ماہرین سیاسیات کی متفقہ رائے ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن پاکستانی سیاست کا حال دیکھ کر تو کبھی کبھار لگتا ہے کہ شاید سیاست کے سر میں دماغ بھی نہیں ہوتاکیونکہ اگر سیاست کے سر میں دماغ ہوتا تو ہمیں وہ کچھ دیکھنے اور سننے کونہ ملتا جو کچھ آج کل پاکستانی سیاست کے حوالے سے رات سات بجے سے بارہ بجے تک مختلف نیوز چینلوں پر دیکھنے اور سننے کو بلا کسی توقف کے مسلسل ملتا رہتاہے۔ تازہ ترین مثال کے طور پر وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ کی طرف سے اپنی نو سالہ بیٹی کیف کو سرکاری اسکول میں داخل کروانے کا مستحسن اور قابلِ تقلید فیصلہ کو ہی لے لیجئے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیرِ تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ کے اس نادر و نایاب عمل کی صرف اور صرف اچھے لفظوں میں تحسین کی جاتی اور اس اقدام کو کچھ اس انداز میں میڈیا پر پیش کیا جاتاکہ ملکی سیاست کے اُفق پر چھائے ہوئے دیگر عمائدین سیاست بھی اس عمل کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے۔مگر کیا کریں ایک تو میڈیا کو ہر وقت صرف ریٹنگ کی پڑی ہوتی ہے اور دوسرا پاکستان پیپلزپارٹی کی ساکھ ہی کچھ اتنی زیادہ خراب ہے کہ اس کے صاف اور شفاف کام بھی اکثر منفی ساکھ کی کالک سے دھندلاجاتے ہیں۔حالانکہ کم از کم دو معاملات ضرور ایسے ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی ساکھ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے مقابلے میں ہزارہا درجے بہتر قرار دی جاسکتی ہے۔پہلی یہ ہے کہ ہمیشہ سے پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے کارکنان میں ہر قسم کی تنقید سننے اور اسے برداشت کرنے کا حوصلہ رہا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اپنے تمام تر جاگیردارانہ ماحول کے باوجود کچھ ایسے کام اس جماعت یا اس کے رہنماؤں سے سرزد ہو ہی جاتے ہیں جو پاکستان کی سیاست میں آگے جاکرایک قابلِ تقلید مثال بن جاتے ہیں۔جیسے چند ماہ پہلے ایک غریب ہندو دلت ہاری کی بیٹی کرشنا کوہلی کو ملک کے سب سے بڑے ایوان میں سینیٹر بنا کر پہنچا دینا اور اب وزیر تعلیم سندھ کی طرف سے اپنی اور اپنے بھائیوں کی بیٹیوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کروادینا۔اُمید ہے کہ یہ دونوں اقدامات قابلِ تقلید مثال کے طور پر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اُفق پر ہمیشہ یادگار بن کر جگمگاتے رہیں گے۔مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ سیاست پر تجزیہ دیتے وقت تجزیہ کاروں کو شک کے سائے کچھ حقیقت سے زیادہ ہی مہیب دکھائی دیتے ہیں جب ہی تو ہمارے بعض سیاسی تجزیہ کاروں کو وزیرتعلیم سندھ کے اس عمل میں بھی کسی دھوکہ دہی یا سازش کی بُو محسوس ہورہی ہے اور اُن کی طرف سے انکشاف کیا جارہا ہے کہ وزیرتعلیم سندھ نے یہ سب کچھ صرف دکھاوے کے لیئے کیا ہے۔بھئی اگر یہ سب دکھاوے کے لیئے بھی کیا گیا ہے تو کچھ ایسے ہی دکھاوے تنقید کے نشتر چلانے والے خود کیوں نہیں دکھا دیتے ویسے بھی سندھ کے تعلیمی نظام کو بہتری کے لیئے اس طرح کے دکھاوں کی اشد ضرورت ہے۔
سندھ میں تعلیم اور سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،اس لیے جہاں تک اس ابتر صورت حال کے اصل ذمہ داروں کے تعین کی بات ہے تو چونکہ گزشتہ دس سالوں سے پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہی سندھ حکومت کی زمامِ اقتدار رہی ہے اس لیئے سرکاری اسکولوں کی خراب صورتحال کا تمام تر ذمہ دار پیپلزپارٹی کو قرار دیا جانا عین قرین انصاف کہا جاسکتا، یہ سندھ حکومت کی ایک ایسی کوتاہی جس کی کوئی بھی وضاحت نہیں پیش کی جاسکتی۔ حالانکہ سندھ حکومت گزشتہ دس سالوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت سدھارنے میں ذرا سی بھی توجہ دیتی تو بہت کچھ بہتر ہوسکتا تھا مگر افسوس سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے بلند بانگ دعووں اور حالیہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی تمام تر اُمیدوں کے باوجود اب تک سندھ حکومت کی طرف سے کوئی بھی ایسا عملی قدم نہیں اُٹھایا جاسکا جس سے فوری طور پر سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔سندھ حکومت سے متعلق تمام تر تحفظات کے باوجود وزیرتعلیم سندھ کے طور پر سید سردار علی شاہ کی نامزدگی بلاشبہ بلاول بھٹو زرداری صاحب کا ایک انتہائی اچھا قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ سندھ کا نظام تعلیم کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں آیا ہے جو خالی خولی دعووں کے برعکس عملی طور پر بہت کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔جس کا ایک فوری ثبوت ہمیں مل بھی گیا ہے۔جس پر وزیرتعلیم سندھ بے انتہا ستائش اور شاباش کے مستحق ہیں لیکن جناب سید سردار علی شاہ کی خدمت میں سپاس گزاری کے بعد ایک گزارش یہ بھی ہے کہ برائے مہربانی سندھ کے نظام ِ تعلیم کی بہتری کے لیئے آپ کی جانب سے اُٹھائے جانے والے اس پہلے قدم کے بعد کہیں اچانک رُک نہ جائیے گا بلکہ سندھ کے تعلیمی نظام کو آپ کے دوسرے،تیسرے اور اسکے بعد چند مزید بڑے قدم اُٹھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔سندھ کے تعلیمی نظام کی بہتری کے خواب دیکھنے والے ہر شخص کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا اب آپ کے ہاتھوں میں ہے اس لیئے چاہے کچھ بھی ہوجائے آنے والے دنوں میں سندھ کے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیئے آپ کی کاوشوں میں کمی نہیں آنی چاہیئے۔بظاہر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ہر طرف سے، یہاں تک کے آپ کی جماعت کے اندر سے بھی آپ کے راستہ کو کھوٹا کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی مگر اُمید ہے کہ آپ کی جماعت کے شریک چیئر مین بلاول بھٹو زرداری آپ کی بھرپورپشت پناہی اور معاونت فرمائیں گے کیونکہ خود اُنہوں نے بھی دنیا کی اعلیٰ ترین تعلیمی درسگاہ میں اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔اس لیئے تعلیمی اداروں کی اہمیت کو اُن سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔تو کیا پھر سندھ کے عوام خاطر جمع رکھیں کہ اس بار بلاول بھٹو کے وژن کے عین مطابق سندھ حکومت اپنی سابقہ کارکردگی کے برعکس کچھ کرگزرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 25 اکتوبر 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023
“شاباش۔۔۔! وزیر تعلیم سندھ” ایک تبصرہ