”دنیا میں وہ کون سی جگہ ہے جہاں جنگل ہیں مگر درخت نہیں،جہاں دریا ہیں لیکن اُن میں پانی نہیں،جہاں شہر توبے شمار ہیں مگر وہاں آبادی نہیں،جہاں سڑکیں ہیں مگر اُن پر کسی بھی قسم کی ٹریفک نہیں،جہاں ریلوے لائنیں ہیں مگر اُن ریلوے لائنوں پر کبھی بھی ٹرینیں نہیں چلتیں اور سب سے بڑھ کر وہاں زمینیں ہیں لیکن اُن زمینوں پر کوئی فصل،کوئی پودا اور نہ ہی کوئی پھول اُگتاہے۔اے میرے ذہین شاگرد کیا آپ مجھے اس جگہ کا نام بتا سکتے ہیں“۔
اپنے اُستاد کا یہ عجیب و غریب اور انتہائی غیر متوقع سوال سُن کر میں دم بہ خود رہ گیا۔اُس لمحہ فوری طور پر میرے ذہن میں جوبات آئی وہ یہ ہی تھی کہ شاید ایسی کوئی جگہ نہیں ہوتی،میرے ٹیچر نے مجھے صرف پریشان کرنے کے لیئے بس یونہی یہ سوال کر دیا ہے۔میرے ٹیچر نے جس وقت مجھ سے یہ سوال کیا اُس وقت میری عمر سات یا آٹھ سال کے قریب تھی اور میں چھٹی جماعت میں زیرتعلیم تھا۔اس لیئے میں نے اپنے خیال کے عین مطابق بچگانہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھٹ سے کہہ دیا کہ ”اُستادِ محترم ایسی کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی اگر حقیقت میں ایسی کوئی جگہ ہے تو آپ بتا دیں میں اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں“۔
میرے اُستاد نے اپنا دستِ شفقت پیار سے میرے سر پر پھیرتے ہوئے کہ ”بیٹا کسی سوال کا بھی جواب بغیر سوچے سمجھے اور عجلت میں نہیں دینا چاہئے بہتر تو یہ ہوتا کہ آپ میرے سوال پر سوچ و بچار کے لیئے مجھ سے کچھ وقت طلب کرتے اور پھر کوئی جواب دیتے بہر حال آپ کو بتائے دیتا ہوں میرے اس سوال کا جواب ”نقشہ“ ہے“۔
اپنے اُستادِمحترم کی زبان سے جواب سننا تھا کہ میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ اتنے مشکل سوال کا اتنا آسان جواب بھی ہوسکتا ہے۔اُس دن کے بعد می نے اپنے استاد کی بات گرہ باندھ لی کہ بغیر کسی پختہ ثبوت کے جہاں کسی شئے کو قبول کرنا درست طرزِ عمل نہیں ہوتا وہیں بنا کسی تحقیق اور سوچ بچار کسی شئے کا کلیتاً انکار کر دینا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔اب اسی تناظر میں ایک سوال میں آپ سے کرتا ہوں کہ کیا آپ مجھے ایسے ملک کا نام بتا سکتے ہیں جو نہ تو دنیا کے کسی نقشے میں موجود ہے،نہ اس کرہ ارض پر کسی جگہ پایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی دنیا کے تمام ممالک نہ صرف اس ملک کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ یورپین یونین کے تمام ممالک اس ملک کے شہریوں کو کاروبار کرنے کی آسان ترین شرائط پر اجازت دینے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی انتہائی پرکشش سہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔اس ملک کے شہری دنیا بھر میں جسمانی طور پر موجود ہونے کے باوجود بھی اس ملک میں جسمانی حیثیت میں داخل نہیں ہوسکتے لیکن پھر بھی اس ملک میں رہائش کے لیئے اعلی سے اعلی مکانات اور کاروباری دفاتر رکھتے ہیں حتی کہ اس ملک کی ایمبیسیاں بھی دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ قائم کی جارہی ہیں جہاں اس ملک کے باسیوں کو وہ تمام تر سہولیات فراہم کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے جو ہماری اس دنیا میں کسی بھی ملک کی ایمبیسی اپنے ملک کے شہریوں کو فراہم کرتی ہے۔اگر ابھی تک آپ کے ذہن ِ رسا میں اس عجیب و غریب ملک کا نام نہیں آیا، تواس حوالے سے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہم آپ کو خود ہی بتا دیتے ہیں کہ اس ملک کا نام”ای سٹونیا“ہے۔یہ ایک طرح کا ڈیجیٹل ملک ہے۔”ای سٹونیا“ دنیا کا وہ پہلا ملک ہونے کا دعویدا ہوگیا ہے جو بغیر زمینی وجود کے دنیا ئے انٹرنیٹ پر معرضِ وجود میں آگیا ہے۔اسٹونیا کے لوگ جو پہلے ہی دنیا بھر میں ”جدید قوم“ کے حیثیت سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں آخر کار وہ اب اس قابل بھی ہو گئے ہیں انہوں نے نہ صرف دنیا کے پہلا ”ڈیجیٹل ملک“ بنانے کا اعلان کر دیا بلکہ اب وہ اس ڈیجیٹل ملک کی دنیا بھر میں ”ڈیجیٹل ایمبیسیاں“ بھی قائم کرنے جارہے ہیں۔یہ ایمبیسی دنیا بھر میں ”ا ی سٹونیا“نامی ڈیجیٹل ملک کے ڈیجیٹل شہریوں کے تمام تر ڈیجیٹل ڈیٹا کو تحفظ فراہم کیا کریں گی۔
اسٹونیا یورپی یونین کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی تیرہ لاکھ چالیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا رقبہ 45227 مربع کلو میٹر ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد روس نے اسٹونیا کو اپنے ساتھ زبردستی ضم کرلیا تھا۔یہ وقت اسٹونیا کی عوام کے لیئے انتہائی مشکل اور صبر آزما تھا۔روس کی جارحیت کے خلاف اسٹونیا کی عوام نے بے مثال سیاسی جدوجہد کی۔جس کی نتیجے میں آخر کاراسٹونیا نے 20 اگست 1991 ء کو روس سے دوبارہ آزادی حاصل کرلی۔ اس وقت سے لے کر اب تک اسٹونیا میں سماجی اور معاشی اصطلاحات کا عمل مسلسل جاری رہا ہے۔اسٹونیا کو اس کی معاشی آزادی،نئی ٹیکنالوجیوں کے حصول اور دنیا کی تیز ترین معیشت ہونے کی وجہ سے اسے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار کیا جاتاہے۔ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اس ملک کے لوگوں کا عزم و ارادہ بہت بڑا ہے۔اپنے اسی عزم و ہمت کے بل بوتے پر اسٹونیا نے اپنے 99 فیصد حکومتی اُمور اور عوامی نوعیت کی خدمات کو انٹرنیٹ پر منتقل کر کے دنیا کے ممتاز ترین ماہرین عمرانیات سے خوب داد سمیٹی۔ اسٹونیا کو یہ منفرداعزاز بھی حاصل ہے کہ دنیا بھر میں سب سے پہلے الیکٹرانک ووٹنگ 2005 میں انتہائی کامیابی کے ساتھ یہاں ہی کروائی گئی تھی۔ اسٹونیا نے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیئے آج سے دو سال پہلے ”ڈیجیٹل ملک“ کا عجیب و غریب نظریہ پیش کیا۔ جس کا ابتداء میں بہت سے افراد اور ممالک کی طرف سے خوب مذاق اُڑایا گیا لیکن اسٹونیا کے لوگوں نے ہمت نہ ہاری اورآج دنیا کا پہلا ”ڈیجیٹل ملک“بنانے کا اپنا خواب اسٹونیا کی عوام نے پورا کرلیا ہے۔
ای اسٹونیا“میں کاروبارِ مملکت کیسے چلتے ہیں؟
دنیا کے اولین ڈیجیٹل ملک ”ای سٹونیا“ میں شہری بننے کے لیئے ای شہریت کا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے۔اس طریقہ کارکے تحت”ای سٹونیا“ کے ای شہریوں کو یہ سہولت فراہم کی گئی ہے کہ وہ اس ڈیجیٹل ملک کے ای شہری ہونے کی حیثیت سے یورپی یونین میں کاروبار کرسکیں اور اسٹونیا میں کم شرح ٹیکس کی سہولت سے بھی بھرپور طریقے سے مستفید ہوسکیں۔اس منصوبہ کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص چاہے اُس کا تعلق کسی بھی مذہب،زبان،نسل یا قوم سے ہو وہ بذریعہ انٹرنیٹ تھوڑی سی فیس ادا کرکے جو کہ اُس سے یورو کرنسی میں طلب کی جاتی ہے باآسانی اس ڈیجیٹل ملک کا ای شہری بن سکتا ہے۔”ای سٹونیا“ کے ای شہری کو یہ سہولت بطورِ خاص فراہم کی جاتی ہے کہ وہ ”ای سٹونیا“ کا ای شہری بن کر اسٹونیا کے بنک میں اکاؤنٹ کھلوا سکتا ہے اور اپنے کاروبار کو ای سگنیچر کی مدد سے دنیا بھر میں کہیں بھی اور کسی بھی جگہ سے آن لائن آپریٹ کر سکتا ہے اور اس کے لیئے اسے کسی بھی بیوروکریٹک یادفتری ماحول سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔اس حوالے سے اسٹونیا کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ”اگر آپ یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں عملی طور پر باقاعدہ ایک فنانشل کمپنی چلانا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے آپ ہمارے ڈیجیٹل ملک کے ای شہری بن سکتے ہیں جس میں آپ کو کاروبار کے لیئے بے شمار مواقع حاصل ہوں گے اور یہ کام آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں بیٹھ کر باآسانی انجام دے سکتے ہیں۔اس کے لیے آپ کو صرف ایک کمپیوٹر اور دنیا کے پہلے ڈیجیٹل ملک کی ”ای شہریت“ کی ضرورت ہو گی جو آپ ”ای سٹونیا“کی آفیشل ویب سائیٹ پر جاکر کمپیوٹر کے ایک سنگل کلک پر صرف تھوڑی سی فیس کی ادائیگی کر کے حاصل کرسکتے ہیں“۔ای اسٹونیا کی ای شہریت زندگی بھر کے لیئے فراہم کی جاتی ہے اگرآپ اس ملک کے ڈیجیٹل آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوتے تو آپ تاحیات اس ملک کے ای شہری رہ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ای شہریت کے تحت آپ کو حاصل ہونے والا آئی ڈی کارڈ یا دیگر کاغذات کی حیثیت بھی ڈیجیٹل ہی ہوگی۔ای شہریت کے تحت اسٹونیا اپنے کسی بھی ای شہری کو اپنا پاسپورٹ فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی حقیقی معنوں میں اسے اپنے ملک کی شہریت کا حقدار قرار دیا جائے گا۔یعنی آپ کے تمام تر کاغذات،شناختی کارڈ، ای پاسپورٹ وغیرہ کی اہمیت و ضرورت صرف اور صرف ڈیجیٹل ملک”ای سٹونیا“ میں ہی ہوگی اس کا حقیقی دنیا سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔اس وقت تقریباً 2500 سے بھی زائد کمپنیاں اس ڈیجیٹل ملک میں کام کررہی ہیں اور اب تک تقریباً1.5 ملین افرادکو ای شہریت دی بھی جاچکی ہے۔ای اسٹونیا کی حکومت چاہتی ہے کہ سال 2025 ء تک ان کے ڈیجیٹل ملک کے ای شہریوں کی تعداد دس ملین تک پہنچ جائے۔
ڈیجیٹل جمہوریت کاڈیجیٹل آئین
دنیا کے پہلے ڈیجیٹل ملک کے نظام ہائے مملکت کو چلانے کے لیئے باقاعدہ ایک ڈیجیٹل آئین ترتیب دیا گیا ہے۔جس کے تحت ہی آپ ای شہریت حاصل کرتے ہیں اور اس کی پاسداری ہی آپ کی ای شہریت کو تاعمر برقرار رکھتی ہے۔ یہ آئین آپ کو اپنے ڈیجیٹل ملک میں ای ووٹ کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔ جس کی طاقت سے آپ نہ صرف اس ملک کے لیئے اپنے ڈیجیٹل حکمرانوں اور ایڈوائزروں کا انتخاب کرسکتے ہیں بلکہ بوقت ضرورت اگر آپ ایک متحرک ای شہری کا کردار ادا کرتے ہوئے اس ملک کے دیگر ای شہریوں کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جائیں توپھر اس ڈیجیٹل ملک کے ڈیجیٹل آئین میں حسبِ ضرورت ترمیم واضافہ بھی کروا سکتے ہیں۔بہر حال اس ڈیجیٹل ملک کی ڈیجیٹل سیاست کا عملی حصہ بننے سے پہلے یہ بات ضرور ذہن میں رکھیئے گا کہ اس ملک میں ڈیجیٹل جمہوریت کا نظام رائج ہے اس کے علاوہ اس ملک میں کوئی اور ڈیجیٹل سیاسی نظام آزمایا نہیں جاسکتا۔
ڈیجیٹل ایمبیسی
مارٹن کاویٹ ای اسٹونیا کے پہلے ڈیجیٹل ایڈوائزر ہیں۔گزشتہ دنوں یورپین سائبر سیکورٹی فورم کے زیراہتمام ایک خصوصی نشست میں یونیورسٹی آف پورٹو سے منسلک پروفیسر مینوئیل کورئیا نے مارٹن کاویٹ سے ایک اہم ترین سوال کا جواب دریافت کیا کہ ”دنیا بھر میں جس طرح ہیکرزآئے روز سائبر حملے کرتے رہتے ہیں،کیا ان سے اپنے ملک”ای سٹونیا“ کے بچانے کے لیئے آپ کے پاس کوئی بہتر منصوبہ ہے؟“۔
مارٹن کاویٹ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ سائبر حملے ہمارے ملک کے لیئے ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں لیکن ہم نے اپنے ڈیجیٹل معاشرے کو بچانے کے لیئے دنیا بھر میں بے شمار ”ڈیجیٹل ایمبیسیاں“ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔جس کے تحت پہلی ”ڈیجیٹل ایمبیسی“یکم جنوری 2018 ء کو لکسمبرگ میں قائم کی جارہی ہے۔ہماری ”ڈیجیٹل ایمبیسیاں“دنیا کے چاروں طرف قائم کی جائیں،جن کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی۔ یہ”ڈیجیٹل ایمبیسیاں“ اصل میں ہمارے ملک کے ای شہریوں کو بلا تعطل اور مسلسل ڈیٹا بیک اپ فراہمی کو یقینی بنائیں گی جس کی وجہ سے ہمارے ڈیجیٹل ملک ”ای سٹونیا“ کو سائبر حملوں سے نقصان پہنچانا دنیا بھر کے ہیکرز کے لیئے کم و بیش ناممکن ہو جائے گا۔اس کے باوجود بھی اگر ہمارے ڈیجیٹل ملک پر کوئی سائبر حملہ ہوتا ہے یا بجلی کی فراہمی میں تعطل آتا ہے یا ہمیں کسی جنگی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتاہے تب بھی ہمیں اور ہمارے ای شہریوں کو اپنے ملکی و کاروباری معاملات ڈیجیٹلی چلانے کے دوران کسی بھی قسم کی رخنہ اندازی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا“۔
ای ریزیڈینسی
”ای سٹونیا“کے منتظمین ای ریزیڈینسی کو اپنے ای شہریوں کے لیئے ایک نایاب تحفہ قرار دیتے ہیں۔ای ریزیڈینسی کے ذریعے آپ ای اسٹونیا میں اپنے کاروبار کے لیئے ڈیجیٹل شناخت اور جگہ حاصل کرسکتے ہیں۔صرف 200 یورو کی معمولی فیس ادا کرکے آپ ”ای ریزیڈنسی“حاصل کر کے اپنے لیئے بے شمار ترجیحی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ای ریزیڈینسی کے تصورکو اس طرح بھی آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ فرض کریں کہ آپ دنیا کے پہلے ڈیجیٹل ملک میں مخصوس جگہ اور شناخت کے مالک ہیں، جیسے جیسے اس ملک کے شہریوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے آپ کی ڈیجیٹل جگہ کی مارکیٹ ویلیو میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے مثلاًآپ نے آج جو جگہ اور شناخت ”ای سٹونیا“ پر 200 یورو میں حاصل کی ہے ہوسکتا ہے کل اس کی مالیت 2000 یورو یا اس سے بھی کہیں زیادہ تک پہنچ جائے اور یوں آپ کی ای ریزیڈینسی آپ کو بیٹھے بٹھائے امیرو کبیر بھی بنا سکتی ہے۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کیئر
مستقبل قریب میں ”ای سٹونیا“ کے منتظمین نے اپنے ای شہریوں کو عالمی معیار کی طبی سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے۔اس منصوبہ کا نام ہیلتھ کیئر 4.0 رکھا گیاہے۔یہ مکمل طور پر ایک فلاحی منصوبہ ہے جس کے تحت ”ای سٹونیا“ کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر بہترین طبی علاج معالجہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔اس کے علاوہ”ای سٹونیا“ کے شہریوں کو ایسے جدید طبی آلات بھی بالکل مفت مہیا کیئے جائیں گے جن کی مدد سے وہ اپنے امراض کا علاج کسی ہسپتال میں داخل ہوئے بغیر یا کسی ڈاکٹر کی مدد حاصل کیئے بغیر بھی باآسانی کر سکیں گے۔اس کے لیئے”ای سٹونیا“نے طبی آلات میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے والی کئی کمپنیوں سے ابتدائی معاہدے بھی کرلیئے ہیں جن میں یہ طے پایا ہے کہ ڈیجیٹل ہیلتھ کیئر کے روبوٹک طبی آلات جنہیں ”پوائنٹ ٹو کیئر“ کا نام دیا جارہا ہے ترجیحی بنیادوں پر”ای سٹونیا“ کے ای شہریوں کو سب سے پہلے دیئے جائیں گے۔
بلاشبہ دنیا میں پہلے ڈیجیٹل ملک کا قیام ایک اہم ترین سنگِ میل ہے۔آگے جاکر یہ خیال عملی طور دنیا بھر میں کتنی مقبولیت حاصل کر پاتا ہے اس کا فیصلہ یقینا بہت جلد ہوجائے گا۔بہرحال ایک بات طے ہے کہ ”ای سٹونیا“ نے دورِ جدید کے علوم و فنون سے لگاؤ رکھنے والے افراد کے لیئے فکر و خیال کے بے شمار دریچے کھول دیئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ذہین و محنتی نوجوان اس ضمن میں کیا کارگزاری دکھاتے ہیں۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 17 دسمبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023