eid-ul-adha-2021-and-our-responsibility

ایام عید قرباں اور ہماری ذمہ داریاں

”سلیم کے بابا! کیا قربانی کا جانور ذبح ہوگیا ہے؟“بیگم سلیم نے دروازے کی اوٹ سے اس قدر آہستگی سے صدالگائی کہ پاس ہی کھڑے سلیم صاحب کے علاوہ کسی کو اُن کی آواز سنائی نہ دے سکے۔
”ہاں! قسائی نے تھوڑی دیر قبل ہی ذبح کیا ہے،بس! اَب جانور کی کھال اُتاری جارہی ہے،جیسے ہی گوشت بنتا ہے،اُسے تقسیم کرنے کا آغاز کردیں گے“۔ سلیم صاحب نے دروازے کے بالکل قریب آکر جواب دیا۔
”مگر یاد رہے کہ بچھڑے کی ایک ران سیدھی گھر میں آئے گی اور دوسر ی ران فوری طور پر شبنم بیٹی کے گھر بھجوا دینا،تمہیں تو معلوم ہے کہ داماد صاحب نے ران کے لیئے خصوصی فرمائش کی ہے اور سری پائے ابا جان کے لیئے رکھنے ہیں،ڈاکٹر نے تجویز کیا ہے کہ پائے کا شوربا اُن کے موذی مرض کے علاج میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے“۔بیگم سلیم نے اپنے شوہر کو ناصحانہ اندز میں کہا۔
”اچھا! یہ تو بتا دو کلیجی،دل اور مغزکا کیا کرنا ہے؟۔ قسائی کہہ رہا ہے کہ وہ مغز اپنے ساتھ لے کر جائے گا“۔سلیم نے بیگم سے دریافت کیا۔
”سلیم کے بابا! یہ تم کیسی بات کر رہے ہو؟ جب قسائی بچھڑا ذبح کرنے کی منہ مانگی اُجرت لے رہا تو اُسے مغزکیسے دیا جاسکتاہے۔ تم بھول گئے ہوکیا؟کہ میں نے عید کے پہلے روز، ایک مغز ہی تو شوق سے کھانا ہوتا ہے۔اس لیئے موئے قسائی کو گوشت کی چند بوٹیوں پر ہی ٹرخا دو“۔بیگم سلیم نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا۔۔اچھا۔۔ ٹھیک ہے، زیادہ جذباتی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ران، کلیجی اور مغز سب سے پہلے گھر بجھواتا ہوں، بس!اَب عید کے دن اپنا موڈ خراب نہ کرنا“۔سلیم نے اپنی طرف سے بحث ختم کرنے کی کوشش کی۔
اپنے شوہر کی زبان سے معذرات خواہانہ جملے سن کر بیگم سلیم نے اطمینان کی ایک گہری سانس لی اور سلیم کو ہاتھ کے اشارہ سے اپنے مزید قریب بلا کر سرگوشیانہ انداز میں کہا ”اور دیکھونا! مغز کے چکر میں،آپ کو ایک انتہائی ضروری تاکید کرنا تو میں بھول ہی گئی کہ چانپ کے گوشت کی ایک بھی بوٹی تقسیم نہ ہونے پائے کیونکہ اُس کی بریانی آپ کی بہو کو بہت پسند ہے۔ہاں! اس کے بعد جتنا گوشت بچتا ہے، بے شک وہ سب کا سب غریب اور مساکین میں باہر ہی سے تقسیم کردینا گھر میں لانے کی ضرورت بھی نہیں ہے“۔بیگم سلیم نے اپنی بات مکمل کی اور دروازے کا پردہ گرا کر گھر کے اندرونی حصہ میں یہ جا او ر وہ جا۔
”اَب غریبو ں میں تقسیم کے لیئے بچا ہی کیا ہے،سوائے اوجھڑی اور کھال کے“۔سلیم صاحب نے بھی بڑبڑاتے ہوئے صحن کے اُس حصہ کی جانب تیزی سے اپنے قدم بڑھادیے جہاں قسائی قربانی کے جانور کی بوٹی بوٹی کرنے میں مصروف تھا۔

بدقسمتی سے گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے معاشرے میں عید قربان کے پرمسرت موقع پر اس طرح کی مایوس کن گفتگو کے مناظر کثرت سے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسے آپ من حیث القوم ہماری دینی تعلیمات سے دوری کہیں یا پھر سماجی بے حسی کہ عید الاضحی کے روز ہم قربانی کے جانور کے ساتھ ہی قربانی سے وابستہ اعلیٰ الہامی مقاصد کو بھی اپنی فطری بخیلی اور لالچ کی تیز دھار چھری سے ذبح کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔حالانکہ اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ، اعلیٰ اور افضل ہدایات پر استوار ہے اور تاجدار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت ابراہیمی کی پیروی میں قربانی کا جو تصور اپنی تعلیمات کے ذریعے اُمت کو دیا وہ سراسر مبنی بر ایثار ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی الہامی کتاب قرآن حکیم، فرقان مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ”اور قربانی کے بڑے جانوروں کو ہم نے تمہارے لیئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنادیا ہے اور ان میں تمہارے لیئے بھلائی ہے۔ پس،تم (انہیں)قطارمیں کھڑا کر کے (نیزہ مار کر نحر کے وقت)ان پر اللہ کا نام لو۔پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے (ایک طرف) بیٹھے رہنے والوں (مساکین)اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو(بھی) کھلاؤ۔اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کردیا ہے تاکہ تم شکر بجالاؤ۔(سورۃ الحج۔آیت: 36)۔مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ میں اللہ سبحانہ و تعالی نے مفصل اور واضح الفاظ میں قربانی کا گوشت محتاجوں،غریبوں اور مساکین میں تقسیم کرنے کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔ نیز اگلی آیت مبارکہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتاہے کہ ”ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔(سورۃ الحج۔ آیت: 37)۔

موخرالذکر آیت مبارکہ کی تفسیر میں ممتاز مفسر قرآن جناب مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ: ”یہ قربانی جوا نہیں پیش کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو ان قربانیوں سے کوئی نفع پہنچتاہے۔ خدا کو ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا۔ تمہاری پیش کی ہوئی یہ چیز تم ہی کو لوٹا دی جاتی ہے۔ تم خود اس کو کھاؤ اور بھوکوں اور محتاجوں کو کھلاؤ۔ قربانی کی مثال بالکل یوں ہے کہ کوئی اپنے سر کے تاج کو اصل بادشاہ کے قدموں پر رکھے اور بادشاہ اس تاج کو اپنے قدموں سے عزت دے کر پھر اس کے سر پر پہنا دے۔ خدا قربانیوں کے خون سے محظوظ نہیں ہوتا، بلکہ اس تقویٰ اور اس اطاعت سے خوش ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔“(تفسیر تدبرقرآن، 5: 244)۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ عید الاضحی کے ایام میں قربانی کا بنیادی مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور روح انسان میں تقویٰ کو پروان چڑھانا ہے نہ کہ محض جانور قربان کر کے گوشت اور خون اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نذر کرنا۔

قربانی کی کھال،کسے دیں، کسے نہ دیں؟
بظاہر ذکر کرتے ہوئے کچھ عجیب لگتاہے، مگر خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے کہ بعض عاقبت نااندیش افراد اور اداروں کے نزدیک عید الاضحی کے دن قربانی کے جانور کی کھال کا حصول سنت ابراہیمی کی ادائیگی یعنی قربانی کی عبادت سے بھی کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرچکاہے۔ عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ ابھی قربانی کے جانور نے اپنا پہلا قدم گھر میں رکھا ہی ہوتاہے کہ تھوڑی دیر بعد ہی مختلف وسیلوں اور واسطوں سے صاحبِ خانہ کو پیغامات ملنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ”برائے مہربانی،قربانی کی کھال صرف ان کی جماعت یا ادارے کو دینے کا پختہ عہد کرکے مشکور و ممنون فرمائیں“۔ سب سے افسوس ناک صورت حال اُس وقت پیدا ہوجاتی ہے، جب کسی شخص نے اجتماعی قربانی میں حصہ لیا ہوا ہوتاہے۔ چونکہ شرعی طورپر ایک اجتماعی قربانی میں سات حصہ دار ہوتے ہیں اورسب شراکت داروں کی حیثیت مساوی ہوتی ہے۔اس لیئے ہر حصہ دار اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہے کہ قربانی کے جانور کی کھال بہرصورت اُس کے من پسند ادارے اور جماعت کوہی جا سکے۔اگر معاملہ افہام و تفہم سے طے نہ ہو سکے تو کبھی کبھار نوبت بحث و تکرار سے بڑھ کر ہاتھاپائی تک بھی جاپہنچتی ہے۔ علاوہ ازیں کئی جماعتیں اور ادارے تو اپنے مخالف کی جمع کی ہوئی قربانی کی کھالیں چھیننے کے لیئے ایک دوسرے پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے۔

واضح رہے کہ دین اسلام نے جس طرح قربانی کے گوشت کے حق داروں کا بیان کیا ہے،عین اُسی طرح قربانی کی کھال کے مصارف بھی تفصیل سے ذکر کردیے ہیں۔ اس لیے یہ محدود سوچ رکھنا کہ قربانی کی کھال فقط کسی ادارے اور جماعت کوہی دینا ضروری ہوتاہے۔ قطعاً درست بات نہیں ہے۔ مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک حدیث میں مروی ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت) نہ دوں۔ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے۔(البخاری کتاب الحج)۔ فقہائے اسلام کے نزدیک قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانے کے لیئے جائے نماز وغیرہ بنانا بھی درست ہے اور کسی غریب،مسکین اور مستحق کو دینا تو انتہائی مستحسن عمل ہے۔یاد رہے کہ شر عی اعتبار سے ہر وہ شخص مستحق کہلائے گا،جس پر زکوۃ ادا کرنا واجب نہیں ہوتا۔نیز قربانی کی کھال خود فروخت کرکے،اُس سے حاصل ہونے والی رقم بھی کسی ضرورت مند کو بطور صدقہ دی جاسکتی ہے۔بہرکیف اپنے قربانی کے جانور کی کھال کسی بھی شخص، جماعت یا ادارے کو دینے سے قبل اُس کے متعلق خوب اچھی طرح سے تصدیق کرلیں کیونکہ بعض جماعتیں قربانی کی کھالوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اسلحہ و بارود خرید کر کے دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں میں استعمال کرکے بہت سی معصوم جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں۔

گوشت کی تقسیم پر توجہ فرمائیں
عید الاضحی کے دن قربانی کے گوشت کی منصفانہ تقسیم بھی توجہ طلب معاملہ ہوتاہے۔اس لیئے گوشت کے پیکٹ بناتے وقت بارِ دگر اچھی طرح سے جائزہ لینا ہرگز نہ بھولیں کہ کہیں آپ اپنے غریب پڑوسی،رشتہ دار اور دوست کو قربانی کے گوشت کے نام پر ہڈیاں، چربی اور چھیچھڑے بھیج کر اپنے سر سے زبردستی کے فرض کا بوجھ تو نہیں اُتار رہے ہیں؟۔کیونکہ اکثر و بیشتر دیکھنے میں یہ ہی آیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گھروں میں قربانی کا گوشت بھجوانے کی کوشش میں اول تو لفافوں میں گوشت ڈالا ہی برائے نام جاتاہے اور اُس میں بھی ہڈیوں اور چربی کی اتنی بھرمار کردی جاتی ہے کہ گوشت وصول کرنے والے فرد کے لیئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتاہے کہ وہ ہڈیوں کا شوربا بنائے،چربی کا گھی نکالے یا پھرصبر کی ہانڈی میں گوشت کے دو چار، پارچوں کو اُبلنے کے لیئے رکھ دے۔ اُصولی طور پر ضرورت مند اور مستحق گھرانے میں اتنی مقدار میں گوشت ضرور بھجوانا چاہئے کہ جو کم ازکم اُس گھرانے کی ایک وقت کی بھوک مٹانے کے لیئے کافی ہو۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے کہ ”تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے،جب تک تم (اللہ کی راہ میں)اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو۔بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے“۔(سورۃ آلِ عمران۔آیت: 92)۔سنتِ ابراہیمی کی پیروی کا درست مفہوم بھی یہ ہی ہے کہ عید قربان کے تینوں ایام جو کچھ صاحب ثروت افراد تناول فرماتے ہیں،ویسے ہی کھانوں کے ذائقہ سے لطف اندوز ہونے کا موقع غربا و مساکین کو میسر آسکے۔

علاوہ ازیں اگر ہم چاہیں تو تھوڑی سی اضافی دلچسپی لے کر قربانی کے گوشت کی تقسیم کے پورے عمل کو ہی روایت سے ذرا ہٹ کر مزید دلکش اور دیدہ زیب بھی بناسکتے ہیں۔یعنی پلاسٹک کی تھیلیوں میں گوشت تقسیم کرنے کے بجائے کاغذ کے خوب صورت لفافوں یاتام چینی اور مٹی کے برتنوں میں گوشت رکھ کر بھی آس پڑوس اور دوست احباب کو بھجوایا جاسکتاہے۔ یہ بالکل ویساہی تخلیقی طرزعمل ہوگا جو ہم اکثر ایک دوسرے کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرتے وقت، اپنے تحفہ کو خوب صورتی سے پیک کرتے ہوئے اختیار کرتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قربانی کا تقسیم کیا جانے والا گوشت بھی شرعی اصطلاح میں ہدیہ اور صدقہ ہی کہلاتا ہے۔ اس مناسبت سے قربانی کے گوشت کی خوب صورت پیشکش سے جہاں اُسے وصول کرنے والوں کو خوش گوار دلی فرحت کا احساس ہوگا، وہیں پلاسٹک کی تھیلیوں کے بے محابا استعمال سے ہونے والی ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوسکے گی۔

قربانی عباد ت ہے،صفائی ایمان ہے
ہم سب کو بخوبی علم ہے کہ بقرعید کے روز قربانی کا اہتمام کرنا ہر صاحبِ استطاعت مسلمان کے لیئے ایک واجب اور مسنون ”عبادت“ ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان خواہ اُن کا تعلق دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے سے ہو، عید قرباں پر بہتر سے بہترین جانور کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیئے اپنے پھرپور ذوق و شوق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کاش!ہمیں قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہ حدیث مبارکہ بھی یاد آجائے کہ جس میں رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے لیئے صفائی کو ”نصف ایمان“ قرار دیا ہے۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ ہمیں عیدالاضحی کے ایام میں عبادت کی ادائیگی تو یاد رہتی ہے مگر نصف ایمان کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سے ہمارے گلی،محلے اور شہر جانوروں کے خون اور آلائشوں کے باعث گندگی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں یہ صورت حال اور بھی زیادہ بدتر ہوتی ہے۔کیونکہ گنجان آباد علاقوں میں گلیاں چھوٹی اور راستے انتہائی تنگ ہونے سے قربانی کے بعد سرِ راہ پھینکی جانے والی آلائشوں کی بہتات سے پیدل آنے جانے کا راستہ بھی سلامت نہیں رہ پاتا۔

حالانکہ اگر ہم صدق دل سے عہد کرلیں کہ جانور کی قربانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گندگی کی صفائی بھی ہماری ذمہ داری ہے تو یقین مانیے! زیادہ سے زیادہ صرف 20 منٹ میں قربان گاہ کی مکمل صاف ستھرائی کاعمل باآسانی مکمل کیا جاسکتاہے۔ اس مسئلہ پر حکومت وقت سے شکوہ کرنا اس لیئے مناسب نہیں ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں ضلعی انتظامیہ اور بلدیاتی اداروں کی جانب سے جانوروں کی آلائشیں جمع کرنے اور اُٹھانے کے لیئے بے شمار خصوصی جگہیں مختص کی گئی ہوتی ہے۔ لیکن ہم اتنے سست اور غیر ذمہ دار واقع ہوئے ہیں کہ چند قدم کے فاصلہ پر موجود مقررہ جگہ پر آلائشیں ٹھکانے لگانے کی بھی زحمت گوار نہیں کرتے۔ اُلٹا ہم سرکاری اداروں کو طعنہ زنی کرنا شروع کردیتے ہیں کہ وہ ہر گھر کے دروازے کے سامنے پڑی ہوئی گندگی کو اُٹھانے کے لیئے اپنے ملازمین کو بھیجنے کا بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ یادرہے کہ دنیا کی کسی بھی حکومت کے لیئے یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ بیک وقت ہزاروں،لاکھوں گھروں کے سامنے سے گندگی اُٹھانے کے لیئے اپنے عملے کو تعیناتی کو یقینی بناسکے۔لہٰذا،اس عید قرباں پر ایک ذمہ دار شہری اور باعمل مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوہے، اپنے قربان کیئے گئے جانور کی آلائشیں کم ازکم،اُس مقام تک تو چھوڑ ہی آئیے گا،جسے حکومتی اداروں نے آلائشوں کے لیئے مقرر کیا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 18 جولائی 2021 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں