک مریم نواز کو اُلجھا کر رکھیں گے جب تک کہ مریم نواز کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری عمل میں نہیں آجاتی اور شہباز شریف ضمانت پر رہا ہوکر مسلم لیگ ن کی زمام اپنے ہاتھوں میں سنبھال نہیں لیتے۔

یا د رکھیئے گا کہ جس دن مریم نواز جیل گئیں اور شہباز شریف مسلم لیگ ن کی ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھ گئے،عین اُسی روز، پی ڈی ایم اپنی احتجاجی سیاست سے توبہ تائب کرکے انتخابی اتحاد میں تبدیل ہو جائے گی۔ مگر پی ڈی ایم کے زیرنگیں بننے والے اِس ممکنہ انتخابی اتحاد کا پاکستان پیپلزپارٹی کسی بھی صورت میں حصہ نہیں ہوگی۔ کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی 2023 کے انتخابات اپنی جداگانہ جماعتی حیثیت میں لڑنا چاہتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری نے گزشتہ چند ہفتوں میں تواتر کے ساتھ ایسے غیر مقبول، جارحانہ اور غیر متوقع سیاسی فیصلے کیئے ہیں،جن سے پیپلزپارٹی کی پارلیمانی حیثیت و اہمیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ ن صرف پارلیمانی میدان میں ہی نہیں بلکہ احتجاجی سیاست کے میدان میں بھی شرمناک اور عبرت ناک ہزیمت سے ہمکنار ہوئی۔ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہوا کہ پی ڈی ایم اتحاد کا ماضی مریم نوازقرار پائیں،حال مولانا فضل الرحمن کی سیاست کے نام رہا اور مستقبل بلاول بھٹو زرداری لے اُڑے ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 29 مارچ 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں