electricity-firing-on-ipps

بجلی کمپنیوں پر بجلی گرانے کا سنہری موقع

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی ہدایت پر آئی پی پیز کے بارے میں انکوائری رپورٹ کا جاری ہونا بلاشبہ تحریک انصاف کی حکومت کا اَب تک سب سے بڑا کارنامہ ہے۔جبکہ اِنکوائری رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے اِس تاثر کی بھی نفی ہوئی ہے کہ عمران خان نے کرپشن کرنے والے طاقت ور طبقہ اشرافیہ سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ آئی پی پیز کے بارے میں جاری ہونے والی انکوائر ی رپورٹ کرپشن کی الف لیلہ ہزار داستان ہے۔ جس کی ہر سطر سے کرپشن زدہ سیاست دانوں کے حقیقی چہرے صاف شناخت کیئے جاسکتے ہیں۔ اِس رپورٹ میں پاور پلانٹس کی جانب سے کم فیول استعمال کرنے اور فیول میں کک بیکس لینے کا انکشاف کیا گیا ہے اور ساتھ ہی بتایا گیا ہے کس طرح پاور پلانٹس مالکان نے کم ایندھن استعمال کرکے نیپرا کے سامنے زیادہ ایندھن کا خرچ ظاہر کیااور اضافی وصولیاں کیں۔ جبکہ رپورٹ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی طرف سے آئی پی پیز پر نوازشات کا بھی تذکرہ ہے کہ کس طرح سابقہ دورِ حکومت کی آشیر باد سے کو ئلے سے چلنے والے دو پاورپلانٹس نے دو سال میں سرمایہ کاری کا 71 فیصد وصول کرلیا۔ جبکہ ایک پاور پلانٹ نے پہلے سال ہی اپنی سرمایہ کاری کا 32 فیصد واپس وصول کرلیا۔ اس کے علاوہ آئی پی پیز کمپنیوں کی جانب سے ٹیرف لینے کے دوران نیپرا کوباربار گمراہ کرنے کا بھی ذکر جگہ جگہ موجود ہے۔

مگر سوال یہ ہے پیدا ہوتا ہے کہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اَب انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے خلاف عملی کاروائی کا بھی آغاز کیا جائے گا؟ یا پھر یہ رپورٹ بھی ماضی کی دیگر رپورٹس کی مانند مستقبل میں آگ تاپنے کے کام آئی گی۔ یقینا وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تو بھرپور کوشش ہو گی کہ وہ انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر اُن تمام عناصر کے خلاف ضابطہ کی کارروائی عمل میں لائیں جنہیں اِس رپورٹ میں ملزم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ کام اتنا بھی آسان نہیں ہوگا جتنا کہ تحریک انصاف کی کھلاڑی سمجھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ یہ بدنامِ زمانہ معاہدہ 1994 میں محترمہ بے نظیر کے دورِ حکومت میں کیا گیا تھا اور اِس معاہدہ کو طے کرتے وقت اِس بات کا پور اپورا خیال ملحوظ خاطر رکھا گیا تھاکہ مستقبل میں پاکستان کی کوئی بھی حکومت چاہ کر بھی اِس ”کرپشن زدہ معاہدہ“ کے شکنجے سے اپنے آپ کو چھڑا نہ سکے۔ آئی پی پیز کے ساتھ 13 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا یہ انوکھا معاہدہ، ایسی عجیب و غریب شرائط کے ساتھ کیا گیا تھاکہ جس کی دنیا بھر سے کوئی ایک مثال بھی نہیں پیش کی جاسکتی۔مثال کے طور پر اس معاہدے کے تحت آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں انہیں پیسے ملتے رہیں گے۔ جبکہ آئی پی پیز کمپنیاں پاکستانی روپوں میں سرمایہ کاری کریں جبکہ منافع کی وصولی ڈالروں میں کریں گی۔ جبکہ کیپیسٹی چارجز یعنی اگر کوئی کمپنی 300 میگا واٹ کا پاور پلانٹ لگائے گی تو حکومت اس کو 300 میگا واٹ کے لحاظ سے رقم ادا کرے گی کیونکہ کمپنی نے اس صلاحیت کا انفراسٹرکچر لگایا ہے۔اس کے بعد کمپنی جتنی بھی بجلی پیدا کرے حکومت وہ بجلی قیمتاً خریدنے کی پابند ہوگی۔ اس ادائیگی میں تاخیر پر لیکویڈیٹی چارجز بھی دینا ہونگے اور اس کے علاوہ فیول کی مد میں ایڈوانس ادائیگی بھی حکومت کو ہی کرنا تھا۔



طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ معاہدہ میں پاور پلانٹس کمپنیوں اور حکومت پاکستان کے درمیان تنازعات کے حل کا جو طریقہ کار طے کیا گیا اس میں فریقین نے لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن کو ہی آپشن رکھا تھا۔ حالانکہ یہ تمام آئی پی پیز کمپنیاں مقامی ہیں لیکن معاہدہ کی وجہ سے یہ ثالثی کے لیئے وقتا فوقتا بین الاقوامی فورم کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہتی ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار 20 سے زائد آئی پی پیز کمپنیوں نے بیک وقت لندن کورٹ آف آربیٹریشن سے رجوع کیا۔ ان میں سے صرف تین مقدمات کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر پاکستان کے حق میں آیا ہے، جبکہ باقی تمام مقدمات میں ریاستِ پاکستان کو نہ صرف بنیادی رقم ادا کرنے کا کہا گیا ہے بلکہ سود در سود کی رقم اور مقدمہ بازی کے اخراجات ادا کرنے کے احکامات بھی دیے گئے ہیں۔صرف 2017 میں نو پاور کمپنیوں نے پاکستان کے خلاف 11 ارب روپے کے مقدمات جیتے اور عدالت نے تین ارب روپے سود ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عدالت نے مقدمات پر آنے والے اخراجات بھی حکومت پاکستان کو ادا کرنے کا حکم دیا جو 60 کروڑ روپے بنتے تھے۔یعنی آئی پی پیز کے ساتھ کیئے جانے والے معاہدوں میں جان بوجھ کر ریاستِ پاکستان کو تحفظ دینے والی ایک بھی شرط نہیں رکھی گئی اور حکمرانوں نے کمیشن لے کر ہر وہ شرط لکھوادی جس سے حکومتِ پاکستان اِن آئی پی پیز کمپنیوں کے پاس گروی ہوسکتی تھی۔

بے نظیر دورِ حکومت میں ہونے والا آئی پی پیز کا یہ معاہدہ پاکستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا سب سے زیادہ کرپشن زدہ اور عوام دشمن معاہدہ قرار دیا جاسکتاہے۔ لہذا اَب ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ وزایراعظم پاکستان انکوائر ی رپورٹ میں نامزد کیئے گئے سیاسی اور غیر سیاسی مجرموں کو سخت سے سخت سزادلوانے کی کوشش کریں جبکہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات کی مدد سے کوئی ایسی سبیل بھی نکالیں جس سے یہ معاہدے بیک جنبش قلم منسوخ ہوسکیں تاکہ ریاستِ پاکستان آئی پی پیز کے شکنجے سے نکل کر سُکھ کر سانس لے سکے۔ اگر عمران خان یہ کام کرگزرے تو اُن کا یہ کارنامہ 1992 میں پاکستانی قوم کو کرکٹ کا ورلڈ کپ کا فاتح بنانے سے بھی کچھ زیادہ عظیم الشان اور یادگار ہوگا۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 27 اپریل 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں