ایک بات تو طے ہی سمجھیں کہ اس بار سیاسی معرکہ نہ تو اسلام آباد کے پُرفضا مقام پر بپا ہونے جارہا ہے اور نہ ہی پنجاب کے زرخیز سیاسی میدان میں سیاسی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے کی تیاری کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔حد تو یہ ہے کہ صدیوں سے سیاسی کشمکش و محاذ آرائیوں کے طور پرشہرت رکھنے والے صوبہ خیبر بختونخواہ میں بھی سیاسی خون ریزی کو کوئی اِمکان”راویانِ سیاست“نہیں بتا رہے۔ خلافِ توقع کئی دہائیوں کے بعد پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی”سیاسی بازی“ سندھ کی سیاسی بساط پر پوری طرح سجائی جاچکی ہے اوراِس بساط پر مفاہمت کے بادشاہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سندھ حکومت کو بچانے کے فراق میں اپنے تمام اہم ترین پیادے کھیل کا آغاز ہونے سے بہت پہلے ہی کئی گھر آگے کو سرکا چکے ہیں۔ جناب کے سرکائے ہوئے سیاسی مہروں کے سامنے اِس وقت وفاقی حکومت کے مضبوط ترین سیاسی مہرے اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہیں۔نظر یہ آرہا ہے سندھ میں شروع کیئے جانے والا سیاست کا یہ نیا کھیل اتنی جلدی اختتام پذیر ہونے والا نہیں ہے جتنی جلدبازی کا مظاہرہ اِس سیاسی کھیل کو کھیلنے والے دو سب سے بڑے فریق پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کھلاڑی دکھارہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے نزدیک اِس کھیل میں اُن کا سب سے بڑا سیاسی ہدف سندھ حکومت کو سب کی نظروں سے بچا کر کچھ اِس طرح سے گرانا ہے کہ سندھ حکومت کے گرنے کا الزام اُن پر نہ آئے یعنی سندھ حکومت بھی گر جائے اور اِس کا الزام بھی سندھ حکومت پر تھوپ دیا جائے۔ مگر دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی بہر صورت سندھ حکومت کو بچانا چاہتی ہے چاہے اِس کام کی انجام دہی کے لیئے اُسے کوئی بھی سیاسی انداز اختیار کرنا پڑے۔بظاہر سندھ کی موجودہ سیاسی بساط پر پاکستان پیپلزپارٹی کے بازی گر نمایاں سبقت لے جاتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں اٹھارہویں ترمیم کی اضافی چھتر چھایہ بھی دستیاب ہے۔جبکہ اپنے حریف کے مقابلے میں سندھ کی سیاسی بساط پر تجربہ کار مہروں کی”خاص اکثریت“بھی اُنہیں حاصل ہے۔اس وقت تحریک انصاف کا سب سے بڑا سردر د بھی یہ ہی ہے کہ اُنہیں اٹھارہویں ترمیم کے ریڈار میں آئے بغیر سندھ حکومت کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے مگر یہ خطرناک کام کرتے ہوئے اس بات کا بھی لازمی لحاظ بھی رکھنا ہے کہیں پیپلزپارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرتے کرتے وہ خود ہی کہیں مزید اقلیت میں نہ چلی جائے۔
سب جانتے ہیں کہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب کے ریمارکس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے لیئے سندھ حکومت کو گرانے یا وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیئے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ فارورڈ بلاک بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ کار نہیں بچا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک صرف اُس صورت میں ہی بن سکتا جب پیپلزپارٹی کے کم ازکم دو درجن یا اِس سے زائد اراکینِ سندھ اسمبلی آصف علی زرداری صاحب سے اپنی ”سیاسی بیعت“ کو ختم کرکے تحریک انصاف کے کسی رہنما کے ”دستِ سیاست“ پر اپنی نئی ”سیاسی بیعت“ فرمالیں۔مگر مصیبت یہ ہے کہ اِس بار جس نے بھی پیپلزپارٹی سے اپنے سیاسی تعلق داری کا اختتام کیا وہ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہی سمجھا جائے گا کیونکہ جس قسم کے سیاسی حالات سے پیپلزپارٹی بطور سیاسی جماعت آج کل گزر رہی ہے،اِس نازک موڑ پرعین بیچ دوراہے میں وہ اپنے چھوڑ کے جانے والوں کو شاید ہی کبھی فراموش کرسکے اور یہ بات پیپلزپارٹی کے تمام اراکین ِ سندھ اسمبلی بھی بخوبی جانتے ہیں۔اس لیئے مجھے نہیں لگتا کہ صرف وزیراطلاعات و نشریات جناب فواد چوہدری کی یقین دہانی پر پیپلزپارٹی کے اراکین ِسندھ اسمبلی، پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف فارورڈ بلاک بنانے کا ”سیاسی رِسک“ لیں گے کیونکہ اتنے بڑے ”سیاسی رِسک“ کے لیئے کچھ بڑی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے اور یہ بڑی یقین دہانیاں کروانا جناب فواد چوہدری صاحب کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔پس غالب اِمکان یہ ہی ہے کہ سندھ میں کسی بھی قسم کا چھوٹا یا بڑا”فارورڈ بلاک“ بنانے سے قبل پیپلزپارٹی کے اراکینِ سندھ اسمبلی کی طرف سے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی بالمشافہ ”یقین دہانیوں“ کا شدت سے انتظار کیا جائے گااور جب تک یہ مستندترین یقین دہانیاں اراکین ِ سندھ اسمبلی بہ نفسِ نفیس اپنے کُھلے کانوں سُن نہیں لیں گے وہ اپنے لبوں کو یونہی بدستور بھینچے رہیں گے،آخر کار اپنا سیاسی کیرئیر تو ہر سیاست دان کو ہی پیارا ہوتا ہے۔
ساری بات کا لب ِ لباب یہ ہے کہ سندھ میں فاروڑبلاک یا تحریک عدم اعتماد کا سیاسی کھیل کھیلنا تحریک انصاف کے لیئے اُتنا آسان بھی نہیں ہے جتنا تحریک انصاف کے رہنما اپنے بیانات سے لوگوں کو باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔جبکہ سندھ کی سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو گرانا کوئی ایسا ناممکن کام بھی نہیں جیسا کہ پیپلزپارٹی کے ترجمان میڈیا پر آکر بتا رہے ہیں کیونکہ ماضی میں سندھ میں کئی طاقتور حکومتیں بڑی آسانی سے گرائی اور بنائی جاتی رہی ہیں۔شاید اسی لیئے کہا جاتاہے کہ سیاست کی بساط پر ہر چال چلنے سے پہلے بڑی سوچ و بچار سے کام لینا چاہئے کیونکہ بساطِ سیاست میں کبھی کبھار ”ہوشیار پیادے“ بھی ”خوش فہم اور غافل شہ“کو مات دے دیتے ہیں۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 24 جنوری 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023