Harassment in Sindh Universities

جنسی ہراسگی کے بڑھتے واقعات، لمحہ فکریہ

آج کل ہمارے معاشرے میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے سرکاری دفاتر ہوں یا پھر غیر سرکاری ادارے یا پھر اسکول کالج اور یونیورسٹیاں، کہیں پر بھی حوا کی بیٹی محفوظ نہیں ہے۔ ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں کی حالیہ تاریخ جنسی ہراسگی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دوسرے صوبوں کی طرح سندھ میں بھی گزشتہ کافی عرصے سے تواتر کے ساتھ تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے اخلاق باختہ واقعات میڈیا میں رپورٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سو شل میڈیا پر تیزی سے وائر ل ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ فکر کی بات تو یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان واقعات میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں شہید بے نظیر آباد(نواب شاہ) کی بینظیر بھٹو کے نام پر بنی یونیورسٹی نے بھی اپنا نام جنسی ہراسگی کے الزامات کی زد میں آنے والی یونیورسٹیوں کی فہرست میں درج کروا لیا ہے۔ جہاں پر الزامات کے مطابق اساتذہ طالبات سے موبائل نمبر مانگنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے کمروں میں بلانا اور میل جول بڑھانا کے مطالبات کر کے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔شعبہ انگلش کی فائنل ایئر کی پوزیشن ہولڈر طالبہ فرزانہ جمالی نے شہیدبے نظیر آباد (نواب شاہ) میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ”انگلش ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر عامر علی خٹک نے اسے مسلسل ہراساں کر کے اپنے کمرے میں ملاقات کرنے کا کہا اور انکار پر اسے امتحان میں فیل کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباؤ اور اذیت کا شکار ہو گئی۔ ذہنی کوفت سے تنگ آکراس نے یہ بات اپنے والد کو بتادی۔ جس پر اس کے والد وائس چانسلر ارشد سلیم کے پاس شکایت کرنے جا پہنچے۔

مبینہ طور پر پہلے تو وائس چانسلز نے ملنے سے انکار کردیا اور بعد میں اس کے والد سے کہا کہ وہ اس معاملے کو یہیں پر دبا دے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی بدنامی ہوگی، جب فرزانہ جمالی کے والد نے وائس چانسلر کی بات ماننے سے انکار کیا تو الٹا یونیورسٹی انتظامیہ نے اُس کے والد کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر کٹوا کر انہیں تھانے میں بند کروا دیا کہ انہوں نے یونیورسٹی میں شور شرابا کر کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی“۔دوسری جانب یونیورسٹی ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبہ کی شکایت پر 3 رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو واقعے کی تحقیقات کررہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آئی جی سندھ امجد جاوید سلیمی نے طالبہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد سے واقعہ کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔مگر ان تمام تر نوٹسز کے باوجود مبینہ طور پر مسلسل فرزانہ جمالی کے والدین کے اوپر علاقے کے با اثر لوگ، پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے کو کچھ لے دے کر رفع دفع کریں ورنہ جان لیں کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ فرزانہ جمالی جو کہ اپنے گاؤں کی وہ پہلی لڑکی ہے جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہے،خاندان بھر کی شدید مخالفت کے باوجود بھی اُس کے والد نے اُسے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لیے بھیجا۔ اگر سندھ کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے بھیس میں ایسے بھیڑے فرزانہ جمالی جیسی ہونہار لڑکیوں کو اسی طرح سے جنسی طور پر ہراساں کرتے رہیں گے تو پھر کون سے والدین اپنی بچیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے ان یونیورسٹوں میں بھیجیں گے۔ یاد رہے کہ سندھ کی کسی بھی یونیورسٹی میں ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جنسی ہراسگی کے نے شمار واقعات صوبہ سندھ میں یونیورسٹی آف کراچی، یونیورسٹی آف سندھ جام شورو اور شاہ عبدالطیف یونیورسٹی میں ہو چکے ہیں اور کچھ واقعات کے نتیجہ میں تو طالبات کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ہیں مگر آج تک نہ تو وہاں ہونے والے والے واقعات کی انکوائریوں کی رپورٹس منظر نامے پر آئیں نہ ہی کسی مجرم کو سزا ملی۔حالانکہ سندھ کی بیشتر یونیورسٹیویوں میں ہراسمنٹ سیل بھی بنے ہوئے لیکن ان کی فعالیت برائے نام ہی ہے اور اگر کوئی خاتون ہمت کر کے جنسی ہراسگی کی رپورٹ ان ہراسمنٹ سیل میں کسی کی خلاف درج کرا بھی دے تو انصاف حاصل کرنا تو بڑی دور کی بات ہے اُس بیچاری کے لیئے یہ ثابت کرنا ہی بڑا مشکل ہوجاتا ہے کہ اسے کس طرح ہراساں کیا گیا اور کہاں کہاں پر ہاتھ لگایا اور اس کے ساتھ کیا کیا ہوا۔ جس معاشرے میں جنسی ہراسگی صرف ہاتھ لگانے کو سمجھا جائے تو ایسے معاشرے میں کمرے میں بلانا کر میل جول کے لیئے مجبور کرنا تو پھر ایک عام سی ہی بات ہی تصور کی جائے گی۔

جس طرح تعلیمی اداروں میں روز بروز ان شعبوں میں منسلک چند افراد کی طرف سے جنسی ہراسگی کے واقعات سامنے آرہے ہیں اس کے لیے تعلیمی اداروں کے سربراہان اور تمام اساتذہ پروفیسرز اور لیکچرار صاحبان کے طرف سے نہ صرف مذمتی بلکہ ایسے کالے کرتوتوں کے حامل افراد کے لیے قرار واقعی سزا کے حق میں قرار داد سامنے آنی چاہیے جو اس مقد س شعبے کو بدنام کر رہے ہیں،نیز حکومتی اداروں کو بھی اس معاملے کا فوری حل نکالنا ہو گا اور خفیہ اداروں کی مدد سے اپنا دائرہ اختیار اور افرادی قوت کو مزید موثر بنا کر ایسے عناصر کے خلاف فوری سزاؤں کا اطلاق کو یقینی بنانا ہوگا اور قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا تاکہ سندھ کی یونیورسٹیز سے صنفی تقسیم کی بنیاد پر کیئے جانے والے استحصال کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 04 اکتوبر 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں