صوبہ سندھ کے عوام کو اپنے گھر کا خواب دکھاکر گزشتہ 30سالوں سے جعلی رہائشی اسکیمیں سے کھربوں روپے لوٹنے والے بلڈرز اور ان کے سرپرست افسران کیخلاف بڑے پیمانے پر جاری تحقیقات کے بعد رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی صنعت سے وابستہ افراد میں زبردست کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ بھر میں کراچی،حیدرآباد، شہید بے نظیر آباد،لاڑکانہ،خیرپور،سانگھڑ اور دیگر شہروں میں گزشتہ 30 سال قبل عوام سے رقوم بٹور کر پلاٹس کی فروخت کے لیئے جعلی رہائشی و کمرشل اسکیمیں شروع کی گئی تھیں جن کا نام ونشان تک موجود نہیں، بلڈر مافیا نے عوام سے کھربوں روپے وصول کئے جبکہ نہ ہی قبضہ دیا گیا اور نہ ہی کوئی ڈیولپمنٹ کی گئی جس کی وجہ سے سندھ بھر میں ہزاروں ایسی بوگس اسکیموں کے متعلق تحقیقات کی جا رہی ہیں جس کی تحقیقاتی اداروں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام سے تفصیلات مانگ لی ہیں۔اس سلسلے میں ایس بی سی اے اور آباد کے ممبران کے مابین چار اہم اجلاس منعقد کیے جا چکے ہیں جس میں بعض بلڈرز نے اسکیمیں مکمل نہ ہونے کی ذمہ داری یوٹیلیٹی اداروں پر عائد کی ہے جبکہ بیشتر بلڈرزکی اسکیمیں ہی بوگس بتائی جاتی ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بلڈرز کا ڈیٹا جمع کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے اور 50 فیصد ڈیٹا جمع کر لیا گیا ہے جس میں سندھ کے نامور بلڈرز کے نام بھی شامل ہیں جنھوں نے شہریوں سے رقوم تو پوری وصول کر رکھی ہیں جبکہ زمین پر پروجیکٹ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے یا زمین اُن کے نام پر نہیں جسے وہ عوام الناس کو فروخت کرچکے ہیں افسوس کی بات تو یہ کہ سندھ بھر یہ بڑے بڑے بلڈرز بڑی بڑی اسٹیٹ ایجنسیاں قائم کرکے اور جعلی ملکیتی کاغذات بنوا کر دن رات سادہ لوح عوام سے اربوں روپے کی مسلسل لوٹ مار کر رہے ہیں۔عوام کو اپنے ساتھ ہونے والی لوٹ مار کا پتہ اُس وقت چلتا ہے جب وہ اسکیم پوری ہونے کے بعد رجسٹری کے لیئے متعلقہ بلڈرز سے رابطہ کرتے ہیں جس پر اُنہیں ٹال مٹول سے کام لیا جاتاہے۔پھر یہ ٹال مٹول سالہا سال چلتا رہتاہے۔بعض جعلی رہائشی اسکیمیں سندھ میں ایسی بھی جن میں لوگ بیس بیس سال سے اپنے خریدے گئے پلاٹوں کی رجسٹری کروانے کے لیئے جگہ جگہ دھکے کھارہے ہیں لیکن کسی جگہ اُن کی شنوائی نہیں ہوپارہی۔معاملہ کی اسی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے حالیہ ہونے والی وسیع تر تحقیقات میں ایس بی سی اے کی جانب سے اس سلسلے میں بلڈرز کو تین کیٹگری میں تقسیم کیا جارہا ہے، ریڈ کیٹگری میں وہ بلڈرز شامل کیے جا رہے ہیں جنہوں نے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو لوٹا ہے ان بلڈرز کو آئندہ کوئی این او سی نہ دینے سمیت ان کیخلاف بھرپور کارروائی اور عوام کا لوٹا گیا پیسہ وصول کیا جائے گا جبکہ گرے کیٹگری میں شامل بلڈرزکو کچھ رعایت دیتے ہوئے ان کے منصوبوں میں حائل رکاوٹوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور متعلقہ اداروں کو بھی طلب کیا جائے گا جبکہ گرین کیٹگری کے بلڈرز کو شہر میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔علاوہ ازیں بنائی گئی تین کیٹگری میں زیادہ نام ریڈ کیٹگری کے بلڈرز کے بتائے جاتے ہیں جن کیخلاف بڑی کارروائی کا امکان ہے۔
چند روز قبل سندھ کے دو تین معروف بلڈر کو نیب کی جانب سے گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ سندھ بھر میں بہت سے بلڈرز کی گرفتاری آنے والے چند دنوں میں متوقع ہے۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی اداروں کی جانب سے لیے گئے سخت نوٹس اور کارروائیوں کے بعد ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حرکت میں آیا ہے،ورنہ اس سے پہلے یہ برسوں اپنی آنکھیں بند کرکے عضو معطل بنا ہوا تھا۔ اب اچھی بات یہ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی طرف سے بھی اس سلسلے میں ان تمام بلڈرز کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے جومقررہ وقت پر عوام کو قبضہ دینے میں ناکام رہے ہیں اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں پلاٹس کی اسکیم کیخلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔اس کے علاوہ غیرقانونی تعمیرات کی سرپرستی اور حقیقی انہدامی کارروائی نہ ہونے پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بڑے پیمانے پر سینئر اور جونیئر افسران کے خلاف محکمہ جاتی تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔ڈائریکٹر جنرل آغا مقصود عباس نے کہا ہے کہ فرائض سے بددیانتی کو برداشت نہیں کیا جائے گا مزید کارروائی بھی کی جائے گی، غیرقانونی تعمیرات رہیں گی یا ملوث افسران کی ملازمتیں باقی رہیں گی ڈائریکٹرجنرل کی جانب سے بلڈرز مافیا کے غیرقانونی تعمیراتی سلسلے کو سختی سے روکنے اور ان پر حقیقی انہدامی کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ کی بنیاد پر ایس بی سی اے کے 54 سینئر اور جونیئر افسران کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
ایس بی سی اے کی جاری کردہ فہرست کے مطابق گلشن اقبال ٹاؤن کے جن افسران کی عہدوں سے تنزلی کی گئی ان میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اویس حسین، مقصود علی قریشی، رضی بلگرامی، ایس کمال احمد، ریحان احمد قائمخانی، خالد فیاض کو2 سال کی مدت کے لیے گریڈ17سے 16 اور سینئر بلڈنگ انسپکٹرز ذیشان حیدر،کامران احمد،عمران صدیقی اورقمرامتیاز کوگریڈ16سے 15 اوربلڈنگ انسپکٹرشیرازاحمد ڈھر کی گریڈ 14سے گریڈ13کے عہدے پر تنزلی کی گئی، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز احتشام خان، اسد خان، فہد امتیاز، شہزاد رضا اور الطاف حسین کھوکھر، سینئربلڈنگ انسپکٹرز دانش علی بھٹو، احسان ریاض،بلڈنگ انسپکٹرز، یاور عباس،راحیل احمد،رضوان خانزادہ،ماجد علی اورفیصل عبداللہ کی تنخواہوں میں سال 2018 کا سالانہ انکریمنٹ روک دیا گیا ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹرعلی مہدی کاظمی،عبدالسمیع جمالانی اور نورالحسن کوسخت تنبیہ جاری کیے جانے سمیت ڈپٹی ڈائریکٹر علی اسد، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شاہد حسین خشک، وقار احمد اور ضمیر ایوب، سینئر بلڈنگ انسپکٹرز مسرور نبی میمن، بلڈنگ انسپکٹرز اخلاق احمد اوڈھو اورسید واجد علی شاہ کوفرائض کی درست ادائیگی کے لیے تنبیہ کی گئی ہے۔اسی طرح نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کے علاقے میں بلاک 5/A اور بلاک 5/E ناظم آبادسمیت نارتھ ناظم آباد کے دیگرعلاقوں میں غیرقانونی تعمیرات اور نامکمل انہدامی کارروائیوں پر اسسٹنٹ ڈائریکٹرز ذوالفقارعلی راہو،اویس حسین،شہزاد رضا، حزب اللہ شیخ کوگریڈ17سے گریڈ16میں اور سینئر بلڈنگ انسپکٹرز،شکیل احمداورشہریار مقصودکوگریڈ16سے 15 میں اور بلڈنگ انسپکٹرز،فاروق سومرو، اورنگزیب،عابد بھٹو عمران عباس اور اورنگزیب علی خان کی گریڈ 14سے 13پر تنزلی کردی گئی ہے۔ ڈائریکٹرجنرل ایس بی سی اے آغا مقصود عباس نے بارہا اجلاسوں میں اور تحریری احکام کے ذریعے افسران کو خبردار کیا تھا کہ غیرقانونی تعمیرات کی سرپرستی میں ملوث ادارے کے کسی بھی افسر یا اہلکار کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور اس سلسلے میں کسی بھی سفارش کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ انھوں نے اس معاملے میں انفرادی فائدے اور لالچ اور دباؤ کو یکسرمستردکرتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر انکوائری کمیٹی کے کام کو سراہا ہے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 01 فروری 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023