Speech

آزادی اظہار رائے کی آڑ میں

معروف کینیڈین ماہر تعلیم نارتھ روپ فرائی نے اپنی کتاب ”دی ایجوکیشن امیجی نیشن“ میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ”ہجوم اور آزادی اظہار ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ یعنی کوئی شخص اس وقت تک آزادی اظہار کے قابل نہیں ہو سکتا ، جب تک وہ یہ نہیں جان لیتا کہ زبان کو کیسے استعمال کیا جانا چاہیے۔ زبان کے استعمال کا یہ علم (جسے ہم نستعلیق گفتگو کا فن بھی کہ سکتے ہیں ) کسی بھی انسان کو پیدائشی طور پر نہیں ملتا (جیسا کہ اکثر ہجوم کی زبان بولنے والے اپنی دانست میں تصور کرلیتے ہیں ) ۔ بلکہ اسے رفتہ رفتہ سیکھنا پڑتا ہے اور اس کے لیے سخت محنت و ریاضت کرنا پڑتی ہے۔ یعنی آزادی اظہار کا درست استعمال باقاعدہ طور پر تربیت سے آتا ہے، جس طرح سفر سے پہلے یہ سیکھنا لازم ہے کہ چلا کیسے جاتا ہے“ ۔

نارتھ روپ فرائی کے مقدمہ کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ کسی بھی بالغ نظر اور باشعور معاشرہ یا سماج میں آزادی اظہار رائے کی آزادی لوگوں کو کڑی شرائط کے ساتھ ہی تفویض کی جاتی ہے اور قواعد و ضوابط کا یہ التزام فقط اس لیے روا رکھا جاتا ہے ۔ تا کہ کوئی شخص آزادی اظہار رائے کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی دوسرے فرد کی شخصی آزادی یا عزت و ناموس کو ہی اپنی گفتگو سے پامال نہ کرنا شروع کردے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے جن ترقی یافتہ ممالک میں بھی آزادی اظہار کا غلغلہ ہے وہاں ساتھ ہی ہتک عزت کے موثر قانون کے تحت سخت ترین سزاؤں کی عمل داری بھی قائم کی گئی ہے۔ یعنی مذکورہ ممالک میں آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال کرنے والے کو بہرحال عامیانہ گفتگو کی بہت بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے اور بعض اوقات بہتان طرازی، یاوہ گوئی اور الزام تراشی کرنے والے شخص کو اپنا سنگین جرم ثابت ہو جانے پر لاکھوں ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑ جاتا ہے۔

میرے خیال میں یہ ہتک عزت کے سخت ترین قانون کے نفاذ کا کرشمہ ہی ہے کہ مغربی و یورپی ممالک کی عوام اول تو اپنے کسی مخالف کے خلاف آزادی اظہار کا حق سرے سے استعمال ہی نہیں کرتے اور اگر بحالت مجبوری کبھی کبھار کرتے بھی ہیں تووہ اسے بروئے کار لانے میں حد درجہ شائستگی، تہذیب اور غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ کم ازکم ایک بات تو بہت اچھی سے جانتے ہیں ان کی زبان سے نکلا ہوا کسی کی دل آزاری کرنے والا ایک چھوٹا سا غلط لفظ لاکھوں ڈالرز میں پڑ کر ، انہیں زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم بھی کر سکتا ہے۔

یقیناً کسی بھی صحت مند معاشرے اور اعلیٰ اقدار کے حامل سماج کے لیے آزادی اظہار رائے بہت ضروری ہے مگر اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری ”ہتک عزت“ کے قانونی دائرے یا اچھی گفتگو کرنے وہ معروف آداب قائم کرنا ہیں، جوہر کس و ناکس کو آزادی اظہار رائے کے مہلک ہتھیار کا غلط استعمال کرنے سے روکتے ہیں۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی قوم کا ایک طبقہ اپنی ریاست سے مادر پدر آزادی اظہار رائے تو چاہتا ہے، مگر ”ہتک عزت“ کے قانون یا مہذب گفتگو کرنے کے کسی اصول کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہے۔

ویسے تو من حیث القوم ہم نے کبھی یہ سمجھنے کی کوئی سنجیدہ علمی کوشش ہی نہیں کی کہ آخرکار آزادی اظہار رائے کی درست تعریف ہے کیا؟ اوپر سے طرفہ تماشا یہ ہوا کہ پاکستانی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اقتدار پانے کی ہوس میں لفظ ”شعور“ کو اپنے مخالفین کے خلاف طعن و تشنیع اور گالم گلوچ کا نشانہ بنانے کے لیے نئے معنی پہنا کر آزادی اظہار رائے پر ایسا شب خون مارا کہ آزادی اظہار کے علمبردار ہی بالآخر یہ دہائی دینے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں ایسی آزادی اظہار رائے بالکل بھی نہیں چاہیے۔ جس میں کسی بھی اختلاف رائے کرنے والے کی شخصی آزادی کو اپنی دریدہ دہنی تلے کچل دی جائے اور بعد ازاں اس کی عزت و ناموس کی دھجیاں بکھیر کر یہ گمراہ کن نعرہ بلند کیا جائے کہ ”دیکھا عمران خان نے پاکستانی عوام کو کم ازکم شعور تو دے دیا ہے“ ۔

عمران خان کا دیا ہوا نام نہاد شعور جھوٹے الزام سے شروع ہوتا ہے اور گالم گلوچ پر جاکر ختم ہوجاتا ہے اور اس کا نشانہ ہر وہ شخص باآسانی بن سکتا ہے جس کی گفتگو یا تحریر میں گمراہ کن حقیقی آزادی سے اختلاف کا ذرہ برابر بھی شائبہ پایا جاتا ہو۔ حیران کن بات یہ ہے کہ منظم انداز میں وطن عزیز پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے نام پر اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے والی جماعت کے سربراہ عمران خان دنیا بھر کو اپنی تقریروں میں یہ باور کروانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کو پاکستان میں اظہار رائے کی سخت قدغن کا سامنا ہے۔

حالانکہ ریاست پاکستان نے ان کا نام نامی لیے بغیر الیکٹرانک میڈیا پر صرف بہتان تراشی، کذب بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کی جانے والی گفتگو پر پابندی عائد کی ہے۔ اب چونکہ موصوف مبنی بر حقائق سیدھی سادی سمجھ میں آنے والی گفتگو سرے سے کر ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا، بائیس کروڑ عوام میں صرف اکیلے انہیں ہی پاکستانی ذرائع ابلاغ پر بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ کور کمانڈرز میٹنگ، فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ نے ملکی دفاع کے ضامن سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ پچھتر سال میں ہمارا ازلی دشمن ملک بھی کبھی نہیں کر سکا تھا۔ لیکن اگر آپ کسی صاحب دانش و بنیش شخص سے رائے لیں تووہ بھی بڑے درد دل کے ساتھ یہ پکار اٹھے گا کہ عمران خان نے ہماری تہذیبی، ثقافتی اور اخلاقی قدروں کو اپنی لایعنی طرز گفتگو اور تخریبی سیاست سے جو ناقابل تلافی ضرر پہنچایا ہے۔ بلاشبہ ایسا نقصان بھی گزشتہ پچھتر برس میں ہمیں کسی دوسرے دشمن نے بھی نہیں پہنچایا۔ یہاں ملین ڈالر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کو مستقبل قریب میں اپنے ناقابل معافی جرم کی ایسی قرار واقعی سزا مل سکے گی، جو پچھتر سال میں ہمارے ملک میں کسی بھی دوسرے مجرم کو نہ مل سکی ہو؟

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 29 جون 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں